مہنگائی کی شرح حکومت کے قیام کے بعد کم ترین سطح پر آگئی، وزیراعظم

 اسلام آباد: وزیراعظم نے کہا ہے کہ میں نے اپنی معاشی ٹیم کو چوکنا رہنے اور مہنگائی کنٹرول رکھنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ معاشی شعبے کے حوالے سے مزید اچھی خبریں آ رہی ہیں، مہنگائی میں کمی کی ہماری کوششیں بہترین نتائج لارہی ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سی پی آئی اور بنیادی افراط زر اگست 2018 سے بھی پہلے والی سطح پر آگئے ہیں، میں نے اپنی معاشی ٹیم کو چوکنا رہنے اور مہنگائی کنٹرول رکھنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران گھی، تیل اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتیں میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے تاہم وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بھی اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ  ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی ہوتی جارہی ہے، مہنگائی کی شرح آج پی ٹی آئی حکومت کی تشکیل سے پہلے کی شرح سے کم ہے۔ جولائی 2018 پی ٹی آئی حکومت کی تشکیل سے قبل سی پی آئی 5.8 فیصد اور کور 7.6 فیصد تھا۔ لیکن اب افراط زر5.7 فیصد اور کور 5.4 فیصد ہے۔

 

The post مہنگائی کی شرح حکومت کے قیام کے بعد کم ترین سطح پر آگئی، وزیراعظم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3j0Kfal

میں چاہوں توعمران خان کی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، پرویز خٹک

نوشہرہ: وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ اگر میں کچھ کرنا چاہوں تو عمران خان کی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔

نوشہرہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پروز خٹک نے کہا کہ اگر میں کچھ کرنا چاہوں تو عمران خان کی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی لیکن عمران خان کے مجھ پر بہت سے احسانات ہیں اس لیے ان کے ساتھ مخلص ہوں۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ جس کا ساتھ دوں وہ اسمان تک پہنچ جاتا ہے اور اگر ساتھ چھوڑوں تو صفر ہو جائے گا، آج اپوزیشن اور اسمبلی ممبران میری عزت کرتے ہیں، کیونکہ میں انکو سنبھالتا ہوں، یہ میری محنت ہے، یہ میری جدوجہد ہے اج میں پورے پاکستان کا مقابلہ کررہا ہوں۔

بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں پرویز خٹک نے اپنے بیان کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ میں نے نوشہرہ میں مقامی لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں عمران خان کے ساتھ مخلص ہوں، ہم اپنے حلقے میں اپنی کاوشوں اور عمران خان کی سپورٹ سے کامیاب ہوئے جب کہ ضمنی انتخاب میں ہمارے امیدوار کے خلاف متحد تمام اپوزیشن پارٹیوں کو شکست دیں گے۔

The post میں چاہوں توعمران خان کی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، پرویز خٹک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3j0jgM2

ہماری حکومت سے پہلے زیادہ مہنگائی تھی، اسد عمر

 اسلام آباد: وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہوتی جارہی ہے اب افراط زر 5.8 سے کم ہوکر 5 اعشاریہ 7 فیصد رہ گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی ہوتی جارہی ہے، مہنگائی کی شرح آج پی ٹی آئی حکومت کی تشکیل سے پہلے کی شرح سے کم ہے۔

وفاقی وزیر نے مہنگائی کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ جولائی 2018 پی ٹی آئی حکومت کی تشکیل سے قبل سی پی آئی 5.8 فیصد اور کور 7.6 فیصد تھا۔ لیکن اب افراط زر5.7 فیصد اور کور 5.4 فیصد ہے۔

 

 

The post ہماری حکومت سے پہلے زیادہ مہنگائی تھی، اسد عمر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3anhe4q

عمران خان نے پورے ملک میں ہر سطح پہ کرپشن کی منڈی لگائی ہوئی ہے، ترجمان (ن) لیگ

لاہور: مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پورے ملک میں ہر سطح پہ کرپشن کی منڈی لگائی ہوئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ مسلط کردہ ٹولے کی تاریخی کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے اوراس کی بنیادیں ہلا رہی ہے، عمران خان نے پورے ملک میں ہر سطح پہ کرپشن کی منڈی لگائی ہوئی ہے۔

مریم اورنگزیب کا کنہا تھا کہ ملک پر مسلط سلیکٹڈ وزیراعظم اگر آٹا، بجلی گیس اور دوائی چوروں کا سہولت کار ہو تو کرپشن انڈیکس ہی نہیں کرپشن میں بھی تاریخی اضافہ ہوگا، جب  مسلط وزیراعظم 23 فارن فنڈنگ اکاونٹس سے غیرقانونی فنڈنگ لیتے پکڑا جائے تو کرپشن انڈیکس میں اضافہ ہی گا۔

ترجمان (ن) نے کہا کہ مسلط وزیراعظم 400 ارب کی چینی چوری میں ملوث ہے تو کرپشن کا انڈیکس بڑھے گا نہیں تو اور کیا ہو گا؟ جب سلیکٹڈ وزیراعظم عوام کے215 ارب کے آٹے، 122 ارب کی ایل این جی ڈکیتی میں سہولت کار ہو تو کرپشن انڈیکس بڑھے گا نہیں تو اور کیا ہو گا؟۔

The post عمران خان نے پورے ملک میں ہر سطح پہ کرپشن کی منڈی لگائی ہوئی ہے، ترجمان (ن) لیگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3oxesyU

شادی کے بعد بختاور کی شوہر کےہمراہ پہلی تصویر منظرعام پر

کراچی: شہید بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کی شادی کے بعد شوہر کے ہمراہ پہلی تصویر منظرعام پر آگئی۔

بختاور بھٹو کی شادی 29 جنوری کو دبئی کے بزنس مین محمود چوہدری کے ساتھ ہوئی اور گزشتہ روز کراچی بلاول ہاؤس میں ان کے استقبالیے کی تقریب منعقد ہوئی۔

نکاح والے دن بختاور نے ڈیزائنر وردہ سلیم کا کامدار سنہرا لباس زیب تن کیا تھا جب کہ محمود چوہدری نے سفید شیروانی اور روایتی کلہ پہنا تھا۔

دونوں کے نکاح کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں. تاہم نکاح کی کسی بھی تصویر میں دلہا اور دلہن ایک ساتھ نہیں دکھائی دئیے تھے۔

گزشتہ روز شرمیلا فاروقی نے استقبالیے کی تقریب میں موجود دلہن بختاور کی ان کے بھائی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوزرداری کے ہمراہ ان کی تصویر شیئر کی تھی۔

اور آج شرمیلا فاروقی نے ہی نوبیاہتا جوڑے کی تصویر شیئر کی ہےاور دونوں کو شادی کی مبارکباد دی ہے۔ شادی کے بعد بختاور اور محمود چوہدری کی یہ پہلی تصویر ہے جو منظر عام پر آئی ہے۔ تصویر میں  دیکھا جاسکتا ہے کہ بختاور نے اپنے استقبالیے کی تقریب کے لیے گہرے سبز اور سنہری کام والا لباس زیب تن کیا ہے اور لباس سے میچ کرتاہوا ماسک اور جیولری پہنی ہے۔ جب کہ ان کے شوہر سیاہ رنگ کے لباس میں نظر آرہے ہیں۔

دلہا دلہن کی یہ تصویر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور لوگوں کی جانب سے نئے شادی شدہ جوڑے کو نئی زندگی کے لیے نیک تمنائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

استقبالیے کی تقریب میں شرمیلا فاروقی کی تصاویر بھی وائرل ہوئیں جس میں وہ اپنے لباس سے میچنگ کا ماسک لگائی ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ بختاور بھٹو کے استقبالیے کی تقریب میں سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، سمیت پیپلزپارٹی کے ارکان قومی اسمبلی، صوبائی وزرا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر اور ملک بھر سے آنے والے مہمان شریک ہوئے۔

استقبالیے کی تقریب میں بختاور کی بہن آصفہ بھٹوزرداری، پھپھو فریال تالپور کے علاوہ دیگر شرکا کورونا ایس اوپیز کے تحت ماسک پہنے ہوئے تھے۔

Image

The post شادی کے بعد بختاور کی شوہر کےہمراہ پہلی تصویر منظرعام پر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3r3ol99

حکومت کی معاشی کامیابیاں کرپٹ سیاستدانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں، فردوس عاشق

لاہور: معاون خصوصی اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت کی معاشی کامیابیاں مفاد پرست اور کرپٹ سیاستدانوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں معاون خصوصی اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ جنوری 2020 میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ خطے کی دوسری جب کہ دنیا کی ساتویں بہترین مارکیٹ بن کر سامنے آئی، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی حکومت کی معاشی کامیابیاں مفاد پرست اور کرپٹ سیاستدانوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹریکٹرز کی فروخت میں 43 فیصد اضافہ، اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ بہتری، مالی سال 2019- 20 میں 15 ہزار 200 سے بڑھ کر 21 ہزار 800  یونٹس ٹریکٹرز کی فروخت وزیراعظم کی درست معاشی پالیسیوں کی عکاس ہے، جو زرعی پیداوار اور زرمبادلہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ کسان کی خوشحالی میں مددگار ثابت ہوگا۔

 

The post حکومت کی معاشی کامیابیاں کرپٹ سیاستدانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں، فردوس عاشق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/36q82uY

جنوبی پنجاب اسمگل ہونے والے اسلحے کی بڑی کھیپ پکڑی گئی

وہاڑی: پولیس نے کارروائی کرکے جنوبی پنجاب اسمگل ہونے والا بھاری تعداد میں اسلحہ پکڑ لیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جنوبی پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، اور پولیس نے کارروائی کرکے اسلحے کی بڑی کھیپ قبضے میں لے لی ہے، جب کہ ملزم کو فیملی سمیت گرفتار کرلیا  گیا ہے۔

ڈی ایس پی وہاڑی روبینہ عباس نے بتایا کہ ملزم کے قبضے سے 35 پسٹل، 3 رائفل، 7 گن اور 9 ایم ایم کے 18 پسٹل اور 26 ہزار سے زائد گولیاں و کارتوس بھی برآمد ہوئے ہیں، اور ملزم نے یہ اسلحہ جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں سپلائی کرنا تھا۔

ڈی ایس پی صدر افضل لودھی کا کہنا تھا کہ ملزم اسلحہ کی سپلائی کے دوران فیملی کے ساتھ سفر کرتا تھا، جس وجہ سے پولیس سے بچ جاتا تھا، تاہم خفیہ اطلاع پر کارروائی کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا، ملزم کے قبضے سے اسلحے کے علاوہ 6 لاکھ سے زائد نقد رقم بھی برآمد ہوئی ہے، ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے۔

 

 

The post جنوبی پنجاب اسمگل ہونے والے اسلحے کی بڑی کھیپ پکڑی گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3ahgPAE

نوجوان نے محبوبہ کو خوش کرنے کے لیے اس کے بہنوئی کو قتل کردیا

مریدکے: نوجوان نے محبوبہ کو خوش کرنے کے لیے اس کے بہنوئی کو گولی مار کر قتل کردیا۔

پولیس حکام کے مطابق مریدکے کے علاقے تھانہ سٹی پولیس نے چند روز قبل ہونے والے اندھے قتل کے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے، لاہور کے رہائشی نوجوان نے محبوبہ کو خوش کرنے کے لیے اس کے بہنوئی کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

ڈی ایس پی افتخار وریا نے بتا کہ علی حیدر نامی ملزم کے مقتول کی سالی کے ساتھ تعلقات تھے، اور مقتول محبوبہ کی بہن پر ظلم کرتا تھا، جسے خوش کرنے کے لیے اس کے بہنوئی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ ملزم نے ابتدائی تفتیش میں اقرار کیا ہے کہ طفیل مدھیال کو قتل کی وجہ یہی تھی کہ وہ میری محبوبہ کی بہن پر ظلم کرتا تھا۔

ڈی ایس پی کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ملزم کا کھوج لگا لیا اور اسے گرفتار کرلیا، ملزم کے قبضے سے اسلحہ اور واردات میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بھی برآمد کرلی گئی ہے، جب کہ پولیس نے ملزم کی محبوبہ ار مقتول طفیل مدھیال کی سالی کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔

 

The post نوجوان نے محبوبہ کو خوش کرنے کے لیے اس کے بہنوئی کو قتل کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3j1rGTa

دوسری جماعت کا طالبعلم پراسرار طور پر جاں بحق

کراچی: نجی اسکول میں دوسری جماعت کاطالب علم پراسرار طور پر جاں بحق ہوگیا۔

شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے عبداللہ گوٹھ میں واقع اسکالرگرامر اسکول کی دوسری منزل پر 8 سالہ ساحل افتخار جاں بحق ہوگیا ،اسکول انتظامیہ نے اطلاع والدہ کو دی کہ آپ کا بچہ اسکول میں گرگیا ہے، والدہ اپنے بچے کو فوری طور پر جناح اسپتال لے گئی جہاں ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کردی۔

اسکول ٹیچر جنید احمد نے ایکسپریس کو بتایا ساڑے 8بجے کے درمیان ساحل افتخارکرسی پر بیٹھا بیٹھا اچانک گرگیا جیسے اٹھایاگیا مگروہ ہوش میں نہیں تھا جس کے بعد والدہ کو موبائل فون پر اطلاع دی گئی، ساحل کوجب ایڈمیشن دیا گیا تھا اس وقت والدہ نے بتایا تھا کہ ساحل دل کے عارضہ میں مبتلا ہے۔

چوکیدار افتخار احمد نے بتایا کہ ہرروز بچے کا بیگ اوراسے اوپر دوسری منزل پر لیکر جاتا تھا، تعلقہ ایجوکیشن افسر ریاض احمد نے بتایاکہ کوروناکی وجہ سے حکومت نے یکم فروری تک اسکول بندکرائے ہیں، انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر اسکول کھولا تھا۔

بچے کی ہلاکت دل کے عارضے سے ہوئی ،تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ

نجی اسکول میں بچے کی ہلاکت کے معاملے پر تشکیل دی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ محکمہ تعلیم سندھ کو پیش کردی، رپورٹ کے مطابق بچہ صبح 8 بج کر 26 منٹ پر اسکول پہنچا تھا، بچہ کلاس میں ڈیسک پر بیٹھنے کے فورا بعد ہی گرگیا، بچے کو فوری قریبی سٹی اسپتال لے جایا گیا۔

سٹی اسپتال سے این آئی سی وی ڈی کیمپس بھیجا گیا جہاں سے اسے جناح اسپتال بھیج دیا گیا، جناح اسپتال میں بچے کے دل کے عارضے کے باعث انتقال ہونے کی تصدیق ہوئی۔

 

The post دوسری جماعت کا طالبعلم پراسرار طور پر جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2YxUR77

پشاور جیل کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ، انسپکٹر شہید 

پشاور: سینٹرل جیل پشاور کے باہر  نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سی ٹی ڈی انسپکٹر شہید جبکہ گن مین زخمی ہو گیا جسے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ہفتہ کی شب انسپکٹر خوشدل خان جو کہ سینٹرل جیل کے ڈیوٹی انچارج تھے ذاتی گن مین افتخار کے ہمراہ جیل کے باہر اپنی گاڑی میں موجود تھے کہ دو نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی اور خوشدل خان موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کیلیے سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔

The post پشاور جیل کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ، انسپکٹر شہید  appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/39zDNUx

نفرت انگیز اور متنازع مواد والے 9 لاکھ 81 ہزار لنکس بلاک

اسلام آباد: جنوری2021 تک انٹرنیٹ پر نفرت انگیز، متنازعہ اور نامناسب مواد سے متعلق 9لاکھ ،81 ہزار لنکس بلاک کئے گئے۔ 

پی ٹی اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی ہے کہ جنوری2021 تک انٹرنیٹ پر نفرت انگیز، متنازعہ اور نامناسب مواد سے متعلق 9لاکھ ،81 ہزار لنکس بلاک کئے گئے۔ سب سے زیادہ لنکس 8 لاکھ، 65 ہزار، 187 غیر اخلاقی مواد ، 16ہزار سے زیادہ لنکس دفاع پاکستان اور22 ہزار فرقہ واریت پھیلانے پر بلاک ہوئے۔

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ میں مزید بتایا کہ فیس بک، ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر متنازعہ مواد ہٹانے کے لئے ان سے ہی رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ملک کی ڈیجیٹل اسپیس کو محفوظ بنانے کے لئے وزارت دفاع اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کیساتھ کام کر رہے ہیں۔

ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کو ہدایات دیکر ویب مینجمنٹ سسٹم بھی انسٹال کیا جا چکا ہے جو گرے ٹریفکنگ روکنے میں بھی معاون ثابت ہو رہا ہے۔ ویب مینجمنٹ سسٹم سے پیکا کے تحت پیج، یو آر ایل اور لنکس بھی بلاک کئے جاتے ہیں۔ پانچ ہزار سے زیادہ تضحیک آمیز پیجز اور لنکس بھی اب تک بلاک کئے جا چکے ہیں۔

شکایات کے آن لائن پورٹل تک وفاقی و صوبائی محکموں سمیت 36اسٹیک ہولڈرز کو رسائی دے دی گئی ہے۔

 

The post نفرت انگیز اور متنازع مواد والے 9 لاکھ 81 ہزار لنکس بلاک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/36pY1Oo

قومی ادارہ امراض قلب کراچی کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور عملے پر تشدد

 کراچی: جناح اسپتال کے قریب شعبہ امراض قلب کے دروازے پر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور تشدد سے سیکیورٹی گارڈ اور انتظامیہ کا ایک نمائندہ زخمی ہوگیا۔

کراچی میں جناح اسپتال کے قریب شعبہ امراض قلب کے مرکزی دروازے پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے علاقے میں خوف ہراس پھیل گیا ، فائرنگ کرنے والوں نے اسپتال کے سیکیورٹی گارڈ اور انتظامیہ کے ایک نمائندے کو بھی زخمی کیا۔ فائرنگ کر کے فرار ہونے والوں کی گاڑی کی نمبر پلیٹ کے اوپر ایک سیاسی جماعت کا مخصوص مونوگرام تھا۔

اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ایک کار میں سوار 4 افراد آئے جو نشے میں دھت تھے اور اسپتال میں نامعلوم وجوہات پر آنا چاہتے تھے ، گارڈز نے انہوں روکنے کی کوشش کی تو 2 افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا اور فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔ ملزمان میں سے ایک شخص وہاں رہ گیا تھا اس کے نظر آنے پر گارڈز نے پکڑ کر صدر پولیس کے حوالے کر دیا ، ملزم نے اپنا نام احمر بتایا ہے، فائرنگ کر کے فرار ہونے والے افراد کی گاڑی کی نمبر پلیٹ کے ساتھ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام کی تختی لگی تھی۔

ایس ایچ او صدر انسپکٹر ارشد آفریدی سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے باہر مسلح افراد نے ہوائی فائرنگ کی، ملزمان اسپتال میں مریض کو دیکھنے کے لئے زبردستی آنا چاہ رہے تھے ، ملاقات کا وقت نا ہونے کی وجہ سے گارڈ نے ان افراد کو گیٹ پر روکا، ملزمان نے گارڈ سے ہاتھا پائی کی اور اندر آنے کی کوشش بھی کی ، ملزمان کی فائرنگ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ، تمام ملزمان فرار ہوگئے کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

فائرنگ کے وقت رکن سندھ اسمبلی راجا اظہر موقع پر موجود تھے، راجا اظہر نے ایکسپریس کو بتایا کہ جس وقت نامعلوم کار سوار فائرنگ کر کے فرار ہو رہے تھے وہ بچہ وارڈ کے باہر موجود تھے، جناح اسپتال کے باہر فائرنگ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

The post قومی ادارہ امراض قلب کراچی کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور عملے پر تشدد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3pDpqEf

نواز شریف نیوکلیئر پروگرام سے لاعلم تھے، عابدہ حسین

اسلام آباد: امریکامیں سابق پاکستانی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن نواز شریف کو سپورٹ کرتے تھے اور انھیں مالی مدد بھی دیتے تھے، نیوکلیئر پروگرام صدر کی زیر نگرانی تھا جب کہ وزیراعظم نواز شریف لاعلم ہوتے تھے۔

ایک انٹرویو میں امریکامیں سابق پاکستانی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اسامہ بن لادن نے نواز شریف کو سپورٹ کیا تھا اور وہ انہیں مالی مدد بھی فراہم کرتا تھا۔

سیدہ عابدہ حسین نے کہا کہ 1990ء میں مجھے امریکہ میں سفیر وزیراعظم نے نہیں بلکہ صدر غلام اسحاق خان نے بنایا تھا، صدر غلام اسحاق خان نے کہا تھاکہ ہمیں نیوکلیئر پروگرام کی تکمیل کیلئے 18  ماہ لگیں گے، کہا گیا آپ نے18  ماہ امریکیوں کو مصروف گفتگو رکھنا ہے اور میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے کہا گیا تھا کہ فون پر بات نہیں کرنی، 18 ماہ کے دوران پانچ مرتبہ پاکستان آ کر صدر سے بریفنگ لی۔

انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر پروگرام 1983ء میں نہیں بلکہ 1992ء میں مکمل ہوا تھا، امریکی پارلیمنٹیرینز اور سفارتکار ہمیں نیوکلیئر پروگرام رول بیک  کرنے کیلئے   دباؤڈال رہے تھے، میں نے ایسی سرگرمیاں نہیں رکھی تھیں کہ خفیہ والوں کو کچھ ملتا یا وہ ہمارے خلاف استعمال کرتے۔

 

The post نواز شریف نیوکلیئر پروگرام سے لاعلم تھے، عابدہ حسین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2NSqyGb

کراچی میں کورونا ویکسین کیلیے انتظامات مکمل، 10 مراکز قائم

کراچی: سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکروں کو پہلی بار کووڈ19 سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین لگانے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے۔

کراچی میں کووڈ 19 کی ویکسین ویکسین  لگانے کا عمل فروری کے پہلے ہفتے میں شروع کیا جائے گا جب کہ سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ہیلتھ ورکروں کی فہرست این سی او سی نے نادرا کی مدد سے مرتب کر لی ہے جو صوبائی محکمہ صحت کو بھیج دی گئی ہے۔

کووڈ19 کی لگائی جانے والی حفاظتی ویکسین وفاقی حکومت کی مرتب کی جانے والی حکمت عملی کے تحت لگائی جائے گی۔ سرکاری اسپتالوں کے ملازمین کو لگائی جانے والی کووڈ19 ویکسین وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔

معلوم ہوا ہے کہ پیر کو این سی او سی کے ماہرین کی ٹیم کراچی میں قائم کیے جانے والے کووڈ19 ویکسین کے 10 مراکز کا دورہ کرے گی جس کے بعد فرنٹ لائن ہیلتھ ورکروں کو کووڈ19 سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین لگانے کا عمل شروع کردیا جائے گا۔ صوبائی حکومت نے صوبے کے عوام کو کووڈ19 کی ویکسین کی خریداری کیلیے 3 کمپنیوں سے رابطہ قائم کرلیا ہے جس میں بھارت کی ایک کمپنی بھی شامل ہے۔

دریں اثنا ڈائریکٹر ہیلتھ کراچی ڈاکٹر ندیم شیخ نے ’’ ایکسپریس ‘‘ کو بتایا کہ کووڈ 19 ویکسین لگانے کیلیے کراچی کے 6 اضلاع میں 10 حفاظتی ویکسینیشن مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ضلع وسطی میں 3 ویکسین کے مراکز جبکہ ضلع غربی میں 1، ضلع شرقی میں 2، ضلع جنوب میں  2، ملیر میں 1 اور ضلع کورنگی میں بھی ویکسین کا 1 مرکز قائم کرلیا گیا ہے۔

جن مراکز میں ویکسین لگائی جائے گی، ان میں جناح اسپتال، سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال ناگن چورنگی، سندھ گورنمنٹ اسپتال نیوکراچی، سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال اورنگی ٹاؤن، خالق دینا ہال،سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد، سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی 5 نمبر، جبکہ آغا خان اسپتال کراچی، اور کراچی یونیورسٹی کے سامنے ڈاؤ یونیورسٹی کے کیمپس اور اربن ہیلتھ سینٹر تھڈونالو میں مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

اندورن سندھ میں بدین نیو ڈسٹرکٹ ہیلتھ کواٹر بلڈنگ، لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج، سکھر میں اولڈ آئی ایچ ایس اسپتال، شہید بنظیر آبادمیں کووڈ19کی حفاظتی ویکسین لگانے کے مراکز بھی قائم کیے گیے ہیں۔

ڈائریکٹر ہیلتھ کراچی ڈاکٹر ندیم شیخ نے مزید بتایا کہ کراچی میں 1100 ویکسینیٹر  ہیں جبکہ صوبے بھر میں ویکسینیٹروں کی تعداد 4200 ہے جو محکمہ صحت کے ملازم ہیں۔ ویکسین لگانے سے قبل ویکسینٹروں کو ویکسین لگانے اور ویکسین کی افادیت کو برقرار رکھنے کیلیے آگاہی سیشن بھی دیا جائے گا۔ ہر ویکسینیشن سینٹر میں 10 کیوبیکل بنائے گئے ہیں جہاں بیک وقت 10 فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو ویکسین لگائی جائی گی۔

انہوں نے بتایا کہ ویکسین مراکز میں 12 سے 15 ویکسینیٹروں کو تعینات کیا جائے گا۔ ویکسین کی پہلی ڈوز لگانے کے بعد مذکورہ شخص کو ویکسین کا کارڈ بھی فراہم کیا جائے گا جس میں لگائی جانے والی ویکسین کی تاریخ،مذکورہ شخص کا نام اور دیگر تفصیلات بھی درج ہوں گی۔

ویکسین کارڈ تیاری کے مراحل میں ہیں جو آئندہ چند دن میں ویکسینیشن مراکز کو فراہم کردیے جائیں گے۔ یہی کارڈ عوام کو بھی فراہم کیے جائیں گے، ویکسینشن کی رجسٹریشن کرانے کیلیے 1166 پر ایس ایم ایس کے ذریعے رجسٹریشن کرلی جائے گی۔ رجسٹریشن کراتے وقت مذکورہ شخص کو اپنا شناختی کارڈ نمبر بھی بھیجنا ہوگا جس کی تصدیق نادرا سے کی جائے گی۔

دوسرے مرحلے میں کمیونٹی میں ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا جائے گا جس میں حفاظتی ویکسین کو عمر کے لحاظ سے لگائے جانے کی حکمت عملی طے کی جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں عوام میں لگائی جانے والی ویکسین بڑی عمر کے افراد کو لگائی جائے گی۔ عوام کو لگائی جانے والی ویکسین بھی انھی قائم کیے جانے والے ویکسین مراکز میں لگائی جائے گی۔ ویکسین لگانے کے مراکز میں ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ موجود رہے گا۔

دریں اثنا پاکستان میں کووڈ19 ویکسین کو درآمد کرنے کیلیے 3 مختلف کمپنیوں نے ویکسین کی رجسٹریشن کرالی ہے۔ ان تینوں پرائیویٹ کمپنیوں میں سے ایک کمپنی نے روس کی ویکسین رجسٹر ڈکروائی  ہے، جبکہ ایک اور کمپنی نے چین  کی ویکسین، کراچی میں ایک معروف سندھ میڈیکل کپمینی نے بھی ویکسین  پاکستان میں رجسٹرڈ کرائی ہے۔

ان تینوں کمپینوں میں سے ایک کمپنی بھارت تیار کی جانے والی کووڈ 19  ویکسین پاکستان میں لانے کیلیے کوششیں کررہی ہے کیونکہ پاکستان میں وفاقی حکومت نے ابھی تک ویکسین کی قیمت کا تعین نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ تینوں کمپنیاں کووڈ19 ویکسین کو پاکستان میں درآمد نہیں کررہی۔ پاکستان میں ان ویکسین کی قیمتوں کے تعین کے بعد ویکسین درآمد کی جائے گی۔  واضح رہے کہ تینوں کمپنیاں پرائیویٹ ہے۔

ادھر چین  نے حکومت پاکستان کو کووڈ19 کی ویکسین کے5 لاکھ ڈوز عطیہ کیے ہیں جوڈھائی لاکھ افراد کو لگائے جاسکیں گے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کوشش کررہی ہے کہ پاکستان  میں کووڈ19 ویکسین کسی بھی ملک سے مفت میں حاصل کی جاسکے۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حکومت پاکستان ویکسین کی براہ راست خریداری سے بچنے کیلیے GAVI این جی او سے رابطہ کیا ہے تاکہ حکومت پاکستان کو ویکسین بلامعاوضہ منگوائی جاسکے۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ نیب کے خوف سے حکومت پاکستان کسی بھی بڑی خریداری سے اجتناب کررہی ہے۔ ادھر حکومت سندھ نے ویکسین منگوانے کے لیے  مختلف کمپنیوں سے رابطہ کرلیا ہے۔

 

The post کراچی میں کورونا ویکسین کیلیے انتظامات مکمل، 10 مراکز قائم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2Ys19oI

اوپن بیلٹ کیلیے آئینی ترمیم منظور نہیں ہونے دینگے، اپوزیشن

اسلام آباد: حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کیلئے چھبیسویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور کرانے کا پلان مرتب کرلیا جب کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ سے آئینی ترمیمی بل منظور نہ ہونے دیا جائیگا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس دو روزہ وقفے کے بعد پیر کی شام پانچ بجے طلب کیا گیا ہے جس میں حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم بل کی شکل میں لانے کیلئے حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ حکومتی و اتحادی ارکان کو پیر کے روز سے ایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایات کر دی گئی ہے۔

سینیٹ انتخابات سے متعلق پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے رہنماؤں کے آپس میں رابطے ہوئے جس میں دونوں ایوانوں سے ترمیم کی منظوری روکنے کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق آئینی ترمیم کو دونوں ایوانوں سے منظور نہیں ہونے دیا جائیگا۔

پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ اوپن ووٹنگ ترمیمی بل مسترد ہو گا، حکومت کا ترمیمی بل جلد بازی اور بد نیتی پر مبنی ہے۔ صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عمران خان کو اپنے ارکان پارلیمان پر اعتماد نہیں ہے۔

 

The post اوپن بیلٹ کیلیے آئینی ترمیم منظور نہیں ہونے دینگے، اپوزیشن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3pzeFCX

بختاورکی شادی پراستقبالیہ، ملک بھر سے مہمانوں کی شرکت

کراچی: سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو کی شادی کی تقریب کے حوالے سے بلاول ہاؤس کراچی میں ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں ملک بھر سے آنے والے مہمانوں نے شرکت کی۔

گزشتہ شب بلاول ہاؤس کراچی میں آصف علی زرداری کی جانب سے اپنی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کی شادی کے سلسلے میں ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیراعلی قائم علی شاہ، قمر زمان کائرہ، نثار کھوڑو، سردار لطیف کھوسہ، سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود، سینیٹر رحمان ملک، اسلام الدین شیخ، بلوچستان سے صادق عمرانی، علی مدد، پیپلزپارٹی کے ارکان قومی اسمبلی، صوبائی وزرا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت ملک بھر سے آنے والے مہمان شریک ہوئے۔

تقریب بلاول ہاؤس کے وسیع و عرض لان میں بنائے گئے بینکوئٹ میں ہوئی جس کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل تھی۔ مہمانوں کی تواضع چکن بوٹی، ریشمی کباب، روسٹ بکرا اور تیتر، پالک گوشت، بریانی، مٹن پلاؤ، دیسی چکن قورمہ اور مٹن اسٹیک سے کی گئی، اس موقع پر آصف علی زرداری کی پسندیدہ ڈِش بھنڈی بھی مہمانوں کے لیے تیار کی گئی تھی۔ میٹھے میں گاجر کا حلوہ، لوکی حلوہ، بادامی ملتانی قلفی اور آئس کریم کے علاوہ کشمیری چائے اور کافی بھی رکھی گئی تھی۔

اس خصوصی تقریب میں دلہن بختاور بھٹو زرداری نے گہرے ہرے رنگ کا سوٹ پہنا تھا جس پر سنہرے رنگ کا کڑھائی کی گئی تھی، ان کا ماسک بھی لباس سے ہم آہنگ تھا، دلہا محمود چوہدری نے اسی سے ملتے جلتے رنگ کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ جیالے رہنماؤں نے بختاور بھٹو اور محمود چوہدری کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ استقبالیہ کی تقریب کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

 

The post بختاورکی شادی پراستقبالیہ، ملک بھر سے مہمانوں کی شرکت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/36q1Nr8

طنزومزاح : آبادی گھٹاؤ ملک چلاؤ

بھئی بات تو سولہ آنے ٹھیک ہے ’’بائیس کروڑ آبادی کا ملک کون چلاسکتا ہے‘‘، اور جب حکومت چلانے کی تیاری بھی نہ ہو تو دل یہی چاہتا ہوگا کہ ’’چل چلیے دنیا دے اس نکڑے، جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہوئے‘‘ یا ملک چلانے کے لیے حکومت کریے ’’اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو‘‘، لیکن جا بھی نہیں سکتے، ورنہ تبدیلی کیسے آوے گی، اور کوئی سننے والا نہ ہوا تو وعدوں بھری تقریر کسے سنائی جاوے گی۔

وزیراعظم کی اس الجھن اور پریشانی نے ہمیں بھی پریشان کردیا اور الجھا دیا، بہت سوچا کہ اپنے وزیراعظم کو اس الجھن سے کیسے نکالیں؟ آخر دماغ سوزی کے بعد کچھ ترکیبیں سوجھ ہی گئیں۔

ترکیبیں بتانے سے پہلے بات ہوجائے تیاری نہ ہونے کی، اس کا تو اب کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم تو سمجھے تھے تیاری کروا کر حکومت میں لایا جارہا ہے، اب انکشاف ہوا ہے کہ اُن پر لانے اور ان پر آنے کا شوق طاری تھا، کوئی تیاری نہیں تھی۔ چلیے کوئی بات نہیں، لیکن ہم سے پوچھ لیا جاتا تو ہم تجویز دیتے کہ جس طرح جنگی مشقیں کی جاتی ہیں اسی طرح دو ڈھائی سال حکومت چلانے کی ’’مشق‘‘ کے لیے دیے جائیں۔ اب ظاہر ہے جنگ اور ’’مشق‘‘ میں سب جائز ہوتا ہے۔ یوں کم ازکم عوام کو پتا تو ہوتا کہ وہ اور ملک تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں۔ چلو پتا تو چل ہی گیا کہ عشق اور ’’مشق‘‘ چُھپائے نہیں چُھپتے۔

خیر جو ہوا سو ہوا، اب تو مسئلہ یہ ہے کہ بائیس کروڑ آبادی کا ملک کیسے چلایا جائے؟ سیدھا سا حل ہے کہ آبادی گھٹاؤ ملک چلاؤ۔ دراصل ملک بھی تانگے کی طرح ہوتے ہیں، سواریاں زیادہ ہوں تو گھوڑا ہانپنے لگتا ہے، غلط فہمی کی بنیاد پر یہ سمجھا جاتا ہے ’’کَل کا گھوڑا‘‘، یعنی وہ گھوڑا جو کَل پُرزوں کے ذریعے چلے، ٹپاٹپ دوڑتا سواریوں کو منزل تک پہنچا دے گا، مگر کل پُرزوں کے اپنے اتنے پَر پُرزے نکلے ہوتے ہیں کہ گھوڑے کو سمجھ میں نہیں آتا کہ جاؤں تو جاؤں کہاں؟ ان پریشان اور ’’کنفیوز‘‘ گھوڑوں کے علاوہ ایسے گھوڑے بھی ہوتے ہیں۔

جنھیں چلنے کے لیے خالی سڑک چاہیے، چناں چہ ٹانگے والا ’’میری چلی ہے گھوڑا گاڑی بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘‘ کہتا سڑک خالی کراتا رہتا ہے، آخر ایک دن ایسے بدحواس اور نخریلے گھوڑوں سے تنگ آکر تانگے والا گھوڑے بیچ کر سوجاتا ہے۔ ملک کے لیے کشتی کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔ کشتی کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔‘‘ بعض اوقات ناخدا ہی کشتی پر بوجھ ہوتا ہے، ایسے ہی ناخدا کے بارے میں عبدالحمید عدم نے کہا تھا:

کشتی چلارہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں ناخدا کے ساتھ

عدم نے کچھ بھی کہا ہو، لیکن جب ’’قمر‘‘ نے کہہ دیا کہ ’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘ تو بوجھ ہی اتارنا چاہیے۔ یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ یہ مصرعہ معروف شاعر قمرجلالوی کا ہے، یہ وہی قمر جلالوی ہیں جن کا شعر ہے،’’کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو، نہ جانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو‘‘، قمر کا ایک اور شعر بھی ملاحظہ کیجیے:

میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں، فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے

قمر بزمِ انجم کی مجھ کو میسرصدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

ان اشعار سے آپ یقیناً قمر کی عظمت اور حیثیت کے قائل ہوگئے ہوں گے، اور جان گئے ہوں گے کہ ہم عدم کے خدشے پر قمر کے قول کو کیوں فوقیت دے رہے ہیں۔

دیکھیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی، اس سے پہلے کہ بات ہاتھ سے نکلے ہم حسب وعدہ آبادی گھٹانے کے کچھ طریقے پیش کیے دیتے ہیں: پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ طیارے بھر بھر کے بیرون ملک بھیجے اور مسافروں سمیت پکڑوائے جائیں، طیاروں کو بھرنے کے لیے انھیں چلانے کا فریضہ مِنی بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کو سونپا جائے۔ یوں بیٹھے، کھڑے، ایک دوسرے پر چڑھے، پھنسے، طیارے کے پروں سے لٹکے اور چھت پر تشریف دھرے دو ڈھائی ہزار پاکستانی ہر پرواز سے بیرون ملک روانہ کیے جاسکیں گے۔

دیکھا کس طرح دو تین لاکھ پاکستانی کم ہوگئے! دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی پوچھے کہ نیاپاکستان کہاں ہے بھیا؟ تو اسے ساحل پر لے جاکر کشتی میں بٹھا اور کہہ دیا جائے، ’’وہ آگے ہے، جہاں تیل نکل رہا ہے۔‘‘ کوئی چار پانچ کروڑ پاکستانی یوں آناًفاناً ’’سمندر پار‘‘ پاکستانی ہوجائیں گے۔ تیسرا طریقہ تو ان سے بھی آسان ہے۔ جس سرکاری عملے نے کراچی میں مردم شماری کی اسی سے ملک بھر میں مردم شماری کرائی جائے، یہ دراصل ’’مدغم شماری‘‘ ہوگی، جس میں سو دوسو افراد کو ایک دوسرے میں ’’مدغم‘‘ کرتے ہوئے انھیں ایک گنا جائے گا۔

اب بائیس میں سے بچے گیارہ کروڑ، اور کم کرنا ہیں؟ چلیے کیے دیتے ہیں۔ چوتھا طریقہ۔۔۔۔لو جی مسئلہ پانی کردیا۔ اعلان کردیں کہ ایک عظیم (گرینڈ) قرعہ اندازی ہوگی، بائیس کروڑ پرچیوں میں سے جو پندرہ لاکھ کھلیں گی، انھی پرچی والوں کو پاکستانی تصور کیا جائے گا، باقی ماندہ سے کہہ دیا جائے گا، جس تبدیلی کا وعدہ تھا، وہ تبدیلی آنہیں رہی آگئی ہے، مگر آپ میں آئی ہے، اب آپ پاکستانی نہیں رہے۔

اس طرح ہاتھ کے ہاتھ نیا پاکستان بھی بن گیا، جب آپ بجلی، گیس، پانی نہ آنے کی شکایت، نوکری نہ ملنے کا شکوہ، نوتعمیر شدہ پچاس لاکھ مکانوں کی تقسیم میں ٹھینگا دکھانے کا گلہ اور حکومت کی طرف سے لگائے گئے کروڑوں درختوں کے سائے میں بیٹھنے کی ممانعت پر واویلا کریں گے تو آپ کو ایک ہی جواب ملے گا۔۔۔چوں کہ آپ پاکستانی نہیں اس لیے مطلوبہ سہولت آپ کو میسر نہیں۔۔۔تب آپ کو لگے گا اور بہت زور سے لگے گا کہ نیا پاکستان بن گیا ہے، جو اتنا نیا ہے کہ آپ کے لیے بالکل اجنبی ہے۔ البتہ تب بھی آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔

لیجیے صاحب! آبادی گھٹا کر پندرہ لاکھ کا ملک بنا دیا اب خوش! اتنی آبادی کا ملک چلے گا؟ یا اور کم کرنا ہے؟

The post طنزومزاح : آبادی گھٹاؤ ملک چلاؤ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3teakaD

بُک شیلف

غدار ( ناول )
مصنف: کرشن چندر، قیمت: 400 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

تقسیم ہند کے ہنگام جو کچھ ہوا ، اسے ابھی تک بھارت اور پاکستان، دونوں مملکتوں کے باسی بھولنے کو تیار نہیں۔ ان کے آنسو خشک ہونے میں نہیں آرہے ہیں۔ زیر نظر ناول کی صورت میں کرشن چندر نے بھی آنسو بہائے ہیں لیکن ان کے آنسوئوں کا تعلق ماضی میں رونما ہونے والے واقعات سے نہیں بلکہ مستقبل سے ہے۔

کرشن چندر سمجھتے تھے کہ بہت سے لوگ ان تلخ واقعات کو بھولتے جارہے ہیں لیکن اس نفرت کو نہیں بھولتے جس نے ان تلخ واقعات کو جنم دیا تھا … دونوں ملکوں کے درمیان ایک نفرت کی دیوار کھڑی ہے۔ ان کے بقول : ’’ ہندوستان میں ایک یا دو نہیں لاکھوں انسان ایسے ہوں گے جو پشاور تک اکھنڈ بھارت کو پھیلانے کے خواب دیکھتے ہوں گے۔ پاکستان میں ایسے انسانوں کی کمی نہیں جو دلی پر ہلالی پرچم لہرا دینے کے متمنی ہیں اور اس کے لئے لاکھوںکی تعداد میں جان دینے کے لئے تیار ہیں۔‘‘

کرشن چندر کا یہ ناول اسی نفرت کو سمجھانے اور اسے قلب و ذہن سے مٹانے کی ایک کوشش ہے۔ ناول کا آغاز بیج ناتھ ( برہمن ) اور شاداں ( مسلمان لڑکی) کے معاشقے سے ہوتا ہے۔ ایک ہندو لڑکی پاروتی ایک مسلمان نوجوان امتیاز سے والہانہ محبت کرتی تھی۔ اسی طرح ایک ہندو لڑکی ایک سکھ کی نظروں کا مرکز بنتی ہے۔ ان محبتوں سے اٹھان لیتی کہانی بیان کرتی ہے کہ کیسے امن اور پیار کے لئے کوشش کرنے والے اپنی اپنی اقوام کے ہاں ’’ غدار ‘‘ قرار دیے جاتے ہیں۔ کرشن چندر نے اس ناول کے ذریعے انسانیت کو محبت، اخوت ، خلوص اور تعاون، بردباری اور وسیع الخیالی ، مساوات اورآفاقی شہریت کا پیغام دیا ہے۔ ان کا انداز تحریر ایسا مسحور کن ہوتا ہے کہ قاری ہر جملے سے پوری طرح لطف پاتا ہے ۔ منظر نگاری ایسی خوبصورت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا منظر میں کھوئے رہنا چاہتا ہے۔ اس ناول کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے ۔

ساحل سے ساحل تک ( سفرنامہ )
مصنفہ : بلقیس ریاض، قیمت :300 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور، فون 03004183997

بلقیس ریاض عہد حاضر کی بڑی نثر نگاروں میں سے ایک ہیں، تیس سے زیادہ کتب کی مصنفہ ہیں جن میں ناول بھی ہیں، افسانوںکے مجموعے بھی اور سفرنامے بھی۔ ان کی پہلی پہچان ناول و افسانہ نگاری ہی ہے ، بعد ازاں جب سفرنامے لکھنے شروع کئے تو اس میں بھی وہی خوبصورتی نظر آئی جو ان کے لکھے فکشن کا خاصہ ہوتی ہے۔ منفرد انداز میں سادہ اور چھوٹے جملوں کے ساتھ اپنی بات بیان کرتے چلے جانا ۔ یوں وہ پڑھنے والے کو کہیں ادھر ادھر جانے نہیں دیتیں ۔
بلقیس ریاض امریکا ، برطانیہ ، جنوبی افریقہ ، فلپائن، ایران، انڈیا اور کینیڈا گھوم پھر چکی ہیں، درجن سے زیادہ سفرنامے لکھ چکی ہیں۔ ان کے سفرناموں کی خوبی ہے کہ وہ غیرملکی معاشروں میں موجود خوبیوں کو بطور خاص بیان کرتی ہیں جنھیں ہم بھی اختیار کر سکتے ہیں اور اپنے معاشرے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
زیرنظر سفرنامہ امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے شہر ’ کینٹ سکوائر‘ اور کینیڈین دارالحکومت اوٹاوہ کا ہے۔ اپنی آنکھ سے انھوں نے جو دیکھا، جیسے دیکھا، بیان کردیا۔ وہ ساتھ ساتھ ہلکے پھلکے جملوںمیں اپنا تبصرہ بھی کرتی چلی جاتی ہیں، انھیں کینٹ سکوائر کی ایک خاتون ملیں جو ہر ہفتے کے اختتام پر دیگر چند خواتین کے ساتھ چیریٹی کا کام کرتی ہیں۔ ایک میاں بیوی کا ذکر کیا جن کا گھوڑوں اور بھینسوں کا فارم ہے، وہ بھینسوں کا دودھ بیچنے کے بجائے ضرورت مندوں تک پہنچاتے ہیں۔ آپ اس سفرنامے میں ایسے ہی مزید دلچسپ لوگوں کے تذکرے پڑھیں گے۔ یقیناً اس سفرنامہ کا مطالعہ آپ کیلیے ایک پرلطف تجربہ ثابت ہوگا۔

وفیات مشاہیر لاہور
مصنف : ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، قیمت : 3500 روپے
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل ، بینک سٹاپ، والٹن روڈ
لاہور کینٹ ، 0300-0515101

زیرنظر کتاب ایک انسائیکلوپیڈیا ہے ان لوگوں کا جنھوں نے ایک خاص عہد میں لاہور میں وفات پائی۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے، جس میں سب سے پہلے لاہور کے مدفونین پر لکھی گئی کتب کا مختصر تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے، ان میں ’خفتگان خاک لاہور ‘، ’لاہور میں دفن خزینے‘ ، ’لاہور میں مشاہیر کے مدفون‘ ، ’لاہور میں مدفون مشاہیر‘ اور لاہور میں مدفون مشاہیر جلد سوم ‘ شامل ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے ان کتب میں موجود غلطیوں اور کمیوں کی نشان دہی کی ہے۔ بعض شخصیات کا تعارف غلط ہے یا پھر نامکمل ہے، بعض کی تاریخ وفات ہی غلط لکھی گئی ہے۔ یا پھر ایسی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا ہے جو لاہور میں مدفون نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ حوالہ جاتی کتب میں ایسی غلطیاں اور کمیاں ہوں تو پھر یہ غلطیاں انڈے بچے دیتی رہتی ہیں، نتیجتاً آنے والے ادوار میں تحقیق کرنے والے ان اغلاط کو درست کرنے کے لئے الگ سے زندگیاں کھپانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی یہ کام کرنا پڑا۔ انھوں نے غلطیوں کو درست کرکے، کمیوں کوتاہیوں کو پورا کرکے آنے والی نسلوں کو احسان کیا ہے۔

’وفیات مشاہیر لاہور‘ میں ایسی اہم 3200 شخصیات کا تذکرہ شامل ہے جو 14اگست 1947ء سے 14اگست2018ء کے درمیان میں انتقال کرگئے۔ انھوں نے ہر شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی وجہ شہرت، ولدیت ، تاریخ پیدائش، جائے پیدائش ، تاریخ وفات ، جائے وفات، مدفن ، تصانیف اور اعزازات کو بھی بیان کیا ہے۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی مرتب کردہ یہ کتاب اردو وفیات نگاری کے اثاثے میں ایک غیرمعمولی اضافہ ہی نہیں بل کہ آنے والے تمام زمانوں کے محققین کے لئے ایک بیش بہا تحفہ بھی ہے۔

ٹیڑھی لکیر (ناول)
مصنفہ : عصمت چغتائی، قیمت :900 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

’’ ٹیڑھی لکیر ‘‘ کی ہیروئن ایک لڑکی نہیں بلکہ ہزاروں، لاکھوں لڑکیوں جیسی ایک لڑکی ہے۔ عصمت چغتائی نے اسے دیکھا، اسے سمجھا، اور اس کی ایک تصویر بنائی اور اسے اس ناول کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ اس پر طرح طرح کے تبصرے ہوئے۔ بقول مصنفہ ’’ کچھ لوگوںنے کہا ، میں نے ایک جنسی مزاج اور بیمار ذہنیت والی لڑکی کی سرگزشت لکھی ہے۔ علم نفسیات کو پڑھیے تو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بیمار ہے اور کون تندرست ۔ ایک پارسا ہستی جنسی بیمار ہو سکتی ہے اور ایک آوارہ اور بدچلن انسان صحت مند ہو سکتا ہے۔ جنسی بیمار اور تندرست میں اتنا باریک فاصلہ ہوتا ہے کہ فیصلہ دشوار ہے مگر جہاں تک میرے مطالعے کا تعلق ہے ’’ ٹیڑھی لکیر‘{‘{ کی ہیروئن نہ ذہنی بیمار ہے اور نہ جنسی۔ جیسے ہر زندہ انسان کو گندے ماحول اور آس پاس کی غلاظت سے ہیضہ ، طاعون ہو سکتا ہے، اسی طرح ایک بالکل تندرست ذہنیت کا مالک بچہ بھی اگر غلط ماحول میں پھنس جائے تو بیمار ہو جاتا ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‘‘

عصمت چغتائی نے جس لڑکی کو اس کہانی کا مرکزی کردار بنایا ہے۔ اس کا تعارف کرواتے ہوئے عصمت لکھتی ہیں:

’’ اس پر مختلف حملے ہوتے ہیں لیکن ہر حملے کے بعد وہ پھر ہمت باندھ کر سلامت اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ وہ ہر امتحان سے گزر کر پرسکون انداز میں اپنا سر تکیے پر ٹکا دیتی ہے اور ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کرنے کے بعد دوسرا قدم اٹھاتی ہے۔ یہ اس کا قصور نہیں ہے کہ وہ بے حد حساس اور ہر چوٹ پر منہ کے بل گرتی ہے مگر پھر سنبھل جاتی ہے۔ نفسیاتی اصولوں سے ٹکر لے کر وہ انھیں جھٹلا دیتی ہے۔ ہر طوفان سر سے گزر جاتا ہے۔‘‘

عصمت چغتائی نے ایک ایسی لڑکی کو ہیروئن بنایا ہے جو ضدی ہوتی ہے، جس نے ہتھیار ڈالنا سیکھا ہی نہیں ہوتا لیکن المیہ ہے کہ اسے کوئی سمجھ نہیں پاتا ۔ وہ پیار کی ، محبت اور دوستی کی بھوکی ہوتی ہے، اپنی بھوک مٹانے کے لئے بھیانک جنگلوں کی خاک چھانتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کہانی عصمت چغتائی کی اپنی ہی ہے۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا:’’ عصمت کا قلم اور اس کی زبان دونوں بہت تیز ہیں۔ لکھنا شروع کرے گی تو کئی مرتبہ اس کا دماغ آگے نکل جائے گا اور الفاظ پیچھے ہانپتے رہ جائیں گے۔‘‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مصنفہ کا تخلیق کیا ہوا کردار ان سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔یہ ناول ضرور پڑھیے گا، آپ کو لطف حاصل ہوگا ، ہمت اور حوصلہ ملے گا۔

ہم ذات ( ناول )
مصنفہ : رفاقت جاوید، قیمت :500 روپے
ناشر : ناشر: القریش پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور، فون 03004183997

’’ ہم ذات ‘‘ ایک منفرد موضوع پر لکھا گیا ناول ہے۔ راجپوت جو برصغیر میں سب سے بڑی ذاتوں میں سب سے پرانی ذات ہے، جس کی بڑی اور چھوٹی شاخوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔دلچسپ بات ہے کہ ہر راجپوت صرف اپنی ہی شاخ کو اصل سمجھتا ہے۔ صرف یہی نہیں، وہ دوسری شاخوں سے تعلق رکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ مصنفہ کہتی ہیں:

’’ میں نے راجپوت ذات کی مختلف وہ شاخیں جو نفری کے لحاظ سے چھوٹی اور بڑی ہیں، ان میں ان گنت مسائل کو ابھرتے دیکھا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ مسائل ان کے اپنے عجیب و غریب رویوں کے بطن سے جنم لیتے ہیں لیکن وہ انہی رویوں کے ساتھ جیتے ہیں، انہی پر فخر کرتے ہیں اور انہی کے ساتھ قبر میں اتر جاتے ہیں۔

رفاقت جاوید کا یہ ناول دراصل راجپوت ذات کی چند گوتوں کے مسائل پر لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنفہ نے راجپوت مرد کا رویہ اور سلوک پوری طرح واضح کیا ہے۔ ناول ظاہر کرتا ہے کہ راجپوتوں کی مختلف گوتیں جہاں ہر وقت ایک دوسرے سے کشمکش میں رہتی ہیں، وہاں وہ اپنے مخصوص خاندانی نظام کو برقرار رکھتی ہیں ، اپنی روایات کی مستقل پاسداری کرتی ہیں۔ رفاقت جاوید نے ازدواجی زندگی میں راجپوت عورت کی حیثیت اور مرد کے کردار کو نہایت موثر انداز میں اجاگر کیا ہے۔ اس ناول کے بغیر ہر قاری بالخصوص راجپوتوں کے گھر کا کتب خانہ ادھورا رہے گا۔

کیرئیر پلاننگ گائیڈ ( میڈیکل سائنسز)
مصنفین : یوسف الماس، صہیب احمد خان، مریم باجوہ
قیمت: 200 روپے، ناشر: ایجوویژن، ہائوس 1239، گلی58، جی الیون 2
اسلام آباد، رابطہ: 03335766716

زیرنظرکتاب میٹرک اور ایف ایس سی ( پری میڈیکل) کے ان طلبہ و طالبات کے لئے لکھی گئی ہے جو میڈیکل سائنسز (ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، فارمیسی، ویٹنری، ہو میو پیتھک، الائیڈ ہیلتھ سائنسز، فزیوتھراپی، نیوٹریشن، ویژن سائنسز، امیج ٹیکنالوجی، لیبارٹری ٹیکنالوجی اور نرسنگ) کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں کیرئیر پلاننگ کی انسانی زندگی میں اہمیت سے آگاہ کیا گیا ہے، اس کے بنیادی اصولوں سے روشناس کرایا گیا ہے، مقصد زندگی کی بات کی گئی ہے اور پھر شعبہ تعلیم اختیار کرنے کا طریقہ اور لازمی اجزا بتائے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں ایف ایس سی کرنے والے طلبہ و طالبات کو 184مضامین اور شعبہ ہائے تعلیم کے بارے میں آگاہی دی گئی ہے جن میں وہ داخلہ لیکر اپنا مستقبل بنا سکتے ہیں۔ ان میں بیچلر ڈگری پروگرام ، ڈپلومہ ، سرٹیفکیٹ کورسز اور شارٹ کورسز بھی شامل ہیں ۔ تیسرا حصہ میڈیکل سائنسز سے تعلق رکھتا ہے اس میں میڈیکل سائنسز کے ان تمام کیرئیرز کا تعارف کرایا گیا ہے جو ایف ایس سی پری میڈیکل کے طلبہ و طالبات کی اولین ترجیح ہوتے ہیں۔ چوتھا الائیڈ ہیلتھ سائنسز سے متعلق ہے ، اس میں 31 کیرئیرز کی تفصیلات دی گئی ہیں جن میں سے اکثر ایف ایس سی (پری میڈیکل) کے طلبہ و طالبات کے لئے میڈیکل کے بعد دوسری بہترین ترجیح ہو سکتے ہیں۔ پانچویں حصے میں تعلیمی اداروں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ تعلیمی اداروں کی اقسام اور ان کی قانونی حیثیت سے آگاہ کیا گیا ہے، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میڈیکل کالج یا کسی دوسرے ادارے کا انتخاب کرتے ہوئے توجہ طلب امور کون سے ہیں۔ اس کے علاوہ اوپن میرٹ اور مخصوص نشستوں کی تفصیلات اور رہنمائی بھی فراہم کی گئی ہے۔

یقیناً یہ کیرئیر پلاننگ گائیڈ میڈیکل سائنسز کے شعبے میں جانے کے خواہش مندوں کے خواب بہترین انداز میں پورے کرے گی۔

محبت نامے
مصنفہ : امرتا پریتم، مرتبہ : امروز (شریک حیات امرتا پریتم)
قیمت : 400 روپے، ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

امرتا پریتم کا دوسرا نام محبت تھا ، ایسی محبت جو کبھی نہیں مرتی۔ چار برس کی عمر میں منگنی ہوئی، سولہ ، سترہ برس کی عمر میں شادی، شوہر کا نام پریتم سنگھ تھا، اسی مناسبت سے امرتا کور سے امرتا پریتم بن گئیں۔ منفرد خصوصیات والی یہ لڑکی منفرد پنجابی شاعرہ تھیں، جس سال ان کی شادی پریتم سنگھ سے ہوئی، اسی سال شاعری کا پہلا مجموعہ شائع ہوا۔ امرتا کا دل ساحر لدھیانوی کے لئے ایسے دھڑکتا تھا کہ کسی محبوبہ کا اپنے محبوب کے لئے کیا دھڑکا ہوگا، وہ پریتم سنگھ کے ساتھ بہت خوش نہ تھیں کیونکہ وہ ساحر کے سحر سے مسحور تھیں۔ پھر انھوں نے ساحر کے لئے شوہر کو چھوڑ دیا، اس اندازمیں چھوڑا کہ نہ پریتم سنگھ کو امرتا سے کوئی گلہ تھا، نہ امرتا کو پریتم سے، بلکہ یہ بھی ایک محبت ہی ہے کہ پریتم ( سنگھ ) آخری دن تک امرتا کے نام کے ساتھ جڑا رہا ۔

امرتا پریتم کی ساحر لدھیانوی سے محبت یکطرفہ ہی رہی، ساحر امرتا کو اپنی زندگی میں شامل نہ کر سکے۔ پھر امروز سے ملاقات ہوئی، باقی کی ساری زندگی انہی کی محبت میں گزری ۔ اس آرٹسٹ نے امرتا سے ایسی محبت کی کہ وہ خود بھی حیران رہیں۔ کہا:’’ امروز نے مجھے کس طرح کا اپنایا ہے، بمعہ اس سوز کے جو اس کی اپنی مسرتوں کا مخالف ہے…!

ایک بار (امروز نے) نے ہنس کر کہا تھا:’’ ایمو! اگر تجھے ساحر مل جاتا ، پھر تم نے نہیں ملنا تھا… میں نے ضرور ملنا تھا، چاہے تمھیں … ساحر کے گھر نماز پڑھتی کو جا ڈھونڈتا ۔‘‘

یہ ’’ محبت نامے ‘‘ اسی امروز کے نام لکھے گئے ہیں، جسے وہ کبھی ’’میری تقدیر‘‘ کہہ کر پکارتی، کبھی ’’ میرے ایمان‘‘ اور کبھی ’’ میرے نغموں کی جان ‘‘ کہہ کر ۔ ان محبت ناموں کو پڑھ کر ہر محبوبہ ٹھنڈی آہ بھر کے کہے گی کہ کاش! وہ بھی اپنے محبوب کو ایسے ہی لکھا کرتی۔ ایک خط کا کچھ حصہ ملاحظہ فرمائیے:

’’ میرے نغموں کی جان!

آج تمہارا خط ہمیں نصیب ہوا ہے۔ میں زندگی کی شکر گزار ہوں، جس نے میرے خطوں کے جواب مجھے لا کر دئیے۔ مگر میرے سارے خطوط تمہیں کیوں نہیں ملے؟ یہ میرا ساتواں خط ہے۔ تین میں نے نیپال جانے سے پہلے لکھے تھے۔ ایک تو اسی دن لکھا تھا جب میں اپنا سکون نو سومیل دور بھیج کر آئی تھی،21 تاریخ کو اور پھر ہر روز لکھتی رہی۔

کبھی میں نے دل کے سارے الہنے کے ساتھ لکھا تھا:’’ یہ میرا عمر کا خط اکارت گیا۔ ہمارے دل نے محبوب کا جو پتہ لکھا تھا، وہ ہماری تقدیر سے پڑھا نہ گیا۔‘‘ لیکن آج جب وہ پتہ سامنے ہے۔ ان ڈاک خانے والوں نے ، لگتا ہے، تقدیر سے سانٹھ گانٹھ کر لی ہے، ان سے بھی وہ پتہ نہیں پڑھا جا رہا…

تمہاری آشی ‘‘
ایک دوسرا خط
’’ جان بہار !
تمہارا یہ روپوں والا چیک میں کیش نہیں کرائوں گی۔ صرف تمہاری محبت کا چیک کیش کرانا ہے، اگر زندگی کے بینک نے کیش کردیا تو !
تمہاری آشی ‘‘
امرتا پریتم کے محبت نامے آپ بھی پڑھیں گے تو آپ کے من میں ضرور ہل چل ہوگی ۔ اس لئے ضرور پڑھیے گا۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2MG31HW

خیال آرائی

مارکیز
یادداشت کا مرگ اورڈائری کے اوراق

ہمیں ایک ہول ناک مرض نے آن گھیرا ہے، اور یہ کورونا نہیں، اُس سے بھی گھاتک وبا ہے۔

گیبرئیل گارسیا مارکیز کا ناول ’’تنہائی کے سو سال‘‘ یاد آتا ہے۔ ناول، جس میں حیرتوں کا ایک جہان آباد۔ حقیقت کی طلسماتی زمین پر اگنے والے مناظر، جو ذہن پر نقش ہوجائیں۔ اور اُن ہی میں ایک منظر ۔۔۔ہر نقش کے مٹ جانے کی کہانی بیان کرتا ہے۔

جی، ناول میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے، جب ماکوندا میں۔۔۔وہ بستی جس کی گلیوں میں مارکیز کی کہانی سانس لیتی ہے، ایک مرض در آتا ہے۔ یادداشت کھودینے کا مرض۔ آغاز عام سی باتوں کے بھول جانے سے ہوتا ہے، مگر جلد بوئندا خاندان کو ادراک ہوتا ہے کہ وہ ایک مشکل میں پھنس چکے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے اردگرد موجود اشیا کے نام بھولتے جارہے ہیں، بلکہ جلد ایک لمحہ ایسا بھی آئے گا، جب وہ یہ بھی بھول بیٹھیں گے کہ وہ اِن اشیا کو استعمال کیسے کرتے تھے۔

بستی میں سراسمیگی پھیل جاتی ہے۔ اِس سے لڑنے کے لیے جو حل تجویز کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اشیاء کے ساتھ ایک تختی آویزاں کر دی جائے، جس پر نہ صرف یہ درج ہو کہ اُس شے کا نام کیا ہے، بلکہ یہ بھی ساتھ ہی لکھ دیا جائے کہ اُسے کس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے: یہ کرسی ہے، اس پر بیٹھا جاتا ہے یا یہ گائے ہے، یہ دودھ دیتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

خوشی قسمتی سے جلد یہ مرض معدوم ہوجاتا ہے، اور کہانی آگے بڑھ جاتی ہے۔

البتہ شاید ہماری کہانی یہیں ٹھہر گئی ہے کہ ہم ہنوز اپنی مرتی ہوئی یادداشت کے یرغمال ہیں۔ کسی بھولے بسرے زمانے میں سانحات، حادثات ہماری یادداشت پر نقش ہوجاتے تھے، مگر 9/11 کے بعد وقت نے یوں رفتار پکڑی، المیوں کی یوں بہتات ہوئی کہ ہماری یادداشت گھٹتی چلی گئی۔ واقعات کی ریل پیل میں اب ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ کچھ ہی برس قبل شہر کراچی کے سینے پر کتنے گھائو لگے تھے، کوئٹہ کی فضائوں میں کیسے کرب رچ بس گیا تھا، پشاور کی سڑکیں کیسے سرخ ہوئی تھیں۔

کہتے ہیں، جو شے ذہن سے محو ہوئی، وہ بے معنی ہوگئی۔ اور آج ہمارے گھٹتی، سمٹتی یادداشت نے زندگی کو حسین اور بامعنی بنانے والی کئی اشیا کو بے معنی کر دیا ہے۔

اس مسئلے کے اسباب پر تو نیورولوجسٹ زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں، مگر ایک بڑا سبب معلومات کی بھرمار بھی ہے۔ بالخصوص وہ معلومات، جس کے جال نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں یرغمال بنا لیا۔ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اِس معلومات کا بڑا حصہ ہماری زندگیاں بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ لائیکس کی گنتی، تبصروں کے تھریڈ، سیاسی ونظریاتی مباحثے؛ افادیت کے ترازو میں تولا جائے، تو یہ بہت ہلکے ثابت ہوتے ہیں۔ مسلسل کی جانے والی پوسٹس، پھر ان پر آنے والے کومنٹس کا جائزہ، بعد ازاں اُن کا ردعمل؛ جہاں آدمی کا بہت سے وقت ضایع ہوجاتا ہے، وہیں توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔

مارکیز کے کردار خوش قسمت تھے کہ ناول کے پلاٹ میں آنے والی تبدیلیوں نے یادداشت سے محرومی کے مرض سے انھیں بچا لیا، مگر ہمارا معاملہ دیگر۔ ہمیں اس ضمن میں خود کچھ اہتمام کرنا ہوگا، بالخصوص ایسے وقت میں، جب نیا سال تازہ تازہ ہے۔

ہمارے نزدیک اس نئے سال، جو ایک مشورہ نوجوانوں کو دیا جاسکتا ہے، وہ لکھنے کی سمت پلٹنا ہے، کاغذ اور قلم کی سمت پلٹنا۔ جب ہم ایک بامعنی، بامقصد زندگی گزارنے کی سعی کرتے ہیں، تو چاہے ہم بے روزگار ہوں یا برسر روزگار، امیر ہوں یا غریب، ہماری اصل قوت، ہمارا اصل سرمایہ ’وقت‘ ہوتا ہے۔ ہم نئے سال پر خود سے کئی عہد کرتے ہیں، فیس بک پر اعلانات کیے جاتے ہیں، مگر جوں جوں سال آگے بڑھتا ہے، یہ وعدے ریت کے ذرات کی طرح ہاتھ سے پھسلتے جاتے ہیں۔

انتشار اور معلومات کی بھرمار میں خود کو فوکس رکھنے کا موثر ترین طریقہ یومیہ ڈائری لکھنا ہے۔ روز، کسی وقت کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ جانا۔ اگر آپ اس برس یومیہ ڈائری لکھنے کا عہد کر لیں، اور اِسے نبھا سکیں، تو آپ کام یاب ٹھہریں گے۔ اگر اِن روزنامچوں کو مزید کارآمد بنانا چاہتے ہیں، تو ’’بلٹ جرنل‘‘ اور ’’مینٹل بینک‘‘ کی تیکنیک استعمال کریں، جس کے فوائد طے شدہ۔ ان دونوں کے بارے میں آپ گوگل اور یوٹیوب پر سرچ کرسکتے ہیں۔

تو صاحبو! اگر آپ اس سال 100 کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں، ہر ہفتے ایک فلم دیکھنا چاہتے ہیں یا ’کے ٹو سر‘ کرنا چاہتے ہیں، تو پہلا قدم اپنے ارادوں اور منصوبوں کو ایک سفید کاغذ پر لکھ ڈالنا ہے۔ ڈائری میں درج ارادہ۔۔۔ اور ڈائری وہ، جسے روز لکھا جائے، اپنے اندر طلسماتی قوت رکھتا ہے۔ ڈائری لکھنے کی عظیم روایت کو بازیافت کرنے کے لیے 2021 سے بہتر کوئی سال نہیں۔ اس لمحے سے بہتر کوئی لمحہ نہیں۔

آئیں، ہر شے کے گلے میں ایک تختی آویزاں کر دیں۔

۔۔۔

فرخ مرزا، نادرہ اور شریعت
فرحین شیخ

اور کل میرے اندر کے ایک بہت بڑے خوف نے شکست کھالی۔ کہانی کے آغاز میں ہی میں بتاتی چلوں کہ سالوں تک میرے اندر پنپتا یہ خوف کون سا تھا۔ زمانہ حمل کے نو ماہ مجھ پر طاری رہنے والا یہ خوف ٹرانس جینڈر بچے کی پیدائش کا تھا۔ میں اکثر یہ سوچ کر لرز جاتی کہ میری کوکھ سے عام بچے نے نہیں بلکہ ٹرانس جینڈر نے جنم لے لیا تو کیا ہوگا؟ یہ وہ خوف تھا جو اس سماج میں ٹرانس جینڈرز کے ساتھ ہونے والے شرم ناک اور غیرانسانی سلوک کا نتیجہ تھا۔ واہیات سے میک اپ میں سڑکوں پر ناچتے گاتے بھیک مانگتے ان خواجہ سراؤں کو دیکھ کر دل بیٹھ سا جاتا اور دل سے دعا نکلتی کہ خدایا میرے گھر اس مخلوق کا جنم نہ ہو۔

فیڈرل بی ایریا میں واقع فرخ مرزا سیلون کی سیڑھیاں چڑھتے وقت میں ایک بے نام سی بے چینی کا شکار تھی۔ یہ بے چینی دو حوالے سے تھی ایک تو یہ کہ میں اپنے بالوں پر ایک نئے فرد کے ہاتھوں قینچی چلوانے والی تھی جس کا رسک میں لینے کو کبھی تیار نہیں ہوتی اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ قینچی اس شخص کے ہاتھوں میں تھی جسے زمانہ ٹرانس جینڈر کے نام سے جانتا ہے۔

چہرے پر متانت اور سنجیدگی، سادہ سا حلیہ، سانولا رنگ، پُراعتماد لہجہ، میکانکی اور ماہرانہ انداز میں چلتے ہاتھ، کپڑوں سے اٹھتی ہلکی سی خوش گوار مہک۔ میں نے آج تک کسی ٹرانس جینڈر کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا جتنا اس وقت دیکھ رہی تھی۔

اپنے نام کی طرح باوقار فرخ مرزا کا تعلق یوں تو ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے ہے لیکن پیشے کے اعتبار سے وہ ہیئر اینڈ میک اپ آرٹسٹ ہیں۔ فرخ کو اپنے ٹرانس جینڈر ہونے پر فخر ہے۔ ان کو اس مقام پر پہنچانے میں بے شک اس کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کا بڑا کردار ہے جنہوں نے فرخ کو کم عمری میں ہی خواجہ سراؤں کو دان کرنے کے بجائے اس کی بہترین پرورش کی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔

فرخ اس وقت بھی اپنے آبائی گھر میں مقیم ہیں۔ گھر کے دیگر افراد امریکا نقل مکانی کرچکے ہیں اور فرخ کو ان کے بھائی امریکا بلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

گھر کی بالائی منزل گویا فرخ کی کُل دنیا ہے جہاں وہ عورتوں کو سجانے سنوارنے کا شوق پورا کرتی ہیں۔ اپنی محنت سے نہ صرف خود کماتی ہیں بلکہ کئی عورتوں کے لیے ذریعہ روزگار بھی بنی ہوئی ہیں۔ ان کے سیلون کی ورکرز تو عام لڑکیاں اور خواتین ہی ہیں لیکن کسٹمرز میں خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔

فرخ کے دروازے کے اندر قدم رکھ کر معلوم ہوا کہ مسجد کے ٹھنڈے فرش کے علاوہ بھی بعض جگہیں بہت پُرسکون ہوتی ہیں اور یہ بھی ادراک ہوا کہ ہم میں اور ٹرانس جینڈرز میں تو کوئی فرق ہے ہی نہیں سارا فرق ہمارے اپنے ذہنوں میں پلتی سوچ کا ہے۔

کیا اس سماج کی فضا فرخ اور ان جیسے دیگر ٹرانس جینڈرز کے لیے سازگار ہے؟ یہ ایک سوال وہاں گزارے ہر لمحے میں میرے اندر ہتھوڑے کی طرح برستا رہا۔ ایک طرف ٹرانس جینڈرز کی اپنی بقا کے لیے جنگ ہے تو دوسری جانب وہ دھکے ہیں جو سماج انہیں دے کر واپس پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ ابھی کوئی ہفتے بھر پہلے کی ہی تو خبر ہے کہ ایک بڑے نجی بینک کی مانسہرہ میں واقع برانچ میں ایک خواجہ سرا نادرہ اکاؤنٹ کھلوانے گئیں جن کا اکاؤنٹ تمام ضروری کارروائی کے بعد کھول دیا گیا، لیکن پھر فوراً ہی بینک کے ہیڈکوارٹر نے یہ کہہ کر ان کا اکاؤنٹ بند کردیا کہ یہ خواجہ سرا ہیں اور ان کی آمدنی غیرشرعی ہے، کیوں کہ بینک کے بورڈ نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے اس لیے بینک نے اکاؤنٹ کھولنے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود کہ نادرہ کے شناختی کارڈ پر جنس کے خانے میں “مرد ” درج تھا۔

ہمارے جیسے مردہ معاشروں میں ایسی خبروں کی گنجائش ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ شریعت کے نام پر وہ کون سا بڑا کھیل ہے جو ہمارے یہاں نہیں کھیلا گیا۔ مذہب کے نام پر کتنے ہی جال نہیں بچھائے گئے اور اس بساط پر وہ کون سی شاطرانہ چالیں ہیں جو نہیں چلی گئیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ شریعت کو جیتے جاگتے انسانوں کا دم گھونٹنے کا آلہ تو نہ بنایا جائے۔ خصوصاً ان لوگوں کا جن کی پیدائش میں اپنا نہ کوئی اختیار ہو اور نہ ہی کوئی قصور۔ شریعت تو اضطرار کی حالت میں سور اور مردار کھانے کی بھی گنجائش نکال لیتی ہے وہ خواجہ سراؤں کے معاملے پر اتنی سفاک کیسے ہوسکتی ہے؟

ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں لوگ مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی ہیں، لیکن افسوس کہ ان کا مذہب فقط مفتی کی بات پر ایمان لانے کی حد تک ہے۔ ایسے سماج میں مذہب کے یہ نام نہاد وارث جس کو لاوارث چھوڑ دیں پھر اس کا کوئی بھی پرسان حال نہیں رہتا۔ کچھ ایسا ہی سلوک خواجہ سراؤں کے ساتھ ہورہا ہے۔ ان کا بھی یہاں کوئی وارث نہیں کیوں کہ ابھی سماج کی شریعت ان کی لاٹھی بننے کو تیار نہیں ہے۔

خواجہ سراؤں کے ساتھ اس سفاکی کی ابتدا تو ان کے اپنے گھروں سے ہی ہوجاتی ہے، سب سے بڑے دشمن تو خود والدین بن جاتے ہیں جو اپنے ہی پیٹ سے جنم لینے والے ٹرانس جینڈر کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور ان کے لیے عام زندگی گزارنے کے دروازے خود بند کردیتے ہیں۔ فرخ مرزا جیسے ٹرانس جینڈرز گنتی کے چند ہی تو ہیں، جو اپنی عملی زندگی میں کام یاب بھی ہیں اور سر اٹھا کر اپنی بھی شناخت بتاتے ہیں، کیوں کہ ان کو یہ فخر دینے والے ان کے والدین ہیں جنہوں نے بہترین تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرکے اپنے بچوں کو معاشرے میں تماشا بننے سے بچالیا۔

فرخ مرزا جیسے لوگ، چاہے ان کے شناختی کارڈ میں جنس کا خانہ کچھ بھی کہتا ہو، ہمارے معاشرے کا بلاشبہہ فخر ہیں۔ فرخ مرزا ایک آرٹسٹ ہی نہیں بلکہ روایت شکن بھی ہیں جو ٹرانس جینڈرز سے وابستہ اس ٹیبو کو توڑنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے سماج کی جڑوں کو غیرانسانی حد تک کھوکھلا کر رہا ہے۔ کیوں نہ ہم اس ٹیبو کو توڑنے میں فرخ مرزا اور ان جیسے دوسرے ٹرانس جینڈرز کا ساتھ دیں۔ ان کے کام کی جگہوں پر جا کر ان کی آمدنی میں اضافہ کریں، تاکہ سماج کی شریعت ان کی کمائی کو حرام قرار دے کر ان کے کھاتے کھولنے سے انکار تو نہ کرسکے۔

۔۔۔

’’سانتا کلاز‘‘
رضوان طاہر مبین

گذشتہ دنوں ہم برادرم اسد اسلم کی بھجوائی گئی ’اسباب بغاوت ہند‘ کی ورق گردانی کر رہے تھے۔۔۔ اس دوران ہم نے یوں ہی کمرے میں موجود بھانجے ابراہیم صاحب کو سرسید احمد خان کی تصویر دکھا کر پوچھ لیا کہ ’جانتے ہیں انھیں، کون ہیں۔۔۔؟‘

انھوں نے تصویر کو ایک نظر غور سے دیکھا اور لاعملی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’پتا نہیں کون ہے۔۔۔ ’سانتا کلاز‘ ہوگا۔۔۔!‘‘

قبل اس سے کہ ہم اُن کی لاعلمی پر افسوس کرتے، لیکن اُن کے جواب کے اگلے حصے نے ہمیں مزید چونکا دیا۔۔۔ ہمیں اُن سے زیادہ خود پر افسوس ہوا کہ ہماری اور ان کی اکثر گفتگو میں ایسی ہی تاریخی معلومات کا ذکر اکثر ہوتا ہے، شاید کبھی سرسید کا ذکر بھی کیا ہوگا، لیکن وہ اُن کے حافظے میں محفوظ نہ رہ سکا، ہم نے یہ جاننا چاہا کہ آخر ’سانتا کلاز‘ کو انھوں نے کہاں دیکھا، تو پتا چلا کہ ہندوستان سے نشر ہونے والے بچوں کے طویل افسانوی سلسلے ’بالویر‘ سے، جسے ’یوٹیوب‘ دیکھنے سے وہ کم ہی باز رہتے ہیں۔۔۔

ہمارے بھانجے ابراہیم ایک نجی اسکول میں تیسری جماعت میں زیرِتعلیم ہیں، اُن کے اس افسوس ناک جواب میں جہاں ہمارا اپنا قصور ہے، وہیں نصاب، اسکول اور اساتذہ بھی برابر کے شریکِ جرم ہیں۔۔۔ ہم اپنا وقت یاد کرتے ہیں، تو نصاب کے علاوہ غیرنصابی یا آج کی زبان میں کہیں تو ’ہم نصابی‘ سرگرمیوں میں بھی لازماً قائداعظم، علامہ اقبال کے بعد جس تیسری شخصیت کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا تھا، وہ جنابِ سرسید احمد خان ہی کی ہوتی تھی۔۔۔ ہمیں خوب یاد ہے کہ اسی مناسبت سے ہمارے نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول میں طلبہ کو چار گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا، تاکہ نظم وضبط اور تعلیم کے تئیں ان کے درمیان صحت مند مسابقت پیدا کی جا سکے، ان گروپوں کے نام جناح، لیاقت، اقبال اور سرسید پر ہی تھے، اور ان گروپوں کے طلبہ کو بالترتیب سبز، زرد، سرخ اور جامنی رنگ کے بیضوی بیج لگائے جاتے تھے۔۔۔

اس کے علاوہ اسکول کے ہر سالانہ جلسے میں انھی اسلاف کے تذکرے ہوتے۔۔۔ مختلف خاکے اور ٹیبلو وغیرہ پیش کیے جاتے، اسٹیج پر پیش کی جانے والی دل چسپ سرگرمیوں کے لیے طلبہ انھی قائدین کا روپ دھارتے۔۔۔ یوں ہم اپنے بزرگوں کو ان کی شکل کے ساتھ یاد کرلیتے۔۔۔ بہت سے اسکولوں میں تو دیواروں پر ان کی تصاویر لگائی اور بنائی جاتیں۔۔۔ ہمارے اسکول میں بھی بچے جب کبھی مصوری اور ڈرائنگ کے مقابلے کرتے، تو مختلف تاریخی مقامات کے علاوہ انھی اسلاف کے خاکے بناتے اور داد پاتے۔۔۔ پھر مصوری کے کچھ اعلیٰ ترین نمونے اسکول کے ’نوٹس بورڈ‘ کے بالکل سامنے دوسرے رخ پر بنے ہوئے شیشہ بند ’مشتہری چوکھٹے‘ میں بھی بہت دنوں تک آویزاں رہتے۔۔۔ اور آتے جاتے بچے اپنے نام کے ساتھ اپنی ڈرائنگ سجی ہوئی دیکھ کر مَن ہی مَن میں خوش ہوتے اور دوسرے بچے ان سے حوصلہ پاتے اور سیکھتے۔۔۔

آج اگر ایک نو سال کا بچہ ’سرسید احمد خان‘ کو ہی نہیں پہچانتا، تو یہ بات تہذیبی المیے سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین اور خاندان کے بڑوں سے بھول ہونے کے ساتھ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام بھی بہت بری طرح بھٹک کر رہ گیا ہے۔۔۔ وہاں اسلاف کے تذکرے شاید اب ’گم شدہ‘ ہو چکے ہیں۔۔۔ وہاں اب کوئی ایسی سرگرمی ہوتی ہی نہیں، جہاں جناح، اقبال، لیاقت اور سرسید وغیرہ کے تذکرے ہوں۔۔۔ اُن کے نام سامنے آئیں۔۔۔ تاکہ بچہ انھیں پہچانتا ہو اور جب پہچانے گا، تو تبھی اپنے اصل اور اپنی جدوجہد اور تاریخ سے آشنا ہو سکے گا۔۔۔ اس کے بغیر اس میں کچھ کرنے اور سیکھنے کی امنگ کیوں کر جاگے گی۔۔۔

اس واقعے کے بعد ہم نے غور کیا کہ ہم نے اپنے نصاب میں پرائمری تک قائد اور اقبال کے ساتھ ’خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘ کے عنوان سے لیاقت علی خان، ’آزادی یا موت‘ کے عنوان سے مولانا محمد علی جوہر، کے علاوہ عابدی بیگم (بی اماں)، حسن علی آفندی، ظہیر الدین بابر وغیرہ کو تو پڑھ چکے تھے۔ سرِدست ہمیں مزید نام یاد نہیں آرہے، کسی طرح نصاب کی پرانی کتب دست یاب ہوجائیں، تو ہمیں موازنہ کرنے میں آسانی ہو، کہ پہلے ابتدائی درجوں میں کیا پڑھایا جاتا تھا اور آج کیا حالت ہے۔ قصۂ مختصر یہ تمام صورت حال ہمارے مروّجہ نصاب کے علاوہ اساتذہ اور تعلیمی سرگرمیوں پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔

The post خیال آرائی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2MGpp3E

مہر گڑھ: دنیا کا قدیم ترین شہر؟

وطن عزیز کا منفرد صوبہ بلوچستان سنگلاخ پہاڑوں،ریتلے ساحلی صحراؤں، بنجر میدانوں اور وادیوں کی سرزمین ہے۔اس دیس میں چند ہی نخلستان اور سرسبز وادیاں واقع ہیں جنھیں مون سون کے موسم میں بارشیں ہونے پر وجود میں آنے والے عارضی دریا سیراب کرتے ہیں۔

یہ بات مگر بہت سے پاکستانی نہیں جانتے کہ پندرہ بیس ہزار قبل بلوچستان کی آب وہوا کافی نم تھی ۔مون سون میں خصوصاً آج کے مقابلے میں زیادہ بارشیں ہوتیں جو جل تھل ایک کر دیتیں۔موسم عموماً خوشگوار ہوتا،گرمی سخت ہوتی نہ سردی اور سال کے بیشتر مہینوں میں ماحول اعتدال پہ رہتا۔

کچھی کی بستی: دور جدید کے پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ کا دعوی ہے کہ اسی بہترین موسم سے متاثر ہو کر سندھ اور پنجاب میں مقیم خانہ بدوش قبائل نے بلوچستان میں ایک بستی بسا لی اور وہاں جا کر مستقل طور پہ آباد ہو گئے۔ وہ شدید گرمیوں یا سردیوں میں اس بستی میں چلے جاتے اور اپنا وقت آرام و سکون سے گزارتے۔ ان قدیم انسانوں کو یقیناً علم نہ تھا کہ یہ بستی رفتہ رفتہ جنوبی ایشیا ہی نہیں دنیا کے اُن اولیّں شہروں میں شمار ہوگی جہاں انسانی تہذیب و تمدن نے جنم لیا اور ارتقائی مراحل سے گزری۔ آج ہم اس بستی کو ’’مہر گڑھ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

مہر گڑھ دریائے بولان کی وادی میں واقع ہے۔ یہ علاقہ بلند و بالا پہاڑ رکھتا ہے اور میدان بھی۔ 2008ء تک یہ علاقہ ضلع بولان کہلاتا تھا۔ پھر اسے ’’کچھی‘‘ کہا جانے لگا۔ بلوچی اور سندھی زبانوں میں ’’کچی‘‘ کہلاتا ہے۔ دریائے بولان کچھی یا کچی کا سب سے بڑا دریا اور اسّی میل لمبا ہے۔ میدانی علاقوں کو سیراب کرتا ہے۔

جدید محقق کہتے ہیں کہ دو لاکھ سال قبل پہلے پہل افریقا سے قدیم انسان ہندوستان آئے۔ ان کی کچھ اولاد ہندوستان ہی میں بس گئی۔ یہ قدیم ہندوستانی جنگلوں میں شکار کرکے گزر بسر کرتے گویا شکاری تھے۔ پچاس ہزار سال قبل پھر مشرق وسطیٰ سے ’’کسان‘‘ اور وسطی ایشیا سے ’’گڈریے یا مویشی پال‘‘ ہندوستان میں وارد ہوئے۔ قدیم انسانوں کے یہ دونوں نئے گروہ ہندوستانی شکاریوں سے گھلنے ملنے لگے۔ آج جنوبی ایشیا میں بسنے والی بیشتر آبادی انہی تین گروہوں کی اولاد ہے۔

تاریخی درہ بولان: پاکستان (یا ہندوستان) اور ایران کے درمیان اونچے پہاڑی سلسلوں اور صحراؤں کی کثرت ہے۔ قدیم انسانوں کے لیے انہیں عبور کرنا بہت کٹھن اور دشوار گزار کام تھا۔ اسی لیے خصوصاً مشرق وسطیٰ سے آنے والے قدیم انسان افغانستان کے راستے ہندوستان میں داخل ہوتے۔ وہ پھر درہ بولان سے گزر کر سندھ اور پنجاب کے میدانوں میں پہنچتے۔ اسی لیے تب درہ بولان بھی درہ خیبر کے مانند ایک اہم گزرگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔

بعض محققین کا دعویٰ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے آنے والے کسی قافلے نے مہر گڑھ کو بسایا تھا۔ قافلے والے کسی سرسبز مقام کی تلاش میں تھے جہاں پانی بھی وافر ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سابقہ علاقے کے کسی طاقتور قبیلے نے انہیں وہاں سے نکال باہر کیا۔ بہرحال وہ قافلہ گھومتا گھامتا کسی من پسند ٹھکانے کی تلاش میں درہ بولان کی وادی آپہنچا۔ اہل قافلہ کو یہ وادی پسند آئی چناں چہ انہوں نے وہیں ڈیرے ڈال دیئے۔ تاہم ہندوستانی و پاکستانی ماہرین اثریات اور مورخین کا دعویٰ ہے کہ دس ہزار سال پہلے مہر گڑھ کو ہندوستان کے مقامی باشندوں ہی نے آباد کیا۔

شہر کی تین شرائط: ماہرین بتاتے ہیں کہ دس ہزار سال پہلے دنیا میں تقریباً چالیس لاکھ انسان بستے تھے۔ گویا اس وقت کرہ  ارض پر کْل انسانی آبادی ہمارے صرف ایک شہر، فیصل آباد کے میٹرو ایریا سے کچھ ہی زیادہ تھی۔(آج عالمی شہروں میں چار ارب سے زائد لوگ آباد ہیں۔) ایسی صورتحال میں محققین نے زمانہ قدیم کی صرف ان بستیوں کو ’’شہر‘‘ کہا ہے جوتین شرائط پر پورے اترتے ہوں۔اول یہ کہ بستی میں کتنے انسان آباد تھے اور وہ کتنے رقبے پر پھیلی تھی؟ دوم یہ کہ کیا وہ علاقے میں مرکز کی حیثیت رکھتی تھی؟ سوم یہ کہ بستی میں عمارتوں کی ساخت و ہئیت کیا تھی۔ مہر گڑھ ان تینوں شرائط پر پورا اترتا ہے۔

مہر گڑھ میں دس گیارہ ہزار سال قبل انسان آباد ہونا شروع ہوئے۔ رفتہ رفتہ ان کی آبادی بڑھنے لگی۔ نو ہزار سال قبل یعنی 7000 قبل مسیح تک مہر گڑھ کی آبادی ایک ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ تب یہ شہر تین مربع کلو میٹر رقبے تک پھیل چکا تھا۔ اس رقبے پر کم از کم پانچ ہزار انسان بہ سہولت آباد ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ایک ہزار سال کے عرصے میں مہر گڑھ کی آبادی ایک ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

تجارتی قافلوں کی گزرگاہ: مہر گڑھ کو 1974ء میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ، ژاں فرانسوا جاریج نے مع ٹیم دریافت کیا تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ مہر گڑھ میں شہری عمارتوں کا جامع نظام موجود تھا۔ وہاں آباد انسان سیدھے سادے مکان نہ بناتے بلکہ وہ زیادہ پیچیدہ ڈیزائن پر مشتمل تھے۔ گویا مہر گڑھ دوسری شرط پر بھی پورا اترتا ہے۔ژاں فرانسوا کا بھی خیال تھا کہ مہر گڑھ ہندوستان کی مقامی آبادی نے بسایا اور اسے وادی دجلہ وفرات کی تہذیب کا پیرو نہیں کہا جا سکتا۔انھوں نے علاقے میں کھدائی سے آثار قدیمہ کے 32ہزار نمونے دریافت کیے جو مختلف عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔

مہر گڑھ ایسے مقام میں آباد ہوا جہاں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس کے قریب ہی درہ بولان واقع ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ درہ تجارتی قافلوں کی گزرگاہ بن گیا تھا۔ اپنی جغرافیائی اور تجارتی اہمیت کے باعث 7000 قبل مسیح تک مہر گڑھ وسیع و عریض علاقے میں مرکزی انسانی بستی بن چکا تھا۔ گویا مہر گڑھ شہر کہلوانے کے لیے تیسری شرط پر بھی فٹ بیٹھتا ہے۔

مہر گڑھ کی انفرادیت: بین الاقوامی ماہرین اریحا (فلسطین) بسطہ اور ابیضا (اردن) اور چاتالہوویک (ترکی)(Çatalhöyük) کو قدیم ترین شہر قرار دیتے ہیں۔ ان سبھی شہروں کی آبادی 7000 مسیح میں ایک سے دوہزار کے مابین تھی۔ گویا اس فہرست میں جنوبی ایشیا کا مہر گڑھ بھی شامل ہوسکتا ہے۔ پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ کا فرض ہے کہ وہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر یہ حقیقت واضح کریں کہ مہر گڑھ کا شمار بھی قدیم ترین شہروں میں ہونا چاہیے۔

چاتالہوویک اور البیضا کے ساتھ ساتھ مہر گڑھ بھی یہ انفرادیت رکھتا ہے کہ وہاں انسانی تہذیب و تمدن اور تقافت نے جنم لیا۔ مہرگڑھ کی تہذیب مگر اپنی خصوصیات کے باعث دیگر دو اولیّں انسانی تہذیبوں سے ممتاز ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اس کے ارتقا میں مقامی طور طریقوں، رنگ ڈھنگ اور رسوم و رواج نے حصہ لیا۔

قدیم شہر کی خصوصیات: مہر گڑھ 7000 قبل مسیح میں ایک باقاعدہ انسانی بستی بنا اور پھر 2500 قبل مسیح تک آباد رہا۔ ان ساڑھے چار ہزار برس کے دوران دریائے بولان کا بہاؤ بدلنے کی وجہ سے اسے قریب ہی مختلف جگہوں پر آباد کرنا پڑا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ان ساڑھے چار ہزار برسوں کو آٹھ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور 7000 سے 5500 قبل مسیح تک برقرار رہا۔

اس پہلے دور میں اہل مہر گڑھ نے زراعت کا آغاز کیا۔ وہ جنوبی ایشیا کے پہلے کسان تھے جنہوں نے گندم اور جو کی فصلیں اگائیں۔ گزر اوقات کے یے وہ بھیڑ بکریاں اور گائے بھینسیں بھی پالتے تھے۔ پہلے پہل انہوں نے کچی مٹی سے مکان بنائے۔ ہر گھر میں چار پانچ کمرے ہوتے۔ ایک کمرا اناج محفوظ کرنے کے لیے مخصوص تھا۔ وہ پتھروں اور ہڈیوں سے آلات بناتے۔ ماہرین آثار قدیمہ کو کھدائی سے بنے آلات، مالائیں، چوڑیاں اور ہار ملے ہیں۔ یہ سبھی اشیا پہلے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔

اہل مہر گڑھ جانور قربان کرتے تھے۔ مردوں کو دفن کرنا بھی رواج تھا۔ وہ مصری قوم کی طرح مردے کی قبر میں مختلف عام استعمال کی اشیا رکھتے تھے۔ گویا ان کا بھی یہ اعتقاد تھا کہ انسان مرنے کے بعد زندہ رہتا ہے۔

کھدائی سے ماہرین آثار قدیمہ کو خواتین کی زیب و آرائش سے وابستہ اشیا بھی ملیں۔ یہ اشیا سیپی یا چونے کے پتھر، فیروزہ، سنگ لاجورد اور سنگ ریت (Sandstone) سے بنائی گئیں۔ اہل مہر گڑھ مرد اور عورتوں کی مورتیاں بھی مٹی و ریت سے بنائے تھے۔

مہر گڑھ سے فیروزہ (Turquoise) سنگ لاجورد (lapislazuli) اور سیپیوں کا ملنا آشکارا کرتا ہے کہ وہاں کے باشندے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں مقیم مچھیروں سے لے کر افغانستان میںبستے باشندوں سے تجارتی تعلقات رکھتے تھے۔ سنگ لاجورد افغانستان میں بہ کثرت ملتا ہے۔

ماہرین کو ایک قبر سے پتھر کی بنی کلہاڑی بھی ملی۔ بعدازاں گھروں سے مزید کلہاڑیاں برآمد ہوئیں۔ گویا اہل مہر گڑھ روزمرہ زندگی میں کلہاڑی کا استعمال بکثرت کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ یہ ایک دفاعی ہتھیار بھی ہو۔ گویا پتھر سے بنی کلہاڑی کو انسان کا پہلا مو ثر ہتھیار کہنا ممکن ہے۔

موسموں کا حملہ: خیال ہے کہ پانچ چھ ہزار سال قبل بلوچستان کا موسم خشک ہونا شروع ہوا۔بارشیں کم ہونے لگیں۔اس باعث سبزہ بھی کم ہو گیا۔رفتہ رفتہ آب وہوائی اور موسمی تبدیلیوں نے مہرگڑھ میں رہنا کٹھن بنا ڈالا۔اس لیے علاقے کی ساری آبادی دیگر علاقوں مثلاً ہڑپہ اور مونجودڑو کی جانب ہجرت کر گئی۔

دلچسپ بات یہ کہ باشندگان مہرگڑھ نے جس تہذیب وثقافت کی بنیاد رکھی،اس کے آثار آج بھی علاقے میں دکھائی دیتے ہیں۔مثلاً اس کے قریب ہی سبی اور ڈھاڈر کے علاقے واقع ہیں۔ان علاقوں میں خانہ بدوش قبائل اب بھی بستے ہیں۔یہ مویشی پالتے اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔نیز علاقائی فنکار مہر گڑھ میں بننے والے ظروف کی طرح برتن بناتے ہیں۔ان کی آرائش وزیبائش اسی انداز میں کی جاتی ہے۔گویا کئی ہزار برس گذر چکے،علاقے کے جدید باشندوں نے اپنی قدیم تاریخ سے رابطہ برقرار رکھا ہے۔

اولیں دندان ساز: سائنس وٹکنالوجی کے مشہور رسالے،نیچر میں 22اپریل 2006ء کو ایک حیرت انگیز رپورٹ شائع ہوئی۔اس سے انکشاف ہوا کہ مہرگڑھ کے باسی دنیا کے اولیّں دندان ساز تھے۔ماہرین کو دراصل مہرگڑھ کے قبرستان سے ایسی کھوپڑیاں ملیں جن کے دانت مختلف آلات اور اوزاروں سے گھسے گئے تھے۔بعض میں انسان ساختہ سوراخ بھی پائے گئے۔اس انکشاف نے ساکنان مہر گڑھ کو موجد اور زمانہ قدیم کی ترقی یافتہ قوم بنا دیا۔

ختم ہوتا خزانہ: مہر گڑھ پاکستان کے لیے ایک بیش قیمت تہذیبی وثقافتی خزینے کی حیثیت رکھتا ہے۔دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے یہ پُرکشش اثریاتی مقام بن سکتا ہے۔افسوس کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے یہ خزانہ محفوظ رکھنے کے لیے موزوں اقدامات نہیں کیے۔اسی باعث یہ خزانہ قدرتی آفات مثلاً بارشوں اور کڑی دھوپ سے تباہ ہو رہا ہے۔مذید براں علاقے میں چور بھی موجود ہیں۔وہ موقع پا کر مختلف جہگوں کی کھدائی کرتے اور نکلنے والے نوادرات کراچی یا کوئٹہ بیچ دیتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایسے نوادر اسگل ہوتے پکڑے گئے تھے۔یہ اشد ضروری ہے کہ مہرگڑھ کو محفوظ رکھنے کی خاطر مطلوبہ اقدامات کیے جائیں ورنہ ہمارے اس عظیم تہذیبی وثقافتی ورثے کا نام ونشان مٹ جائے گا۔

The post مہر گڑھ: دنیا کا قدیم ترین شہر؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3pDv35w

مشرقی پاکستان سے بنگلادیش تک

کیا سقوط ڈھاکا کا سانحہ ناگزیر تھا؟ کیا ملک کے مشرقی ومغربی بازو یکجا نہیں رہ سکتے تھے؟ قوم کے اذہان میں یہ سوالات ہر سال جنم لیتے ہیں لیکن اس کا جواب پوری سچائی کے ساتھ کبھی سامنے نہ آسکا۔ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں پیش آنے والے تین جان کاہ سانحات میں 16 کی تاریخ اور ہندسہ مشترک نظر آتا ہے۔

اکتوبر1951 میں لیاقت علی خان کا قتل، دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان کا بنگلادیش کی جانب سفر اور دسمبر2015ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں معصوم نونہالوں کا بہیمانہ قتلِ عام۔ بنگلادیش کے قیام نیز پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوؤں کے مابین تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے مذکورہ سوالات کے پس منظر پر غور کرنا ہوگا۔

1940ء کی قرارداد لاہور اور1946ء کی قراردادِدہلی جن کے ذریعے مسلمانوں کے علیحدہ ریاستوں اور آخر میں پاکستان کی صورت میں ایک قومی ریاست قائم ہوئی، کی تجاویز دونوں ہی، غیر منقسم بنگال کے وزراء اعلیٰ مولوی ابوالقاسم فضل الحق اور حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھیں۔

قیام پاکستان کے بعد جغرافیائی طور پر مغربی پاکستان میں مرکزی دارالحکومت کے قیام کی مشرقی پاکستان کی جانب سے منظوری، نیز جداگانہ طریقہ انتخاب کے نتیجے میں 1945-46 کے انتخابات میں مشرقی بنگال کے منتخب ہونے والے ہندو اراکین اسمبلی کے توازن کو قائم کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کی جانب سے لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی مرکزی اسمبلی میں نام زدگی، ایسے واقعات ہیں جو اس امر کی دلالت کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی قیادت اور عوام پاکستان کو یکجا رکھنے کے لیے ہر کاوش کو بروئے کار لانا چاہتے تھے۔

بنگلا دیش کے صدرمملکت کی سرکاری ویب سائیٹ ’’بنگا بھین‘‘ پر 1947ء سے بنگلادیش کے قیام تک صوبے کے گورنروں کا ایک مختصر تعارف موجود ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آج بھی بنگلادیش کی مقبول قیادت مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی فاصلوں اور دوریوں کے لیے اسکندرمرزا کو ذمہ دار تصور کرتی ہے جب کہ اسی فہرست میں بحیثیت صوبائی گورنر چوہدری خلیق الزماں کی توصیف کی گئی ہے۔

چوہدری خلیق الزماں نے 1954ء کے انتخابات میں کام یاب سیاسی پارٹیوں کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار اور گورنرراج نافذ کرکے مرکزی حکومت کے نمائندے کے طور پر تمام اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حکومتی مطالبہ مسترد کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کو ترجیح دی تھی جس کا ادراک مشرقی پاکستان کی قیادت کو تھا، جب کہ مشرقی پاکستان سے نام زد وزیراعظم لیاقت علی خان کا بے رحمانہ قتل اور بعدازاں وزیراعظم کے منصب سے خواجہ ناظم الدین کی غیرآئینی برطرفی پر بھی مشرقی پاکستان کی متحرک قیادت اور باشعور عوام نے خاموش ردِعمل کا مظاہرہ کیا تھا۔

1954میں آئین ساز اسمبلی کی غیرقانونی تحلیل کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات اور 1956 کے دستور میں مساوی نمائندگی کو قبول کرکے مشرقی پاکستان نے ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کی تھی، جب کہ مشرقی پاکستان میں آبادی کی عددی اکثریت تھی۔

اسی طرح رائے عامہ کی منظوری کے بغیر کراچی کے متفقہ دارالحکومت کی منتقلی کو ان اسباب میں گردانا جاسکتا ہے جو ملک کے دونوں بازوؤں کے مابین فاصلوں میں اضافے کا سبب بنتے رہے، تاآنکہ 1969میں اقتدار مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل کرنے کے بجائے فیلڈمارشل ایوب خان نے ایک اور آمر یحییٰ خان کے سپرد کردیا تھا، جنہوں نے پاکستان کی دونوں وفاقی اکائیوں میں متفقہ ’’پیریٹی‘‘ کے اُصول کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو بحال کردیا تھا اور مغربی پاکستان کی انتظامی وحدت کو ختم کرکے نئے صوبے تشکیل دے دیے تھے۔

کراچی اور بہالپور کی صوبائی حیثیت کو بحال نہیں کیا گیا تھا۔ مزید برآں پاکستان کے نئے آئین کو مرتب کرنے کے لیے 1970 کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والی دستورساز اسمبلی کو ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے سادہ اکثریت سے آئین کو منظور کرنے کے غیرمعمولی اختیارات تفویض کردیے گئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو غیرمعمولی اکثریت حاصل ہوگئی تھی جس کی بنیاد پر ان کی پارٹی تنہا آئین سازی اور اس کی منظوری دے سکتی تھی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سادہ اکثریت سے دستورسازی کے اختیار پر جن شخصیات نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان میں ایئرمارشل نور خان نمایاں تھے۔ یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک کی رُو سے آئین ساز اسمبلی کو دستورسازی کے لیے 120دن کی میعاد کا تعین کیا گیا تھا جو ایک غیریقینی صورت حال کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس میعاد کے تعین پر جن سیاست دانوں نے اپنے اعتراضات اُٹھائے تھے ان میں ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ اس میعاد پر نظرثانی کی جائے لیکن حکم رانوں نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ میرا تاثر یہ ہے اس دوران مشرقی اور مغربی پاکستان کی قیادت میں نہ صرف باہمی اعتماد کی کمی تھی بلکہ معاملہ اعتماد کے بحران تک جاپہنچا تھا، جس کے لیے اعتمادسازی کی ضرورت تھی، جو ملک کے حکم راں انجام دے سکتے تھے۔

مثال کے طور پر اگر پاک بحریہ کے ہیڈکوارٹر کو کراچی سے چٹاگانگ منتقل کردیا جاتا تو کوئی قیامت نہ ٹوٹ پڑتی۔ بعد میں بھی نہ صرف ہیڈکوارٹر کراچی سے منتقل کیا گیا بلکہ بحریہ کا وار کالج اس شہر میں منتقل کیا گیا جو ساحل سمندر سے کوسوں دور ہے۔ میرا تاثر ہے کہ اگر بحریہ کے ہیڈکوارٹر کی مشرقی پاکستان منتقلی عمل میں آجاتی تو شیخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کی قیادت اپنے چھے نکات پر آئین سازی میں رعایت دے سکتی تھی اور 6 نکات پر آئین کی ترتیب کے مطالبے میں لچک آسکتی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ 2دسمبر1971ء کو عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے سنیئر ترین وزیر کی سربراہی میں ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور کراچی کے ایک عشائیے میں بھی شرکت کی تھی جس کا اہتمام پاک چین دوستی کی انجمن کے صدر حاتم علوی نے کیا تھا۔ غالباً چینی قیادت کے اس دورے کا مقصد حکومت پاکستان کو معاملات کی سنگینی سے آگاہ کرنا تھا۔ مذکورہ عشائیہ جو کراچی کے کانٹی نینٹل ہوٹل میں منعقد ہوا تھا۔ ڈائس پر مہمان خصوصی اور میزبان کے علاوہ گورنر سندھ جنرل رحمان گل اور بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی موجود تھیں۔ میں بینکوئیٹ ہال کے کوریڈور میں داخل ہوا تو اس وقت عشائیے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے دیکھا کہ کوریڈور میں ایک صوفے پر معروف شاعر اور دانش ور فیض احمد فیض تنہا تشریف فرما تھے، جنہوں نے مجھ سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال میں سوویت یونین کے رویے کی وجہ سے وہ کسی غیض وغضب کا شکار نہ ہوجائیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس دور میں سوویت یونین کے پہلے آخری سربراہ حکومت الیکس کو سیجن تھے جنہوں نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ اُنہوں نے امریکی وزیرخارجہ ہنری کیسنجر کی چینی قیادت سے ملاقات میں حکومت پاکستان کی سہولت کاری کے بارے میں ناراضی کا اظہار کیا ہوگا۔ بعدازاں جس کا اظہار مشرقی پاکستان میں بھارتی جارحیت کی سوویت آشیرباد کے ذریعے ہوا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا کے صدر نکسن مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلادیش کے قیام کے عمل کو خوں ریزی کے بجائے پُرامن طور فتح مند دیکھنا چاہتے تھے۔

مذکورہ بالا سوالات کی روشنی میں بھی اس امر کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کون سی تجاویز تھیں جن کو عملی جامہ پہنانے سے پاکستان نئے آئین سے متعلق یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک کے ہوتے ہوئے بھی اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھ سکتا تھا۔ 1969ء میں یحییٰ خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب ’’پیریٹی‘‘ کے خاتمے اور مغربی پاکستان کی ووٹ کی تحلیل کی باتیں منظرِعام پرآرہی تھیں تو تحریک پاکستان کی اہم شخصیت نے ملک کو تقسیم سے بچانے کے لیے مغربی پاکستان میں صوبوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی صوبوں کی تخلیق کا مطالبہ کیا تھا۔

اگر یہ تجویز روبہ عمل میں آجاتی تو مشرقی پاکستان کی ایک واحد اکائی کے طور پر اس کی عددی اکثریت کا خوف لاحق نہ ہوتا، اور اس طرح قابل ِعمل وفاق معروض وجود میں آجاتا، اس سلسلے میں چوہدری خلیق الزماں نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، جس کی صدارت ڈاکٹر حبیب الہٰی علوی نے کی تھی اور جس میں پروفیسر اے بی اے حلیم کے علاوہ دیگر نام ور دانش ور وسیاست داں شریک ہوئے تھے۔

اس کانفرنس میں مشرقی پاکستان میں صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اسی طرح چوہدری خلیق الزماں چاہتے تھے کہ کنونشن اور کونسل مسلم لیگز ایک سیاسی جماعت کے طور پر متحد ہوجائیں تاکہ ملک کے دونوں بازوؤں میں بننے والی نئی قیادتوں خصوصاً شیخ مجیب الرحمن وغیرہ کے سامنے ایک موثر انتخابی خدمت کے طور پر اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں اور اس مقصد کے لیے جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے گول میز کانفرنس میں صدارتی طرزحکومت کو خیرباد کہنے اور پارلیمانی نظام جمہوریت کو رائج کرنے کا اعلان کردیا تھا تو کنونشن اور کونسل مسلم لیگز میں نظام حکومت کے تناظر میں نظریاتی اختلاف ختم ہوگیا تھا اور دونوں جماعتیں مدغم ہوسکتی تھیں لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ حکم راں اس کے لیے تیار نہیں تو اُنہوں نے مسلم لیگ میں خان عبدالقیوم خان جیسی مقبول ومضبوط قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کی لیکن مسلم لیگ کے دھڑے پھر بھی متحد نہ ہوسکے جب کہ وہ جماعت اسلامی اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹیPDP کو بھی قریب لانا چاہتے تھے، تاکہ عام انتخابات کے متوقع نتائج کے خطرات کے منفی رجحانات کا مقابلہ کیا جاسکے اور قائداعظم کا پاکستان ایک سیاسی وحدت کے طور پر دنیا کے نقشے پر برقرار رہے۔ توقع کی جاتی تھی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اجتماعی تدبر کا مظاہرہ کرے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور پاکستان دولخت ہوگیا اور اس تمام معاملے میں بھارتی جارحیت کا ایک بڑا کردار ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلادیش میں تبدیل ہوگیا اور اقوام متحدہ سمیت کسی بین الاقوامی ادارے نے مشرقی پاکستان کے عوام سے یہ دریافت کرنے کی زحمت نہ کی کہ وہ یہ علیحدگی چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟ سقوط ِ ڈھاکا کے نتیجے میں جنوب مشرقی ایشیا یا مشرق بعید میں پاکستان کا سیاسی وجغرافیائی وجود ختم ہوگیا اور برصغیر پاک وہند کے بجائے جنوبی ایشیا کی نئی اصطلاح متعارف ہوگئی، جب کہ مشرقی پاکستان کی وہ سیاسی قیادت اور عوام جنہوں نے بھارتی جارحیت اور اندرونی پوزیشن کا محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے مقابلہ کیا تھا، کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً 3 لاکھ پاکستانی جنہوں نے ریڈکراس سے پاکستان میں منتقلی کا باضابطہ اظہار کیا تھا، تاحال بنگلادیش میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

قومی زندگی کے تناظر میں مشرقی پاکستان کے محب وطن پاکستانیوں کی قربانیوں سے روگردانی اور جوہری سیاست داں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان کے نام ور مسافر محمود علی کی تجویز کے مطابق پاکستان اور بنگلادیش ’’ایک قوم دو ریاستیں‘‘ کے نعرے پر قریب تر آسکتے ہیں لیکن ان تعلقات میں بھارت سے بڑی رکاوٹ ہے۔

The post مشرقی پاکستان سے بنگلادیش تک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2NRJJzS

دریائے نیل کے دیس میں اُردو کی فصل برگ وبار لارہی ہے

(ایسو سی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو۔ فیکلٹی آف آرٹس، عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ۔ مصر)

اردو زبان برصغیر پاک وہند سے باہر نکلی تو کرۂ ارض کے پانچوں براعظموں تک پھیل گئی اور نئی بستیاں بستی چلی گئیں۔ اردو کی نئی بستیوں میں مصر کی سرزمین بھی شامل ہے۔ مصر میں اردو کی تدریس بیسویں صدی کے نصف آخر سے اب تک جاری ہے۔

مصر کی سات یونیورسٹیوں میں اردو زبان کی تدریس جاری ہے۔ گریجویشن کی حد تک اردو پڑھانے کا انتظام موجود ہے۔ علاوہ ازیں ان جامعات میں بھی ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق کا انتظام بھی موجود ہے۔ اور ریسرچ کرنے والے طلبہ کو شعبے کے نام سے ایم اے اور پی ایچ فی کی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔

مصر کی جامعات میں جامعہ الازہر، جامعہ عین شمس اور جامعہ القاہرہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں اردو زبان کا ایک علیحدہ شعبہ ہے۔ دیگر جامعات میں جیسے منصورہ، اسکندریہ، وغیرہ بھی اردو زبان کی تعلیم و تدریس اور تحقیقی کام کا بند وبست موجود ہے لیکن فارسی زبان کے شعبے کے زیراہتمام اردو بطور دوسری زبان پڑھائی جاتی ہے۔ بعض دیگر جگہوں پر بھی اردو کورسز بھی ہوتے ہیں۔ یہاں سینٹرز بھی اردو سکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مصر میں انڈین کلچرل سینٹر میں بھی اردو کورسز ہیں۔ یہ کورس کرکے بھارت اور پاکستان جانے کے لیے اسکالرز فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مصر میں ادبی سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ اور بین الاقوامی سطح کی ایسی کانفرنسیں بھی منعقد کی جاتی ہیں، جن میں مصر سے ہی نہیں بلکہ بیرون ملک سے بھی متعدد اساتذہ شرکت کر کے اپنے مقالات پیش کرتے ہیں، جن کی شرکت کی وجہ سے اردو زبان وادب کی تحقیق کے نئے گوشے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو کے طالب علموں خاص طور پر ریسرچ اسکالرز کو ایسی سرگرمیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔

اردو کے طالب علم ابتدائی عمر یعنی یونیورسٹی کے مرحلے کے آغاز میں پڑھتا ہے اور اس کے پاس اس زبان کے بارے میں کوئی سابقہ پس منظر نہیں ہے اور نہ ہی اس نے قبل ازیں اس کے بارے میں سنا ہے۔ اس کے برعکس مثال کے طور پر انگریزی یا فرانسیسی زبان ہے جس کو طالب علم بچپن ہی سے پڑھتا ہے اور وہ میڈیا اور اسی طرح اسپیشل سینٹرز کے ذریعے معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مصر میں اردو کے فروغ کے لیے برصغیر سے تعلق رکھنے والے اردو اہل زبان اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے اردو کے فروغ کے لیے گراں قدر تدریسی خدمات انجام دی ہیں، جن کی بدولت اس ملک میں اردو کا چرچا ہوا ہے۔ آج کل الازہر یونیورسٹی اور عین شمس یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے ایسے اہل زبان اساتذہ منسلک ہیں جو انڈین ہیں اور مصر میں مستقل بنیادوں پر آباد ہو چکے ہیں۔

الازہر یونیورسٹی (بوائز برانچ) کے اردو ڈپارٹمنٹ کی بنیاد 1979ء میں پڑی۔ وہاں اسلامی، ادب اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر اردو کے شعبے میں تقریباً سو طالب علم موجود ہیں۔ الازہر یونیورسٹی (گرلز برانچ) کے اردو ڈپارٹمنٹ کی بنیاد 1966ء میں پڑی۔ اس ڈپارٹمنٹ سے ایک سال نامہ تحقیقی مجلہ (اردویات) شائع ہوتا ہے۔ اس کا پہلا شمارہ مئی 1999ء میں اور تازہ ترین شمارہ (پندرہواں شمارہ) مئی 2019ء میں شائع ہوا۔ اس مجلے میں اردو زبان وادب کے مختلف پہلوؤں پر مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈپارٹمنٹ کی بزم بھی سیمیناروں کا اہتمام کرکے مصر میں اردو کی شمع روشن کیے ہوئے ہے۔

عین شمس یونیورسٹی میں مشرقی زبانوں کا شعبہ 1962ء میں قائم کا گیا تھا۔ شروع میں صرف فارسی اور ترکی زبان ہی پڑھائی جاتی تھی۔ بعد میں 1979ء میں فارسی اور ترکی زبان کے ساتھ اردو بطور اختیاری زبان پڑھائی جانے لگی۔ 1996ء میں اردو کا ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ شروع میں اس شعبے میں جامعہ الازہر اور انڈوپاک کے اساتذہ پڑھاتے تھے جنہوں نے اردو طلبہ اور اسکالرز کی مدد کرنے میں بے پناہ کارنامے انجام دیے۔ وہ اس شعبے میں کافی عرصے تک رہے اور ان کی سرپرستی میں تحقیقی کام چلتا تھا۔ اب اس شعبے سے جو اساتذہ وابستہ ہیں ان کا بنیادی تعلق مصر سے ہے۔ علاوہ ازیں دو ایسے اساتذہ موجود ہیں جن کا تعلق ہندوستان سے ہے۔

عین شمس یونیورسٹی میں اردو شعبے میں پہلے سال میں طالب علم صرف اردو قواعد پڑھتا ہے۔ پھر دوسرے سال سے چار سال تک وہ تاریخ، شاعری، نثر، ادب، ترجمہ (عربی سے اردو میں اور اس کے برعکس) پڑھتا ہے۔ چار سال کے دوران وہ اردو زبان وادب اور تاریخ کے متعلق سب کچھ جان جاتا ہے اور برصغیر کے تمام سیاسی، تہذیبی، اور معاشرتی پہلوؤں سے متعارف ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عین شمس یونیورسٹی میں فیکلٹی آف آرٹس کا اردو شعبہ تمام مصری جامعات کا واحد شعبہ ہے جس میں ہندی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔

مصر میں اردو زبان میں تخلیقی ادب کے سلسلے میں تو میں کہہ سکتی ہوں کہ یہاں کے لوگوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے، ان کی زبان عربی ہے اس لیے یہاں ادبی تصانیف کے معنی میں کم ملتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو مصر میں اردو زبان میں صرف ایک ادبی تصنیف ہے وہ ہے ’’سمندر ہے درمیاں‘‘ ایک نظموں کا مجموعہ جس کی مصنفہ ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی ہیں، جن کا تعلق شعبہ اردو، عین شمس یونیورسٹی سے ہے، وہ وہاں اردو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔لیکن مصر کی سات جامعات میں اردو ادب میں نہایت قابلِ قدر تحقیقی کام ہو رہا ہے۔

اردو تحقیق کے فروغ میں یہ جامعات ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ ان میں جامعہ الازہر، جامعہ القاہرہ اور جامعہ عین شمس کے تحقیقی مقالے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ مصر میں اردو ادب میں تحقیق کا امتیاز کسی ادبی تخلیق کا اردو سے عربی میں ترجمہ کرنا ہے۔ ترجمے کے ساتھ ساتھ متن کی تنقید بھی مرکزی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہے۔ تہذیبی نظریات و رجحانات اور ثقافتی و سماجی صورتحال کے حوالے سے ادب اور ادیبوں کا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ان اردو شعبوں میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے ایسے تحقیقی مقالے لکھوائے گئے ہیں جو اردو میں تحقیق کی رفتار کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جدید اور معاصر اردو ادب کے تحقیقی کام میں ان مقالوں کا علمی وزن بے حد وسیع ہے۔ ان شعبوں میں اردو زبان وادب کے مختلف رجحانات پر خاصا لکھا گیا ہے۔

اگر ہم اردو زبان وادب کے سلسلے میں حالی تحقیقی رجحانات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ رجحانات ان موضوعات پر ایک اہم مقام رکھتے ہیں : ۱۔ ادب کی تاریخ: اس میں ادیبوں کی زندگی، ان کی زندگی میں تاثیر وتاثر کے پہلو، متن کے خصائص، ادبی مسائل، ادبی مظاہر اور میلانات اور ادب کے ادوار شامل ہیں۔ ۲۔ شعری اور نثری متن: اس میں کلاسیکی اور جدید شاعری اور اس کے موضوعات، افسانوی اور غیرافسانوی ادب، جیسے ناول، افسانہ، ڈرامہ، مضمون، وغیرہ شامل ہیں۔ ۳۔ نظریۂ ادب: اس میں ادبی اصناف شامل ہیں اور تقابلی ادب۔

مصر میں اکثر ریسرچ اسکالرز ریسرچ کی شرائط اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ تحقیقی موضوع کے سلسلے میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ اساتذہ شعبہ اردو میں ریسرچ اسکالروں سے نئے نئے موضوعات پر معیاری تحقیقی مقالے لکھواتے ہیں۔ ضروری ہے کہ کسی یونیورسٹی میں اس سے پہلے اس موضوع پر یا اس سے ملتے جلتے موضوع پر بھی کوئی مقالہ نہ لکھا گیا ہو۔

کسی بھی موضوع پر مقالہ سپردِقلم کرنے سے پہلے وہ اس موضوع سے متعلق تمام ضروری معلومات اور مواد جمع کرکے ان پر غوروفکر کرتے ہیں۔ اور پھر اپنے ذوق اور شعورِتنقید کی مدد سے اس موضوع سے متعلق جو تحقیقی و تنقیدی نتائج سامنے لاتے ہیں، ان میں جدت اور تازگی تو ہوتی ہی ہے۔  تحقیق کے عنصر کے ساتھ ساتھ مقالوں کا ایک اہم پہلو اسکالرز کی تنقید نگاری بھی ہے۔

ضرورت کے مطابق تحقیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تنقیدی شعور کا بھی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ان ہی مقالوں میں بہترین تنقید ملتی ہے۔ ادبی کام کس اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ علامتی اسلوب میں، تجریدیت کی تیکنیک یا میجک کی تکنیک میں۔ ہم جانتے ہیں کہ موضوع اور تیکنیک پر نظر رکھنا ادبی کاموں کی تنقید کا اصل اور بنیادی جوہر ہے۔ اس کے علاوہ ان مقالوں میں ادیب کے برتاؤ کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ادبی کام کی خوبیوں اور خامیوں کا بہترین تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

مصر میں ریسرچ اسکالرز کا کمال یہ ہے کہ وہ پورا ادبی متن یا انتخابی نمونوں کا ترجمہ اردو سے عربی میں کرتے ہیں اور تنقیدی تجزیوں کے ساتھ ساتھ مقالے میں متن سے شواہد اور دلائل کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ریسرچ اسکالر کے لیے مقالے کے حقائق، اشارات، مقامات، اور شخصیات وغیرہ کے بارے میں حاشیہ لکھنا ضروری ہے۔لیکن ایک بڑی دشواری یہ ہے کہ تحقیقی مقالے کا مواد ہمیشہ دست یاب نہیں ہوتا۔ ریسرچ کے لیے وہ کتابیں موجود نہیں ہوتیں جو تحقیقی اعتبار سے بے حد اہم ہیں جیسے ادبی متن یا تخلیق سے متعلق خارجی مواد۔

مصر میں تحقیقی رجحانات کی موجودہ صورت حال کے منظرنامے میں یونیوڑسٹیوں کے اردو شعبوں میں جاری تحقیقی سرگرمیاں، بحیثیت مجموعی اطمینان بخش ہی کہی جائیں گی۔ مقالوں سے تحقیق و تنقید کے سرمائے میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ مقالوں کی نوعیت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ مقالہ نگاروں نے افسانوی ادب پر توجہ دی ہے۔ اگرچہ شاعری اردو ادب میں اہم صنف کا درجہ رکھتی ہے اس پر تحقیقی مقالوں کی تعداد کم ہے، نثر میں تحقیق زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ تحقیق افسانوی ادب پر ہی ہوتی ہے۔ دوسرے درجے پر شاعری کا نمبر آتا ہے۔

آخر میں کہہ سکتی ہوں کہ مصر میں اردو زبان کی وسعت کا اندازہ لگانے میں اردو ادب کا تحقیقی و تنقیدی کام بے حد مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اردو ادب کے حوالے سے تحقیقی مقالے کثرت سے لکھے جا رہے ہیں۔ اردو ادب کا معیار بلند کرنے میں ان مقالوں کا بھی اہم کردار ہے۔ جن تحقیقی کاوشوں کا سرمایہ سامنے آ چکا ہے وہ نہ صرف اپنی مقدار کے لحاظ سے بلکہ معیار اور کیفیت کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے۔ مصر کی جامعات کے اردو شعبوں کا سب سے بڑا کارنامہ اردو زبان وادب کی تحقیق کی شمع روشن کرنا اور ادبی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہونا ہے۔

اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے ریسرچ اسکالرز سرگرم ہیں۔ تاریخ اور اردو زبان وادب کی مختلف اصنافِ نظم ونثر میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے، ترجمے پر ان کا ارتکاز رہا۔ اردو زبان وادب میں تحقیقی مقالوں کے فروغ کے لیے بیسویں صدی کے آخری نصف سے کوشش جاری ہے۔ یہ مقالے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

موضوعاتی، اسلوبیاتی، ادبی اور فکری پہلوؤں کے تجزیہ و تحقیق کے حوالے سے بصیرت ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ریسرچ اسکالرز نے اردو ادب میں مختلف ادبی رجحانات پر تحقیقی کام کیا، جن کے مقالے جو اکثر و بیشتر اردو کے تحقیقی مقالوں میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے اکثر و بیشتر مقالوں میں سماجی و ثقافتی حقائق اور مسائل کے حوالے سے تحقیقی کام ہوتا ہے۔ مصر میں ریسرچ اسکالرز اردو ادب کی تحقیق نئے زاویوں سے کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور موضوع کو روشن کرنے کا رویہ اپناتے ہیں۔ اس کے علاوہ متن میں موضوع کا تجزیہ کرنے کے ساتھ تنقید کے بھی عناصر ملتے ہیں۔ اس لیے کہ تحقیق تنقید کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ اسکالرز نے اپنے گہرے ادبی ذوق سے کام لے کر اردو تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے۔

The post دریائے نیل کے دیس میں اُردو کی فصل برگ وبار لارہی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3oFNJAk

مشہور، تاریخی اور روایتی پختون رقص

 آثارقدیمہ سے برآمد ہونے والے بے شمار نمونوں کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پشتو موسیقی اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود پختون قوم کا اپنا وجود۔ مثلاً 2000 قبل از مسیح کے دور پر دلالت کرتی ہوئی پشتو لوک شاعری کی مقبول ضف ’’ٹپہ‘‘ جسے مصرعہ اور لنڈئی بھی کہا جاتا ہے میں کہا گیا ہے

سپوگمیہ کڑنگ وھہ را خیجا

یارم دگلو لو کوی گوتے ریبینہ

(اے چاند جلد نکل آ میرا محبوب پھولوں کی کٹائی کرتے ہوئے درانتی سے اپنی انگلیاں کاٹ رہا ہے) مستند تاریخ اور تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ مذکورہ ’’ٹپہ‘‘ میں آریا دور کے اس پھول کا ذکر کیا گیا ہے جس پھول کا نام ’’سوما‘‘ تھا اور اس کے رس کو آرین مختلف مشروبات میں استعمال کرتے تھے۔ دن کی روشنی میں اس کی کٹائی اس لیے نہیں ہوسکتی تھی کہ سورج کی تیز روشنی اس پھول میں موجود ’’شیرا‘‘ متاثر کرتی تھی۔

پختونوں کی زبان، ادب اور موسیقی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اب جہاں تک پشتو موسیقی یا ناچ گانے کا تعلق ہے تو اسے جاننے اور سمجھنے کے لیے اور اس سے کماحقہ لطف اندوز ہونے کے لیے محض پشتو زبان کا سمجھ لینا ہی کافی نہیں جب تک اس کے روزمرہ اور بولنے برتنے والوں کے اجتماعی مزاج، نفسیات اور کردار سے واقفیت حاصل نہ کی جائے اور جن مخصوص جغرافیائی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات میں اس زبان کا مزاج سمویا ہوا ہے، اس کا لب و لہجہ ڈھلتا ہے، اس کے بولنے والوں کی مخصوص ذہنیت اور طبیعت کی ساخت پرداخت ہوتی ہے جب تک یہ سب باتیں پوری طرح ذہین نشین نہ کرلی جائیں، پشتو ادب، موسیقی، ملی ناچ، اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں سے محظوظ ہونے کی تمام کوششیں بے سود رہیں گی۔

من حیث القوم پختون گانے بجانے کے اتنے ہی شوقین ہیں جتنی کوئی اور قوم، بلکہ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دل چسپی کے دیگر اسباب یہاں بہت کم ہیں پھر مذہبی اور دیگر روایتی پابندیوں کی وجہ سے پختونوں میں اوروں کی نسبت اس طرف کچھ زیادہ ہی شغف پایا جاتا ہے۔ شادی بیاہ، رسم، تہوار، میلہ کوئی موقع ایسا نہیں جہاں اس کے خوب چرچے نہ ہوتے ہوں۔ آج سے چند سال پہلے کوئی حجرہ بغیر رباب گھڑا، ڈھول، اور ستار کے مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔

پختونوں کی ساری معاشرتی زندگی گانے بجانے کے ان گنت مواقع سے بھری ہوئی ہے لیکن یہ تعلق سطحی ہے عمیق نہیں، رسمی ہے علمی نہیں، فن کے طور پر موسیقی کو شوقیہ طریقے سے برتنا دل بہلاوے کا ذریعہ سمجھ کر اس سے عملی دل چسپی لینا قدیم رواج کے مطابق اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا مگر اب زمانہ بدل گیا ہے اور اچھے اچھے معزز گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں نے موسیقی کو شوقیہ طریقے کے ساتھ ساتھ ایک روزگار کے طور پر بھی اپنایا ہے۔

پشتو موسیقی کی ان گنت شکلیں اور پہلو ہیں اور ان تمام قسموں اور پہلوؤں پر لکھنے کے لیے ایک مضمون نہیں بل کہ کئی کتابیں درکار ہیں یہاں صرف پختونوں کے ملی ناچ کی چند اقسام پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پختونوں میں ملی ناچ کب اور کیسے رواج پایا؟ اس سلسلے میں مؤرخین کسی ایک بات پر متفق نہیں۔ اگر ان کی نسلی تاریخ کے حوالے سے یہ بات مان لی جائے کہ پختون سامی النسل یا آرین ہیں جو وسطی ایشیا سے آئے ہیں تو ظاہر ہے کہ اپنے ساتھ وہاں کے ناچ گانے بھی لائے ہوں گے جہاں یہ قوم پہلے آباد تھی خواہ وہ مصر یا بابل ہوں یا وسط ایشیا ہو۔

جیسا کہ علی عباس جلالپوری اپنی کتاب ’’رسوم القوام‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’برصغیر کے لوک ناچ بڑے دل چسپ ہیں۔ ان میں مختلف موسموں اور جذبوں کی عکاسی کی جاتی ہے ہمارے ہاں بھنگڑا پنجاب اور خٹک ڈانس صوبہ خیبرپختون خوا کے معروف مردانہ ناچ ہیں، جو ازبکوں، کرغیزوں اور قزاقوں کے ناچوں سے ملتے جلتے ہیں۔‘‘ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ناچ کے ضمن میں پختونوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے کیوں کہ جتنے بھی چھوٹے بڑے قبیلے ہیں ہر ایک کا اپنا اپنا مخصوص ناچ ہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مثلاً وزیر محسود کا ناچ بیٹنی قبیلے کے ناچ سے بالکل مختلف ہے، خٹک اور بیٹنی قبائل ناچ میں بڑی تیزی کے ساتھ مڑتے ہوئے واپس آکر ایک ہی جگہ پر گھومتے ہیں۔

دوسری طرف وزیر اور محسود ناچ کے دوران صرف اپنا سر گھماتے اور تھرکتے ہیں، باقی وجود کو کوئی خاص تیز حرکت نہیں دیتے۔ اسی طرح مروت، یوسفزئی، خلیل، مومند، آفریدی اور اورکزئی قبیلے کے ناچ کے اپنے اپنے طور طریقے اور اصول ہیں، لیکن ان تمام ملی روایتی ناچوں میں سب سے زیادہ شہرت’’ خٹک ڈانس‘‘ کو حاصل ہے اور اس شہرت یا مقبولیت کے اپنے چند اسباب اور عوامل ہیں۔

اس ضمن میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ خٹک ڈانس کو پوری دنیا میں شہرت کے بام تک پہنچانے کا سہرا ان انگریز فوجی افسروں کے سر ہے جنہوں نے اپنی فوج میں بھرتی کیے ہوئے خٹک قبیلے کے نوجوانوں کو ناچتے ہوئے دیکھ کر ’’خٹک ڈانس‘‘ کی اصطلاح عام کردی چوں کہ خٹک ایک ایسے خطہ زمین پر آباد ہیں جہاں کھیتی باڑی کرنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ تجارت کے مراکز یعنی شہروں سے دور خشک و بے آب و گیاہ پہاڑی علاقے میں آباد ہونے کی وجہ سے خٹک قبیلہ کے اکثر نوجوان زمانہ قدیم سے فوج میں بھرتی ہوتے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ فوج میں اس قبیلے کی بڑی تعداد ہونے سے خٹک ناچ کو بھی زیادہ شہرت ملی۔ ویسے بھی خٹک قبیلہ ناچ گانے کا بہت زیادہ شوقین ہے۔ قبیلے کا ہر فرد جس وقت ڈھول کی تھاپ سنتا ہے چھوٹے بڑے دوڑ دوڑ کر اس تھاپ تک پہنچنا چاہتے ہیں اور صرف تھاپ سننے یا ڈھول دیکھنے پر اکتفا نہیں کرتے بل کہ ان کی تسکین تب ہوتی ہے جب وہ خود میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اس وجہ سے خٹک قبیلے کے متعلق طرح طرح کے قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں کہ ’’ڈھول کی آواز کہیں دور پہاڑ سے آتی ہے اور خٹک اپنے گھر میں ناچتا ہے‘‘ یا ’’خٹک ڈھول کی آواز سن کر بے خود اور بے قابو ہوجاتا ہے۔‘‘

خٹک قبیلے کے ملی ناچ، خٹک ڈانس کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ظاہر ہوجائے گا کہ یہ صرف تفریح طبع کے لیے نہیں بل کہ تاریخی پس منظر کے حوالے سے ایک مکمل عسکری تربیت ہے۔ خٹک نوجوان ایک دائرے میں کھڑے ہوجاتے ہیں، ہاتھوں میں تیز چمک دار تلواریں ہوتی ہیں، دائیں ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں ڈھال، کبھی کبھار ڈھال کی جگہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں ہوتی ہیں۔

اگر شام کے بعد کا وقت ہو تو دائرے کے بیچ میں جلنے والی آگ کے شعلوں کے نزدیک ڈھول بجانے والے اور ناچ میں حصہ لینے والے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جس وقت ڈھول بجانے والے ایک مخصوص تال میں ڈھول بجانا شروع کرتے ہیں، دائرے میں کھڑے نوجوان تلواروں کی چمک دکھا کر اپنی جگہ پر گھومنا شروع کردیتے ہیں اور میدان میں کود پڑتے ہیں۔ جوش و خروش کے عالم میں زور زور سے آوازیں لگانا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اس مخصوص حرکت کا آغاز آہستہ آہستہ ہوتا ہے لیکن اچانک ہاتھ اوپر ہو جاتے ہیں اور ڈھول کے سامنے ایک مخصوص لے و آہنگ کے ساتھ ناچنے والے کبھی آگے اور کبھی پیچھے چلنا شروع کردیتے ہیں۔ درمیان میں اپنی جگہ پر کبھی کبھار اٹھتے بیٹھتے بھی ہیں، آہستہ آہستہ ایک دائرے میں گھومنے کا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔

آگ یا شعلوں کے ساتھ قریب کھڑے ہوکر ڈھول بجانا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ قبیلے کو کہیں عسکری مسئلہ درپیش ہے۔ ڈھول کی آواز سن کر قبیلے کے نوجوان دوڑ دوڑ کر اپنی اپنی تلوار اور ڈھال ہاتھ میں لیے فوراً قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ناچنے والے گروپ کا سربراہ ہاتھ میں اپنی تلوار گھماتے ہوئے آگے آتا ہے، قطار میں کھڑے نوجوان بھی اس کے جواب میں اپنی تلواریں لہراتے ہیں اور آگے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ڈھول اپنے سُر تال میں بجتا ہے سربراہ (انسٹرکٹر) اپنی فوج پر نظر دوڑاتا ہے کہ لشکر اسلحہ سے لیس ہے یا نہیں اور جب وہ اپنا اطمینان کرلیتا ہے تو نیام سے اپنی تلوار نکال کر زوردار آواز لگاتا ہے۔ اس کے بعد ہاتھوں میں ڈھال اٹھائے ہوئے نوجوان تیزی سے دوڑ کر دائرے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ دوڑ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ لشکر اپنے دشمن پر حملہ کرنے کی غرض سے داخل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تلواریں چمکنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ڈھول کی تھاپ اور گیت کے بول ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں جو مقابلے اور جنگ کا ایک خطرناک مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔

ویسے تو ہر قبیلے کا اپنا اپنا روایتی ناچ ہے لیکن جتنی بے خودی یا خودفراموشی خٹک ناچ میں پائی جاتی ہے دیگر قبیلوں کے ناچ اس سے عاری ہیں۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ جہاں شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے موقع پر خٹک قبیلے کے افراد جمع ہو ں وہاں خٹک ناچ نہ ہو۔

پختونوں کا دوسرا سب سے قدیم اور مشہور ملی ناچ ’’اتھنڑ‘‘ (اتھن) ہے جو زمانہ حال کی ثقافتی اور تہذیبی یلغار اور تبدیلی کی وجہ سے معمولی ردوبدل کے ساتھ آج بھی خیبرپختون خوا، بلوچستان اور بالخصوص افغانستان میں پیش کیا جاتا ہے۔ اتھن میں بہت سے افراد مل کر ایک بڑے دائرے کی شکل میں ناچتے ہیں۔

ناچ کے لیے ڈھول کا خصوصی انتظام ہوتا ہے، کیوں کہ بغیر ڈھول کے ’’اتھن‘‘ نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ اتھن میں عموماً نوجوان طبقہ شامل ہوتا ہے مگر پختہ یا ادھیڑ عمر کے افراد بھی اپنے جذبات سے بے قابو ہوکر اتھن میں حصہ لیتے ہیں۔ اتھن درحقیقت ایک قسم کی جنگی مشق ہے۔ آج بھی اگر اتھن میں شامل افراد کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک قسم کی باقاعدہ اور منظم پریڈ اور اسلحہ چلانے بالخصوص شمشیرزنی کی مشق ہے۔

اس میں ہاتھ پاؤں، سر اور گردن کی تیزتیز حرکات، آگے جھکنا یا دائیں بائیں مڑنا اور ایسے ہی موقع بہ موقع ادھر ادھر آگے پیچھے کی جنبش، تیزی سے آگے بڑھنا اور پھر اسی تیزی سے پیچھے مڑنا جھپٹنا، لپکنا، بیٹھنا، پینترا بدلنا دراصل ’’لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ‘‘ کا منظر ہوتا ہے۔ اس طرح تیزی سے اٹھ کھڑے ہونا اور اپنی کلائیوں کو گھمانا، دشمن پر وار کرنے کی تربیت ہوتی ہے جو کہیں حملہ اور کہیں بچاؤ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ مختلف اوقات میں مختلف قسم کی زوردار اور گرج دار آوازیں بھی ایک ساتھ منہ سے نکالی جاتی ہیں جو عموماً دشمن پر حملہ کے وقت اپنی قوت کے اظہار اور دشمن کو مرعوب و خوف زدہ کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اتھن سے ایک تو جنگی صلاحیت و مہارت حاصل ہوتی ہے، دوسرا نوجوانوں کو چاق و چوبند رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ فرصت کے اوقات میں نوجوان اپنے گھروں، حجروں، اور کھیتوں کھلیانوں سے نکل آتے ہیں اور اتھن کے ذریعے کھیل اور تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ورزش، پریڈ اور جنگی مشق بھی کر لیتے ہیں۔

بعض قبائل آج بھی ہاتھ میں تلوار لیے اتھن کیا کرتے ہیں کہیں کہیں تلوار کی جگہ لمبی لمبی چھریاں یا پیش قبض بھی ہاتھ میں اٹھا کر ناچ میں حصہ لیا جاتا ہے۔ خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر جو اتھن پیش کیا جاتا ہے اس میں نوجوان ہاتھ میں تلوار، لکڑی کا ٹکڑا یا ہاتھ میں رومال ضرور لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ خالی ہاتھ اتھن ناچنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے جس میں شریک نوجوان دائرے کی شکل میں گھومتے وقت ایک ساتھ جُھک کر تالی بجاتے ہیں۔ اتھن کی اس قسم کو پشتو میں ’’دطالبانوا تنڑ‘‘ ( طالب علموں کا اتھن) کہا جاتا ہے جو آج سے کئی سال پہلے خیبرپختون خوا کے اکثر علاقوں میں نوجوان طالب علم جو سفید کپڑوں میں ملبوس ٹولیوں کی شکل میں دینی علم کے حصول کی خاطر گاؤں گاؤں پھرتے رہتے تھے، کبھی کبھار تفریح طبع کی خاطر ملک کر ’’اتھن‘‘ ناچتے تھے۔

یہاں تک کہ مسجد کے صحن میں بھی ’’اتھن‘‘ کیا کرتے تھے، مگر ڈھول ڈھماکے کے بغیر۔ ان میں دو چار طالب علم اتھن کے مخصوص اشعار خوش آوازی سے گاتے اور باقی کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے اور منہ سے باقاعدہ ڈھول اور رباب کی آوازیں نکالتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گول دائرے کی شکل میں ناچتے تھے۔ یہ ناچ بھی قریب قریب عام ’’اتھن‘‘ کا سا ہی ہوتا تھا مگر خصوصی طور پر طالب علموں کا ناچ (د طالبانو اتھنڑ) کہلاتا ہے۔ آج بھی افغانستان کے بعض دوردراز علاقوں میں ’’طالبان اتھن‘‘ کا رواج موجود ہے۔

اس طرح گھروں میں عورتوں کی ملی ’’اتھن‘‘ بھی کسی زمانے میں بہت مشہور تھا جب کہ آج خال خال ناچا جاتا ہے۔ عورتوں کا اتھن گھر کے اندر ہوتا ہے جس میں ہر عمر کی لڑکیاں، عورتیں سب ایک جگہ جمع ہوکر حصہ لیتی ہیں۔ ان میں ڈھول بجانے والی کوئی ماہر عورت ڈھول کی آواز کے ساتھ ’’اتھن‘‘ کے چند مخصوص بول بھی بولتی ہے۔ آہستہ آہستہ گول دائرے کی شکل میں عورتیں جمع ہو کر ناچنا شروع کردیتی ہیں۔ گیت گانے کے علاوہ اتھن کے دوران دونوں تالیاں بھی بجاتی ہیں۔ اس اتھن کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ دوشیزہ اس اتھن کے لیے اپنی زلفوں پر خوب تیل، ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی لگا کر آبلہ پا ’’اتھن‘‘ میں حصہ لیتی ہے۔ اس موقع پر عورتیں خاص قسم کے بول بولتی ہیں۔ پہلے زمانے میں اس قسم کے ’’اتھن‘‘ میں مخصوص بول بولنے والی دو فن کارائیں بہت زیادہ مشہور تھیں جن میں ایک کا نام گل اندامہ اور دوسری فن کارہ کا نام حسن جمالہ تھا اور دونوں کا تعلق وزیر قبیلے سے تھا۔

پاوندے جو افغانستان کا ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے جس کا تعلق سلیمان خیل قبیلے سے ہے اورغلزئی (پشتو میں غلجئی ) کہلاتے ہیں۔ عرف عام میں وہ ’’کوچی‘‘یا ’’کوچیان‘‘ کے نام سے بھی جانے اور پکارے جاتے ہیں۔ ہر سال جب موسم سرما میں ان کے ہاں برف باری اور کڑاکے کی سردی شروع ہوجاتی ہے تو وہ پاکستان کا رخ کرلیتے ہیں اور پورا موسم سرما پاکستان میں گزار کر گرمی آتے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ان کی مادری زبان پشتو ہے لیکن ان کا لہجہ دیگر پشتو بولنے والوں کے مقابلے میں معمولی سا کرخت اور مختلف ہے۔ اس قبیلے کے اپنے مخصوص لوک گیت ہیں۔ بعض شادی بیاہ کی رسمیں بھی منفرد اور بڑی دل چسپ ہیں۔ ان کے المیہ یا ماتمی گیت بڑے موثر اور دردناک ہوتے ہیں، مثلًا:

(ترجمہ) اپنا خوب صورت جھالروں والا رومال لے لو

اے رومال والے (دولہا) کی ماں

یہ تیرا رومال سدا بہار رہے

گیت کے یہ بول منگنی کے موقع پر لڑکے کی رشتہ دار خواتین اس وقت بار بار گاتی ہیں جب وہ ایک بڑے تھال میں شیرینی لے کر لڑکے کی منگیتر کے گھر جاتی ہیں۔ یہ تھال ایک خوب صورت رومال سے ڈھکا ہوتا ہے۔ لڑکی کے ہاں پہنچ کر تھال فرش پر رکھ دیتی ہیں اور لڑکے کی ماں بہنیں اور دوسری رشتے دار عورتوں کو حلقے میں لے کر ترنم کے ساتھ مختلف گیت گاتی ہیں۔ ان پاوندوں (خانہ بدوش) کا ’’اتھن‘‘ بھی بہت مشہور ہے جس میں مرد الگ اور عورتیں الگ ناچتی ہیں۔ اتھن شروع کرتے وقت ڈھول کی تھاپ پر پہلے دایاں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے آگے قدم بڑھاتے ہیں، پھر بایاں ہاتھ اوپر کرکے چند قدم پیچھے آتے ہیں۔ عورتوں کے اتھن میں ڈوم (میراثی) نہیں ہوتا۔ پتنوس (مجمہ) دیگچی، کیتلی یا تانبے کی بنی ہوئی پلیٹ بجائی جاتی ہے۔ مرد بندوق ہاتھ میں اٹھائے ریشم کی قیمص پہن کر اتھن کرتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کی اتھن جنوبی وزیرستان اور افغانستان سرحد پر ’’کنڈی غر‘‘ وغیرہ سے لے کر زابل، پکتیا، ننگرہار، بلخ قندوز اور جوزجان تک آج بھی رائج ہے۔

The post مشہور، تاریخی اور روایتی پختون رقص appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2MJfB92

رحیم یارخان میں 14 سالہ لڑکے سے دو سگے بھائیوں کی اجتماعی زیادتی

رحیم یار خان:  اوباش بھائیوں نے 14 سالہ لڑکے کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل...