وزیراعظم کو فون کرنے والی بیوہ خاتون کو انصاف مل گیا

سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے عائشہ کو انصاف فراہم کر دیا۔

گزشتہ روز بیوہ خاتون عائشہ نے آپ کا وزیر اعظم، آپ کے ساتھ پروگرام میں کال کی تھی اور گھر پر قبضے کی شکایت کی تھی۔ لاہور پولیس نے ڈیفنس میں بیوہ خاتون کے گھر پہلے ہی واگزار کروا دیا تھا تاہم کرایہ دار عمران اصغر بقیہ واجبات نہیں کررہا تھا۔

سی سی پی او غلام محمود ڈوگر نے عائشہ بی بی کے بقایا جات چار لاکھ 72 ہزار روپے بھی واپس دلوا دیے۔ عائشہ بی بی نے کہا کہ بقایا جات دلوانے پر وزیراعظم عمران خان، آئی جی پنجاب اور لاہور پولیس کی مشکور ہوں۔

The post وزیراعظم کو فون کرنے والی بیوہ خاتون کو انصاف مل گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2R5pMHE

ایم کیو ایم کی سندھ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع

کراچی: ایم کیو ایم کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں سندھ حکومت کے خلاف رکشوں اور گاڑیوں پر بینرز آویزاں کردئیے گئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی سمیت شہری سندھ کے ساتھ زیادتیوں پر ایم کیو ایم پاکستان نے احتجاجی تحریک کے لیے حکمت عملی مرتب کرلی ہے، جس کے تحت  پہلے مرحلے میں کراچی سمیت اندرون سندھ زیادتیوں کے خلاف احتجاجی بینرز اور آگاہی مہم چلائی جائے گی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: ایم کیو ایم کا سندھ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ

ایم کیو ایم کی جانب سے آج سے احتجاجی تحریک کا باضابطہ آغاز کردیا گیا ہے،اور پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ حکومت کے فیصلوں اور زیادتیوں کے خلاف کراچی کے مختلف علاقوں کے چوکوں اور چوراہوں پر احتجاجی بینرز آویزاں کردیئے گئے ہیں، جب کہ رکشوں، ٹیکسیوں اور مسافر گاڑیوں پر بھی بینرز آویزاں کئے گئے ہیں۔

ایم کیو ایم کے احتجاجی بینرز میں کراچی کے وسائل پر قبضہ ، کراچی پر ڈاکو راج نامنظور کے نعرے درج کئے گئے ہیں، اور جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں، کرپٹ اور غیر مقامی پولیس کی بے دخلی اور کراچی کو اس کے حصے کا پانی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوسرے حصے میں ریلیاں، مظاہرے اور وزیراعلی ہاؤس کا گھیراؤ بھی شامل ہے۔

The post ایم کیو ایم کی سندھ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3vBNF8J

ارسا نے سندھ اور پنجاب کو فراہم کیے جانیوالے پانی میں اضافہ کردیا

 اسلام آباد: انڈس ریورسسٹم اتھارٹی نے سندھ اور پنجاب کے پانی میں اضافہ کردیا۔

اسلام آباد میں پانی کے مسئلے پر ارسا کا اجلاس ہوا جس میں پانی کی دستیابی کا جائزہ لیا گیا۔ حکام نے بتایا کہ دریاؤں میں پانی کی آمد 24 فی صد بڑھ گئی ہے، 28 مئی کو پانی کی آمد ایک لاکھ 72 ہزار تھی جو 31 مئی کو بڑھ کر 2 لاکھ 25 ہزار ہوگئی۔ ملک میں پانی کی کمی 32 فی صد سے کم ہو کر 18 فی صد رہ گئی۔

اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ارسا نے صوبوں کے حصے میں اضافہ کر دیا۔ پنجاب کے حصے میں 18 ہزار کیوسک کا اضافہ کرتے ہوئے اس کے حصے کو 83 ہزار کیوسک سے بڑھا کر ایک لاکھ ایک ہزار کیوسک کر دیا گیا۔

اسی طرح سندھ کے حصے میں 35 ہزار کیوسک کا اضافہ کرتے ہوئے سندھ کا حصہ 74 ہزار کیوسک سے بڑھا کر ایک لاکھ 9 ہزار کیوسک کر دیا گیا۔ ارسا کے مطابق شمالی علاقہ جات میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ چشمہ کے مقام پر ارسا کے اچھے انتظام کی وجہ سے گزشتہ دنوں ميں پانی کی کمی 8 ہزار کیوسک تک محدود رہی۔

یہ بھی پڑھیں: ارسا کا پنجاب اور سندھ کوفراہم کیے جانیوالے پانی میں مزید کمی کا فیصلہ

ترجمان ارسا محمّد خالد ادریس رانا نے کہا ارسا صوبوں کو یقین دلاتی ہے کہ ارسا میں تمام صوبے ایک اکائی کی طرح موجود ہیں اور وہ سب مل کر پانی کے معاہدے 1991ء کے مطابق پورے انصاف کے ساتھ پانی کی تقسیم کر رہے ہیں۔

ارسا نے صوبوں سے گزارش کی کہ پانی کے استعمال کے طریقے کار کو جدید طریقوں پر استوار کریں تا کہ پانی کے ضیاع کو کم سے کم کیا جا سکے۔

The post ارسا نے سندھ اور پنجاب کو فراہم کیے جانیوالے پانی میں اضافہ کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3vCIENn

چترال میں مسافر گاڑی دریا میں گرنے سے 9 افراد جاں بحق

چترال: اوناوچ میں پل عبور کرتے ہوئے مسافر ٹویوٹا گاڑی دریا میں جاگری، جس کے نتیجے میں 9 افراد جاں بحق اور 2 افراد معجزانہ طور پر بچ گئے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق لوئر چترال شہر سے یارخون جانے والی ٹویوٹا گاڑی اوناوچ میں پل عبور کرتے ہوئے دریا میں جاگری، جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار 11 افراد ڈوب گئے، جن میں سے 9 افراد جاں بحق اور دو افراد معجزانہ طور پر بچ نکلے۔

ریسکیو حکام نے بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں پہنچ گئیں اور آپریشن میں حصہ لیا، آپریشن کے دوران حادثے کا شکار گاڑی اور دیدار الدین، سلطان خان اور اعجاز ولی نامی افراد کی لاشیں نکال لی گئیں، جب کہ افتاج نامی شخص کی لاش پاور یار خون کے مقام پر مقامی لوگوں نے نکال کر آبائی گاؤں منتقل کردی۔

ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ دریا میں لاپتہ ہونے 9 افراد میں سے 4 لاشیں نکال لی گئی ہیں، جب کہ 5 افراد لاپتہ ہیں، حادثے میں بچ جانے والے افراد کے مطابق لاپتہ افراد میں اسرار احمد، ڈرائیور مغل خان، امید نبی اور دو خواتین شامل ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔

The post چترال میں مسافر گاڑی دریا میں گرنے سے 9 افراد جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3wHSmhy

قصور میں 12 سالہ یتیم بچی سے اجتماعی زیادتی

قصور: منڈی عثمانوالہ میں چار افراد نے مزدوری کے بہانے بلا کر 12 سالہ یتیم بچی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنادیا۔

پولیس نے بتایا کہ بچی کھیتوں میں مزدوری کرکے ماں و دیگر کا پیٹ پالتی ہے، زیادتی کا شکار بچی کا والد فوت ہوچکا ہے،والدہ بھی ذہنی معذور ہے۔

ڈی پی اوعمران کشور نے بتایا کہ ملزمان علی رضا، ذوالفقار اور عثمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتارکرلیا، ملزم رضا بچی کو مزدوری کے بہانے کھیتوں میں لے گیا جہاں پہلے سے موجود دوستوں کے ساتھ مل کر زیادتی کی۔

ملزمان زیادتی کے بعد فرار ہوئے، جیو فینسنگ سمیت جدید طریقے سے گرفتاری عمل میں آئی۔ ملزمان سیاسی طور پر راضی نامہ کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

The post قصور میں 12 سالہ یتیم بچی سے اجتماعی زیادتی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3fUzF3v

تمام ماحولیاتی نمونہ جات منفی آنے کے بعد لاہور شہر پولیو فری قرار

لاہور: پولیو کے تمام ماحولیاتی نمونہ جات منفی آنے کے بعد لاہور کو پولیو فری قرار دے دیا گیا۔  

ایکسپریس نیوزکے مطابق لاہور کے شہریوں کے لئے بڑی خوشخبری ہے کہ پولیو کے تمام ماحولیاتی نمونہ جات نیگٹو آ گئے ہیں، اور شہر کو پولیو فری قرار دے دیا ہے۔  اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر لاہور مدثر ریاض نے بتایا کہ کہ اس ماہ کے پولیو کے تمام ماحولیاتی نمونہ جات منفی آئے ہیں، اس سے قبل بھی بھیجے گئے ماحولیاتی نمونہ جات نیگٹو آئے تھے، ماحولیاتی نمونہ جات کا نیگٹو ہونا پولیو مہم کی ایک بہت بڑی کامیابی کی طرف اشارہ ہے۔

مدثر ریاض نے بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے لاہور میں پولیو کے ماحولیاتی نمونہ جات مثبت آرہے تھے، لیکن گزشتہ چار ماہ کے دورانیہ میں پولیو کے تمام تر ماحولیاتی نمونہ جات نیگٹو آئے ہیں، یہ لاہور کے شہریوں کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ لاہور شہر پولیو سے پاک ہے۔

ڈی سی لاہور نے کہا کہ شہر کو پولیو سے پاک کرنے کے عزم کو برقرار رکھنا ہے، عوام کو پولیو ورکرز ٹیموں کے ساتھ تعاون کو یقینی بنانا ہوگا، ہم نے آئندہ بھی پولیو مہم کو اسی لگن اور ایمانداری کے ساتھ جاری رکھنا ہے۔

The post تمام ماحولیاتی نمونہ جات منفی آنے کے بعد لاہور شہر پولیو فری قرار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3vwBEBz

حکمران ’سب اچھا ہے‘ کی بے حسی کی رپورٹ دے رہے ہیں، شہبازشریف

 لاہور: اپوزیشن لیڈرشہبازشریف کا کہنا ہے کہ حکمران ’سب اچھا ہے‘ کی بے حسی کی رپورٹ دے رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدراورقائد حزب اختلاف شہبازشریف نے بیان میں کہا کہ حکمرانوں کو معیشت اور عوام کی تکالیف کا کوئی علم ہے، عوام بھوکے اور بے روزگار ہیں، حکمران سب اچھا ہے کی بے حسی کی رپورٹ دے رہے ہیں ۔ عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، عوام کو آٹا، گندم، چینی، سبزیاں، خوردنی تیل، مرغی، دودھ، انڈے، ادویات اوردیگراشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے۔

شہبازشریف نے کہا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہرہوچکی ہیں، حکمرانوں کے روز کرپشن سکینڈلز آئیں گے تو عوام کی روٹی روزانہ مہنگی ہی ہوگی ، آٹے کی قیمت میں 57 روپے فی کلو اضافہ ہوا ، یہ 73 فیصد اضافہ ہے، چینی کی قیمت 120 اور 130 تک گئی ہے،  100روپے یا 85 فیصد اضافہ چینی کی قیمتوں میں ہوا، دودھ کی قیمت میں 31 فیصد اضافہ ہوا، دودھ فی لٹر 108 روپے یا اس سے زائد قیمت پر فروخت ہورہا ہے۔

شہبازشریف نے کہا کہ عوام کی بنیادی ضرورت کی یہ اشیاء انتہائی مہنگے داموں فروخت ہورہی ہیں، اضافی گندم پیدا کرنے والے ملک میں آٹے کی فراہمی کو جو حکومت یقینی نہ بناسکے، اس کی کرپشن اور نااہلی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے؟۔

The post حکمران ’سب اچھا ہے‘ کی بے حسی کی رپورٹ دے رہے ہیں، شہبازشریف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3i6CXDw

ہم وہ کام کررہے ہیں جو 50 سال پہلے کرنے چاہیئے تھے، وزیراعظم

 اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کہنا ہے کہ مستقبل کیلئے طویل المدتی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے، آج ہمیں وہ کام کرنے پڑ رہے ہیں جو 50 سال پہلے کرنے چاہئے تھے۔

اسلام آباد میں گرین یورو کی اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 1968 میں پاکستان کی معیشت بہترین تھی، جب ہم بڑے ہو رہے تھے ملک تیزی سےترقی کر رہا تھا، بھارت میں کھیل کر واپس آکر لگتا تھا کسی غریب ملک سے امیر ملک میں آگیا ہوں، لیکن بدقسمتی سے ماضی میں ملک میں طویل المدتی منصوبہ بندی میں کمی تھی، طویل المدتی منصوبے نہ ہونے کے باعث بھارت ہم سے آگے نکل گیا، اور پچھلے 30 سال میں بنگلادیش بھی ہم سے آگے ہوچکا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم منصوبے شروع کردیتےہیں، عمل سست روی کا شکار ہو جاتا ہے، مستقبل کیلئے طویل المدتی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے، آج ہمیں وہ کام کرنے پڑ رہے ہیں جو 50 سال پہلے کرنے چاہئیں تھے، آئندہ 10 سال میں ماحول دوست بجلی کی پیداوار کے لئے10 ڈیم بنا رہے ہیں، بھاشا اورمہمند ڈیم سے متعلق کام کی تیزی پرخوشی ہوئی۔

عمران خان نے بتایا کہ ہم ملک میں ہرشہری کو ہیلتھ کارڈ فراہم کررہے ہیں، ہیلتھ کارڈ کے ذریعے کہیں سے بھی علاج کرایا جا سکتا ہے، یہ صرف ہیلتھ کارڈ نہیں پورا ہیلتھ سسٹم ہے،  ہمارے شہر آلودہ ہوچکے ہیں،اور لاہور اس کی زندہ مثال ہے، 2018 سےاب تک ایک ارب درخت لگائے ہیں، اب 2023 تک 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے، نئے شہر بنانے سے ملکی دولت میں اضافہ ہوگا، صنعتیں بحال ہوں گی، آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل میں کمی ہورہی ہے، آبادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم وسائل بڑھانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں ، پہلی بار ملک میں یکساں نظام تعلیم لارہے ہیں، زراعت میں ریکارڈ ترقی ہوئی ہے۔

The post ہم وہ کام کررہے ہیں جو 50 سال پہلے کرنے چاہیئے تھے، وزیراعظم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/34vWi8S

حکومت کا 18 سال سے زائد افراد کی ویکسینیشن کا فیصلہ

 اسلام آباد: 3جون سے 18سال سے زائد عمر کے افراد کی رجسٹریشن کا آغاز ہوگا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں  وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ این سی اوسی اجلاس میں جمعرات 3جون سے 18سال سے زائد عمر کے افراد کی ویکیسینیشن کے لئے رجسٹریشن کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ  اس اقدام سے ویکسین لگوانے کے تمام اہل افراد کی ویکسینیشن کا عمل شروع ہوجائے گا، ویکسین لگوانے کے لئے عوا، خود کو جلداز جلدرجسٹرڈ کروائیں۔

The post حکومت کا 18 سال سے زائد افراد کی ویکسینیشن کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/34L9w21

نیب نے سابق ایس پی پنجاب پولیس کے خلاف کرپشن ریفرنس دائر کردیا

 اسلام آباد: نیب راولپنڈی نے سابق ایس پی پنجاب پولیس سید حسیب کے خلاف کرپشن ریفرنس دائر کردیا۔

نیب راولپنڈی نے سابق ایس پی سید حسیب کے خلاف کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق ریفرنس احتساب عدالت راولپنڈی میں جمع کروایا۔ سابق ایس پی کے خلاف کرپشن میں ملوث ہونے کی درخواست پریزیڈنٹ سیکرٹریٹ سے نیب کو موصول ہوئی تھی، جس پر ڈی جی نیب راولپنڈی نے ملزم کے خلاف 3 مئی دوہزار اٹھارہ کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔

سابق ایس پی نے 1978 میں پنجاب پولیس بطور اے ایس آئی جوائن کی، 2002 میں ڈی ایس پی اور 2010 کو ایس پی کے عہدے پر فائز ہوئے، بطور پولیس آفسر ملزم حسیب حسین کی مکمل تنخواہ 92 لاکھ بنتی ہے، لیکن ملزم کی جائیداد آمدن سے کئی گناہ زیادہ ہے۔

دوران پولیس سروس سابق ایس پی سید حسیب نے 14 مختلف مقامات پر جائیدادیں بنائیں، جن میں سے 12 جائیدادیں غیرقانونی آمدن سے بنائی گئی، نیب نے ریفرنس آمدن سے زائد اثاثوں کی بنیاد پر دائز کیا جس میں 13 کروڑ رقم ملوث ہے، نیب راولپنڈی نے معزز عدالت سے درخواست کی ہے کہ ملزم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

The post نیب نے سابق ایس پی پنجاب پولیس کے خلاف کرپشن ریفرنس دائر کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3i50t3v

لاہور میں بیوی نے شوہر کو جلادیا

 لاہور: چوہنگ کے علاقے میں خاتون نے آشنا اور دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر اپنے شوہر پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔

پولیس کے مطابق خاتون نسیم بی بی نے مرتضی اور ندیم وغیرہ سے مل کر شوہر ارشد پر پٹرول چھڑک کر آگ لگائی جس سے وہ بری طرح جھلس گیا۔ ارشد کو تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے ۔

شوہر ارشد نے الزام لگایا ہے کہ ملزمہ نسیم بی بی کے مرتضی سے مبینہ تعلقات تھے، میں نے اسے منع کیا تو بیوی نے آشنا اور ساتھی ندیم وغیرہ سے مل کر مجھے آگ لگا دی۔ پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

The post لاہور میں بیوی نے شوہر کو جلادیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2R90WH2

خیبرپختون خوا کابینہ سے ایک اضافی وزیر نکالنے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے کابینہ سے ایک اضافی وزیر کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق  آئینی حد سے زیادہ وزراء لینے پر خیبرپختونخوا حکومت نے کابینہ سے ایک وزیر کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، صوبائی حکومت نے کابینہ میں آئینی حد 16 کی بجائے 17 وزیر شامل کیے تھے، جب کہ محکمہ قانون اور ایڈوکیٹ جنرل نے اپوزیشن اٹھائے گئے اعتراض کو درست قرار دیے دیا ہے۔

حکومتی زرائع کا کہنا ہے کہ آئینی قدغن پر ایک وزیر کو ڈی نوٹیفائی کرکے مشیر بنایا جائے گا۔ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایڈوکیٹ جنرل آج اسمبلی میں آئینی نکتے کی وضاحت کریں گے، جو رائے بھی آئی حکومت آئین و قانون کے تحت فیصلہ کرے گی۔

 

The post خیبرپختون خوا کابینہ سے ایک اضافی وزیر نکالنے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3uA3YSl

کورونا کیسز میں کمی؛ اسلام آباد میں تفریحی پارکس ایس اوپیز کے تحت کھول دیئے گئے

 اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح میں نمایاں کمی کے بعد واٹر پارکس ،سوئمنگ پولز اورتفریحی پارکس کو ایس او پیز کے تحت کھول دیئے گئے۔

اسلام آباد میں کورونا کے مثبت کیسز کی کمی کے بعد واٹر پارکس ،سوئمنگ پولز اور تفریحی پارکس ایس او پیز کے تحت کھول دیئے گئے۔ اس حوالے سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ کورونا ایس او پیز کے تحت کھولے گئے سوئمنگ پولز کے اندر باقاعدگی سے کلورینیشن کو یقینی بنانا لازمی ہوگا، تفریحی پارکس کے داخلی اور خارجی راستوں پر سماجی فاصلے کو یقینی بنانا لازمی ہوگا، ان مقامات میں انڈور ڈائننگ کی اجازت نہیں ہوگی۔ واٹر پارکس ، سوئمنگ پولز اور تفریحی پارکس لاک ڈاؤن کے ایام ہفتہ اوراتوار کو دودن کے لئے بدستور بند رہیں گے۔

The post کورونا کیسز میں کمی؛ اسلام آباد میں تفریحی پارکس ایس اوپیز کے تحت کھول دیئے گئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3wLy72m

تربوزوں میں چھپائی گئی 20 کلو چرس برآمد

 لاہور: اینٹی نارکوٹکس فورس پنجاب نے مختلف علاقوں میں کاروائیاں کرتے ہوئے اندرون و بیرون ملک منشیات اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنادی۔

اے این ایف نے مختلف علاقوں میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے لاکھوں روپے مالیت کی منشیات برآمد کرلی۔ اور ملزمان محمد اکمل اور سبطین کو حراست میں لے لیا جو سرگودھا کے رہائشی ہیں۔

چشمہ بیراج میانوالی کے قریب کارروائی کرتے ہوئے کوئٹہ سے سرگودھا جانے والی بس کے مسافر سے تقریبا 20 کلو گرام چرس برآمد کی گئی۔ منشیات کو بڑی مہارت کے ساتھ تربوزوں کے اندر چھپایا گیا تھا۔

دوسری کارروائی میں سیالکوٹ DHL پوسٹ آفس کے ایک مشتبہ پارسل میں سے تقریبا 270 گرام اور دوسرے پارسل میں سے تقریبا 400 گرام ہیروٸن برآمد کی گئی۔

پارسل سیالکوٹ کے رہائشی نعمت علی عاصم کی جانب سے آسٹریلیا میں آدم کرک کے لیے بک کیا گیا تھا۔ منشیات کو دستانوں میں چھپایا گیا تھا۔

The post تربوزوں میں چھپائی گئی 20 کلو چرس برآمد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3i5p3l6

شہباز شریف اور بلاول کے آئی ایم ایف پر بیان حیرت انگیز ہے، فوادچوہدری

 اسلام آباد: شہباز شریف اور بلاول کے آئی ایم ایف پر بیان حیرت انگیز ہے، شرمندگی سے بچنے کے لئے بات سے پہلے اپنے ریکارڈ دیکھ لیا کریں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے آئی ایم ایف پر بیانات حیرت انگیز ہیں، پاکستان آج تک آئی ایم ایف سے 13 ارب 79 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا، جس میں سے پیپلزپارٹی نے 47 فیصد اور مسلم لیگ (ن) نے 35 فیصد قرضے لئے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کی جانب سے لئے گئے مجموعی قرضے میں سے تمام حکومتوں نے مل کر 18 فیصد اور پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے 82 فیصد قرضے لئے، میرا مشورہ ہے کہ بلاول بھٹو اور شہبازشریف بات کرنے سے پہلے اپنے ریکارڈ دیکھ لیا کریں تا کہ شرمندگی سے بچ سکیں۔

The post شہباز شریف اور بلاول کے آئی ایم ایف پر بیان حیرت انگیز ہے، فوادچوہدری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3i41lpa

بزرگ شہری نے جیو میٹری کے اصول پر قرآن مجید کا نسخہ تیار کر لیا

 کراچی: کراچی کے رہائشی 85 سالہ بزرگ شہری مشتاق احمد نے اپنی زندگی کے 26 سال قرآن مجید کو ہاتھ سے ایک نیا انداز دینے پر صرف کردیے۔

انھوں نے دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد نسخہ تحریر کیا جو کسی زبان کے رسم الخط کے بجائے جیومیٹری کے اصولوں پر مبنی ہے، مشتاق احمد نے یہ تخلیقی کام 14روپے کے ابتدائی خرچ سے شروع کیا اور 26 سال کے دوران اس قرآن مجید کو ہاتھ سے جیومیٹری خط میں لکھنے پر 30لاکھ روپے کی لاگت آئی مشتاق احمد اور ان کے بچے دنیا میں اپنی نوعیت کے اس منفرد قلمی نسخے کو مدینہ منورہ میں رکھوانے کے خواہش مند ہیں تاکہ دنیا میں قرآن سے پاکستانیوں کی محبت اور صلاحیت کو عالم اسلام تک پہنچایا جاسکے۔

مشتاق احمد نے لگ بھگ 60 سال کی عمر میں اس کام کا بیڑہ اٹھایا وہ اس وقت عمر کے اس حصے میں داخل ہوچکے تھے جب زندگی بھر کی محنت مشقت کے بعد عموماً لوگ ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کرتے ہیں اور مشکل کاموں کے بجائے آرام سے زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں، مشاق احمد کورنگی کے رہائشی ہیں اور 2 بیٹوں پر مشتمل گھرانے کے سربراہ ہیں۔

مشتاق احمد نے محنت مزدوری کرکے اس کام کا آغاز کیا، ہاتھ سے جیومیٹری اشکال میں قرآن کریم تحریر کرنے کی ابتدا کے بارے میں مشتاق احمد بتاتے ہیں کہ جس وقت انھوں نے یہ کام شروع کیا اس وقت رنگ اور پینسل کاغذ سستا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز مہنگی ہوتی چلی گئی، ان کی گھریلو ذمہ داریاں بھی بہت تھیں ایسے میں ان کے بچوں نے تمام خرچہ اپنے ذمہ لیا اور انھیں اس بات کی فکر نہ رہی کہ جس کام کا بیڑہ انھوں نے اٹھایا وہ کیسے مکمل ہوگا۔

منفرد قرآن مجید کو مدینہ کی لائبریری میں رکھوائیں گے

مشتاق احمد اور ان کے بیٹے اس منفرد قرآن کریم کو مدینہ منورہ میں رکھوانے کے خواہش مند ہیں، مشتاق احمد کے بیٹوں کی خواہش ہے کہ اس قرآن مجید کو وہ مدینہ منورہ کی لائبریری میں رکھوانا چاہتے ہیں ان کے والد کی خواہش ہے کہ ان کے کام کو عالم اسلام میں پاکستانیوں کی صلاحیت اور قرآن سے محبت کی علامت کے طور پر سامنے لایا جائے، مشتاق احمد او ران کے بیٹے کہتے ہیں کہ اگر اس قرآن مجید کو مدینہ منورہ میں نہ رکھا جاسکے تو پھر اسے ترکی کے کسی میوزیم یا پھر بحریہ ٹائون کراچی میں بننے والی دنیا کی تیسری بڑی مسجد میں رکھا جائے، مشتاق احمد نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ ان کی اس محنت کو مدینہ منورہ میں رکھوانے کے لیے ان کی مدد کی جائے یا پھر پاکستان میں خصوصی طور پر کوئی عمارت وقف کی جائے جہاں اس عظیم فن پارے کو عوامی نمائش کے لیے رکھا جاسکے۔

قرآن پاک کی برکت سے والد کی کم ہوتی ہوئی بینائی بحال ہوگئی
مشتاق احمد کے بیٹوں نے بتایا کہ جب مشتاق احمد پنسل اور اسکیل لے کر قرآن مجید کی آیات کاغذ پر تحریر کرتے تو ان کے چہرے پر ایک خوشی اور طمانیت دیکھتے تھے قرآن پاک کی برکت سے ان کے والد کی بینائی جو کم ہوگئی تھی وہ بحال ہوگئی اور انھیں نظر کا چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی، مشتاق احمد کے بیٹوں نے کہا کہ وہ اپنے والد سے کہتے تھے کہ کچھ دیر آرام کرلیں بعد میں مکمل کرلیں لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میں اسے مکمل کرنا چاہتا ہوں اور اللہ نے انھیں اتنی ہمت دی کہ انھوں نے یہ منفرد قرآن پاک مکمل کرلیا۔

مشتاق کے بیٹوں محمد علی اوررضوان نے ہرطرح سے مدد کی

مشتاق احمد کے دو بیٹوں محمد علی اور رضوان نے ان کی مدد کی، مشتاق احمد عمر گزرنے کے ساتھ تحریر کو رنگوں سے مزین نہ کرسکے یہ کام ان کے بیٹوں نے انجام دیا اور پاروں کی جلد کرانے میں بھی مدد کی، محمد علی اور رضوان نے والد کے مشن کو مکمل کرنے کے لیے مالی اخراجات بھی اپنے ذمہ لیے۔ مشتاق احمد کے بیٹوں کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے بزرگی کے باوجود مستقل مزاجی کے ساتھ یہ منفرد قرآّن مجید مرتب کیا جس وقت انھوں نے یہ کام شروع کیا اس وقت ان کے اتنے وسائل نہ تھے، مہنگائی کی وجہ سے اخراجات بڑھتے رہے لیکن والد نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ اس کام کو روک دیا جائے۔

دنیا کا منفرد ترین قرآن مجید 70 جلدوں پر مشتمل ہے

مشتاق احمد کے تحریر کردہ دنیا کے اس منفرد قرآن مجید کا مکمل وزن 20 سے 21 من ہے دنیا کا شاید ہی کوئی انسان ہوگا جو اتنا وزن اٹھاسکے، قرآن مجید کی جلد کا سائز 25×32 انچ ہے اس ہاتھ سے تحریر شدہ مفنرد قرآن مجید کے ایک پارے کی 2 جلدیں ہیں کچھ پاروں کی 3 جلدیں بھی ہیں۔

نصف پارے کا وزن 12سے 13کلو ہے اس لحاظ سے ایک پارے کا وزن 24 کلو تک بنتا ہے، مکمل قرآن مجید 70 جلدوں پر مشتمل ہے دنیا میں اپنی نوعیت کے اس منفرد قرآن پاک کے ایک پارے پر 80ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی لاگت آئی جبکہ پورا قرآن مجید تحریر کرنے پر 30 لاکھ روپے سے زائد کی لاگت آچکی ہے جو زیادہ تر واٹرکلر، کاغذ پر خرچ کی گئی۔ مشتاق احمد کے تحریر کردہ ہر کاغذ کو پلاسٹک کوٹنگ کے ذریعے محفوظ کیا گیا اور پھر جلد بنائی گئی، مشتاق احمد نے 26سال تک اپنا تمام وقت قرآن مجید کی تحریر کو دیا ایک پارہ لکھنے میں 4 ماہ کا عرصہ لگا۔

واٹر کلرز کے امتزاج سے لکھائی اور ٹیکسچرز بنائے گئے
جیومیٹریکل اصولوں پر قرآن مجید کی تحریر کوئی باقاعدہ رسم الخط نہیں ہے، مشتاق احمد نے تمام قرآن پنسل اور اسکیل کی مدد سے تحریر کیا جس میں واٹر کلرز کے ذریعے خوبصورت رنگوں کے امتزاج سے لکھائی کو واضح کیا گیا اور ہاتھ سے مختلف طرح کے ٹیکسچرز بنائے گئے۔

مشتاق احمد نے یہ فن کسی سے نہیں سیکھا، اس خط کی شروعات ان کے ذہن میں اس خیال سے آئی کہ قرآن مجید وہ کتاب ہے جو انسان کو سیدھا راستہ دکھاتی ہے تو کیوں نہ اسے ایسے رسم الخط میں تحریر کیا جائے جو متوازن اور ہر لحاظ سے سیدھا ہو، قرآن مجید کی تحریر کے لیے عام سا چاٹ پیپر استعمال کیا گیا اور تمام کام ہاتھ سے کیا گیا، قرآن مجید کا یہ قلمی نسخہ اپنی تحریر کے علاوہ خوبصورت رنگوں کے لحاظ سے بھی منفرد ترین ہے۔

The post بزرگ شہری نے جیو میٹری کے اصول پر قرآن مجید کا نسخہ تیار کر لیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2SIXZgR

عمران خان سے رابطہ: بائیڈن ’’پاکستان کے اندرونی جائزہ‘‘ رپورٹ کے منتظر

 اسلام آباد:  نئے امریکی صدر جو بائیڈن کا تاحال وزیر اعظم عمران خان سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہو سکا۔ 

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کا بھی انتظار نہ کیا تھا اور اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو ٹیلی فون کر ڈالان تھا،اس فون کال نے عالمی میڈیا کی بھی توجہ حاصل کی ،جس میں ٹرمپ نے نواز شریف کو ’’حیرت انگیزآدمی‘‘ کہا تھا، بائیڈن انتظامیہ پاکستان کے سول و عسکری حکام سے رابطے میں ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تاحال اس رابطے کے نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بائیڈن نے پاکستان کے ’’اندرونی جائزے‘‘ کا حکم دے رکھا ہے ، عمران خان کے ساتھ رابطے سے قبل وہ اس اندرونی جائزے کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں، اندرونی جائزے کے حکم کی وجہ یہ ہے کہ بائیڈن پاکستان کے ساتھ ’’تعصب آمیز‘‘ رویہ نہیں رکھنا چاہتے ۔

 

The post عمران خان سے رابطہ: بائیڈن ’’پاکستان کے اندرونی جائزہ‘‘ رپورٹ کے منتظر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3fAG3hd

حکومتی روش نہ بدلی تو لاکھوں لوگ لیکر اسلام آباد جائینگے، سراج الحق

 پشاور: امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے  کہ  حکومت نے اپنی روش نہ بدلی اور عوام کے ایشوز کو حل نہ کیا تو لاکھوں لوگوں کے ہمراہ اسلام آباد میں پڑاؤ  ڈالیں گے۔

پشاور میں لبیک القدس ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ  فلسطینیوں اور کشمیریوں کو بھارت اور اسرائیل کے مظالم سے آزاد کروانے کا وقت آگیا۔ دنیا کے پونے دوارب مسلمان بے تاب ہیں۔ اسلامی حکمران غیرت ایمانی کا مظاہرہ کریں اور اپنے عوام کی آواز سنیں۔ امریکا اور عالمی طاقتوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔  افغان عوام کو یقین دلاتے ہیں پاکستانی سرزمین کا ایک ٹکڑا بھی امریکیوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عوام کا ہاتھ ہوگا اور حکمرانوں کا گریبان۔

امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف دور سے لے کر اب تک پاکستانی سرزمین کو امریکا کے حوالے کرنے کے جتنے معاہدے ہوئے ہیں وہ پارلیمنٹ میں لائے جائیں۔ اسٹیبلشمنٹ اگر چاہتی ہے کہ عوام ان پر تنقید نہ کریں تو انہیں بھی اپنی ذمہ داری سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت بھی وہ ااہل حکمرانوں کو وفاق اور صوبوں میں چلا رہی ہے۔ پچھلی حکومتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے بنیں اور رخصت ہوئیں۔ حکومت چلانے کا کام سیاستدانوں پر چھوڑنا چاہیے، عوام خود ان کا احتساب کریں گے۔حکومت نے اپنی روش نہ بدلی اور عوام کے ایشوز کو حل نہ کیا تو لاکھوں لوگوں کے ہمراہ اسلام آباد میں پڑاؤ  ڈالیں گے۔

The post حکومتی روش نہ بدلی تو لاکھوں لوگ لیکر اسلام آباد جائینگے، سراج الحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3fBXdLG

کراچی کے میگا ویکسی نیشن سینٹر کی یومیہ تعداد 10 ہزار سے تجاوز

 کراچی: شہر قائد میں کورونا کی حفاظتی ویکسین لگانے کیلیے شہریوں کی بڑی تعداد ایکسپو سینٹر میں قائم میگا ویکسینیشن سینٹر کا رخ کرنے لگی، ویکسین لگوانے والوں کی یومیہ تعداد 10 ہزار سے تجاوز کرگئی، ایکسپو سینٹر کے احاطے میں طویل قطاریں لگنے لگیں، دھوپ گرمی سے پریشان شہریوں نے انتظامات میں بہتری لانے کا مطالبہ کردیا۔

ایکسپو سینٹر کے قیام کے بعد پہلے 20روز کے دوران سوالاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ ویکسین سینٹر میں مارننگ شفٹ کے انچارج ڈاکٹر حسنین نے بتایاکہ ویکسین لگانے کے لیے آنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، یومیہ اوسط 10ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جس میں مزید اضافہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ میگا ویکسین سینٹر میں یومیہ25ہزار افراد تک کو ویکسین لگانے کی گنجائش ہے جسے آنے والے دنوں میں دگنا کیا جائے گا۔

دوسری جانب سندھ حکومت نے سرکاری ملازمین بالخصوص سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو 5جون تک کم از کم ایک ڈوز لگوانے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے جس کے بعد اساتذہ کی بڑی تعداد نے ایکسپو سینٹر کا رخ کرلیا جہاں طویل قطاروں اور گرمی کی وجہ سے عام شہریوں کے ساتھ اساتذہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اساتذہ کا کہنا تھا کہ 5 جون تک ویکسین لگنے کا تو امکان نہیں لیکن بیشتر اساتذہ اس دھوپ گرمی کی وجہ سے بیمار ہوسکتے ہیں۔ اساتذہ نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ انھیں اسکولوں یا محکمہ تعلیم کے دفاتر میں ہی ویکسین لگائی جائے۔ ایکسپو سینٹر سمیت دیگر ویکسین مراکز میں دوسرا ڈوز لگوانے جانے والوں کو بھی مشکلات درپیش ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے مقررہ تاریخ کو 1166سے دوسرے ڈوز کا پیغام ملنے کے بعد ویکسین سینٹر کا رخ کیا جہاں محکمہ صحت کے آّن لائن نظام میں دوسرے ڈوز کی تصدیق نہیں ہورہی جس کی وجہ سے انھیں کچھ روز بعد رجوع کرنے کا کہا گیا۔

ایسے شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ دھوپ گرمی میں ڈیڑھ دو گھنٹے قطار میں لگنے کے بعد کاؤنٹر تک پہنچے جہاں سے انھیں ٹکا سا جواب دے کر فارغ کردیا اب ہم کہاں جائیں۔ ایکسپو سینٹر میں ویکسین کے لیے جانے والوں کا کہنا تھا کہ ویکسین سینٹر کے باہر احاطے میں سائے کا محدود انتظام ہے جبکہ قطار دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ خواتین اور مردوں کے لیے ایک ہی قطار ہے جبکہ سرکاری ملازمین کو کہا گیا کہ ان کے لیے ایکسپو سینٹر میں خصوصی کاؤنٹر ہوگا لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔

شہریوں نے مطالبہ کیا کہ مزید ہالز میں بھی ویکسین کی سہولت فراہم کی جائے اور کھلی جگہوں پر قطار لگوانے کے بجائے ایکسپو سینٹر کے خالی ہالز میں قطاریں لگائی جائیں، پانی کا انتظام کیا جائے اور بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی سہولت فراہم کی جائے۔

The post کراچی کے میگا ویکسی نیشن سینٹر کی یومیہ تعداد 10 ہزار سے تجاوز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/34yEavo

ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن، سربیا سے بکتر بند منگوالی جاتیں تو پولیس کا جانی نقصان نہ ہوتا

 کراچی:  مقامی طور پر تیار کردہ سندھ پولیس کی بکتر بند گاڑیاں ہمیشہ تنقید کی زد میں رہی ہیں اور انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اگر سال 2013 میں بیرون ملک سے 20 جدید ترین بکتر بند گاڑیاں امپورٹ کرلی جاتیں تو آج شاید صورتحال مختلف ہوتی ، مذکورہ بکتر بند گاڑیوں پر بارودی سرنگ بھی اثر انداز نہیں ہوتی، چین کے بجائے ٹائروں پر مشتمل ہونے کی بدولت کچے کے علاقے میں کامیاب گاڑی ثابت ہوتی لیکن کچھ عناصر نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی غرض سے منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرکے اسے یکسر ختم کردیا گیا۔

اندرون سندھ شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے آر جی پی راکٹ اور اینٹی ایئر کرافٹ گن سے حملہ کرکے بکتر بند کو شدید نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے جبکہ اس کے اندر بیٹھے اہلکاروں نے وڈیو بنا کر اعلیٰ افسران کو بھیجی تو بھاری نفری نے پہنچ کر بکتر بند کو وہاں سے نکالا ، اسی علاقے میں ایک اور بکتر بند پر ڈاکوؤں نے قبضہ کرلیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بکتر میں موجود سرکاری اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹیں بھی اپنے قبضے میں لے لیں اور جیکٹیں پہن کر وڈیو بھی وائرل کی ، سندھ پولیس کے زیر استعمال بکتر بند گاڑیوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

اس سے قبل کراچی میں لیاری آپریشن کے دوران بھی بکتر بند گاڑی سے گولیاں پار ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں اس وقت کے ایس ایچ او فواد اور دیگر پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے ، اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سال 2012 کے اختتامی مہینوں میں سندھ پولیس کے اس وقت کے آئی جی فیاض لغاری ، ڈائریکٹر فنانس دوست علی بلوچ اور دیگر سینئر افسران نے سربیا کا دورہ کیا جہاں کی تیار کردہ بی سیون لیول کی انتہائی جدید 20 بکتر بند گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا اور انھیں سندھ پولیس کی ضرورتوں کے عین مطابق قرار دیا گیا۔

ان بکتر بند گاڑیوں کے ماڈل لیزر بی ٹی آر اور بی او وی ایم تھے ، ان میں اتنے جدید کیمرے اور ٹیلی اسکوپ نصب تھے جس سے 3کلومیٹر اطراف میں نظر رکھی جاسکتی تھی ، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ان بکتر بند گاڑیاں پہیوں والی تھیں جبکہ اس وقت چین والی بکتر بند زیر استعمال ہے جس کی چین کچے کے علاقے میں کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے۔

بیرون ملک کی بکتر بند کے ٹائر ہی 7 سے8 فٹ اونچے تھے جبکہ ان پر بارودی سرنگ بھی اثر انداز نہیں ہوتی یہ مائنز ریزسٹ بکتر بند تھیں ،10 سال تک مینٹیننس سروس بھی مذکورہ کمپنی فراہم کرتی ، سوا ارب روپے مالیت کے اس منصوبے کی نیب نے بھی جانچ پڑتال کی تھی جس کے بعد سندھ پولیس کو وزارت خزانہ کی جانب سے فنڈ بھی ٹرانسفر کردیے گئے لیکن منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی گئیں اور کچھ عناصر نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی غرض سے مختلف الزامات عائد کرکے منصوبہ ختم کرادیا ۔

The post ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن، سربیا سے بکتر بند منگوالی جاتیں تو پولیس کا جانی نقصان نہ ہوتا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3fCuBBX

کراچی سینٹرل میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا

 کراچی:  سخی حسن ہائیڈرینٹ کی جبری بندش کے بعد کراچی سینٹرل میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا یہاں بحران کا شکار علاقوں کو آن لائن ٹینکر سروس معطل ہونے کے بعد ٹینکر مافیا کی گرفت مضبو ط ہو گئی ۔

آن لائن سروس کے زریعے   ایک ہزار روپے میں ملنے والا 1000گیلن کا ٹینکر 2500 روپے میں فروخت ہونے لگا جبکہ ڈپٹی کمشنر وسطی اور واٹر بورڈ کے مابین اختلافات بھی شدت اختیار کر گئے  ہیںڈپٹی کمشنر نے صبح 8 سے رات 8 بجے تک ہائیڈرینٹ کھولنے کی اجازت دیدی  ہے مگر واٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ ان اوقات میں وہ پانی کہاں سے لاکر ٹینکرز کو فراہم کریں واٹر بورڈ نے سخی حسن  ہائیڈرینٹ کیلیے آپریشنل ٹائم رات 9سے 3بجے  مقرر کر رکھا ہے  نیپا ، اسٹیل ٹاؤن، صفورا، بلدیہ ٹاؤن ، اور منگھوپیر ہائیڈریٹ 3کروڑ کی ابادی کے شہر کی شکایات کے ازالے کے لیے ناکافی ہیں ۔

The post کراچی سینٹرل میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2SBK63T

کورونا وائرس مزید 43 جانیں نگل گیا، 2117 نئے کیسز رپورٹ

 اسلام آباد: ملک میں کورونا کا خونی وائرس مزید 43 افراد کی جانیں نگل گیا جب کہ 2 ہزار 117 نئے مریض سامنے آئے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ روز 52 ہزار 223 ٹیسٹ کئے گئے جب کہ 2 ہزار 117 میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی، اس طرح کئے ٹیسٹس میں سے مثبت کیسز کی شرح 4.05 رہی۔

ملک میں کورونا کے مجموعی مصدقہ مریضوں کی تعداد 9 لاکھ 21 ہزار 53 ہوگئی ہے۔ پنجاب میں 3 لاکھ 39 ہزار 686 ، سندھ میں 3 لاکھ 17 ہزار 665 ، خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 32 ہزار 549 ، بلوچستان میں 25 ہزار 148 ، اسلام آباد میں 81 ہزار 195 ، آزاد کشمیر میں 19 ہزار 232 جب کہ گلگت بلتستان میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 5 ہزار 578 ہے۔

ملک میں کورونا کے 8 لاکھ 41 ہزار 241 مریض اس وبا کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، پنجاب میں 3لاکھ 9 ہزار 488 ، سندھ میں 2 لاکھ 87 ہزار 44 ، خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 23 ہزار 131 ، بلوچستان میں 23 ہزار 753، اسلام آباد میں 74 ہزار 964 ، آزاد کشمیر میں 17 ہزار 503 جب کہ گلگت بلتستان میں کورونا کے 5 ہزار 358 مصدقہ مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔

ملک میں مزید 43 افراد اس وائرس کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئے ہیں، اس طرح ملک میں اس وبا سے جاں بحق ہونے والوں کی مصدقہ تعداد 20 ہزار779 ہے، پنجاب میں 9 ہزار 999 ، سندھ میں 5 ہزار20، خیبر پختونخوا میں 4 ہزار 73 ، بلوچستان میں 277 ، اسلام آباد میں 760 ، آزاد کشمیر میں 543 جب کہ گلگت بلتستان میں 107 افراد اس وبا کی بھینٹ چڑھے ہیں۔

ملک میں اس وقت کورونا کے 59 ہزار 33 فعال مریض ہیں جن میں سے 3 ہزار 947 کی حالت تشویشناک ہے۔
کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پانی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post کورونا وائرس مزید 43 جانیں نگل گیا، 2117 نئے کیسز رپورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3wMASAO

وزیر اعظم نے وعدہ کیاتھا کہ انصاف ملے گا جو اب مل جانا چاہیے، جہانگیر ترین

 لاہور: جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ انصاف ملے گا جو اب مل جانا چاہیے۔

لاہور میں عدالت پیشی کے دوران جہانگیر ترین نے کہا کہ مجھ پر بےبنیاد الزامات لگائے گئے، ہر پیشی پر نئی تاریخ مل جاتی ہے ، علی ظفر کا احترام کرتا ہوں کہ انہوں نے محنت سے رپورٹ مکمل کی، ہمیں امید تھی کہ اب تک ان کی رپورٹ منظر عام پر آجائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا، یہ قیاس آرائی ہے کہ انہوں نے رپورٹ وزیراعظم کو دے دی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ رپورٹ میرے لئے مثبت ہے، وزیر اعظم نے وعدہ کیاتھا کہ انصاف ملے گا جو اب مل جانا چاہیے۔

تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ مجھے انصاف فراہم کی جائے ، سیاست نہ کی جائے، معاملہ تب بگڑا جب نذیر چوہان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، میری کسی حکومتی اعلیٰ عہدیدار سے ملاقات نہیں ہوئی، جب رپورٹ آئے گی تو ہر چیز کھل کر بتاؤں گا۔

اس سے قبل لاہور کی بینکنگ کورٹ کے فاضل جج حامد حسین نے جہانگیر ترین اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات پر سماعت کی، جہانگیر ترین اور علی ترین عبوری ضمانت مکمل ہونے پر عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت فاضل جج حامد حسین نے ریمارکس دیئے کہ میرے پاس ان کیسز کی سماعت کا اختیار نہیں رہا، ایڈیشنل سیشن جج ون نئے تعینات ہو گئے ہیں، آج کوئی دلائل نہیں سن سکتا، اگلی تاریخ مقرر کر سکتا ہوں۔

فاضل جج کے استفسار پر ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ پورے ایف آئی اے میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، انب مقدمات کا تفتیشی افسر رانا شہباز بھی تبدیل ہو گیا ہے، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ڈی جی ہو یا کوئی بھی، وہ کیسے تفتیشی کا تبادلہ کر سکتا ہے؟ وہ تفتیشی افسر کہاں ہیں جن سے مجھے بات کرنی ہے ؟ تفتیشی افسر کی تبدیلی سے متعلق میں حقائق لکھوں گا، عدالت نے مقدمہ کے تفتیشی افسر کا تبادلہ کرنیوالے ایف آئی اے افسر کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جہانگیر ترین اور علی ترین کی عبوری ضمانت میں 11جون تک توسیع کردی۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے نے جہانگیر ترین، ان کے بیٹے علی ترین، داماد اور دیگر فیملی ممبران کے خلاف سوا تین ارب روپے کے مالیاتی فراڈ پر مقدمہ درج کر رکھا ہے، ایف آئی اے کا موقف ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنے داماد کی کاغذ بنانے والی بند فیکٹری فاروقی پلپ کمپنی کے اکاؤنٹ میں جی ڈی ڈبلیو کمپنی سے سوا تین ارب منتقل کئے۔

The post وزیر اعظم نے وعدہ کیاتھا کہ انصاف ملے گا جو اب مل جانا چاہیے، جہانگیر ترین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3wJsRfJ

بھارتی فورسز کے بہیمانہ تشدد سے پاکستانی نوجوان شہید

 مظفر آباد: بھارتی فوج فورسز نے غلطی سے سرحد پار جانے والے پاکستانی نوجوان کو تشدد کرکے شہید کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے، جہاں بھارتی فورسز آئے روز نہتے اور بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر شہید کررہی ہے، وہیں انسانیت اور جمہوریت کا راگ الانپنے والے بھارت میں بھارتی انتہا پسندوں نے حکومتی سرپرستی میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

دوسری جانب ایل او سی پر بھی بھارتی فورسز کی  ہٹ دھرمیاں اور سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، اب ایک اور واقعہ آزاد کشمیر کے علاقے ظفر وال کے رہائشی نوجوان کے ساتھ پیش آیا، جو 18 مئی کو غلطی سے سرحد پار کرگیا تھا۔

ظفروال کے نواحی گاؤں کا رہائشی سید عاصم رضا 18 مئی سے اپنے گھر سے غائب تھا، اور اس کی والدہ نے اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ تھانہ ظفروال میں درج کروائی تھی، لیکن چند روز بعد ہی بھارتی میڈیا پر جاری ہونے والی تصویر میں عاصم زخمی حالت میں زیر علاج نظر آ رہا، اور بھارتی میڈیا سید عاصم کو دہشت گرد ثابت کرتا رہا۔

عاصم کے اہل خانہ کو جب بھارتی میڈیا پر اپنے پیارے کی تصویر نظر آئی تو انہوں نے اعلیٰ حکام تک بات پہنچائی، تاہم اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، کیوں کہ بھارتی فورسز کے تشدد کے باعث عاصم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جموں کے اسپتال میں انتقال کر گیا، اور گزشتہ روز بھارتی سیکورٹی فورسز نے شہید کی لاش پاکستانی رینجرز کے حوالے کردی۔

 

The post بھارتی فورسز کے بہیمانہ تشدد سے پاکستانی نوجوان شہید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3uu5WUl

نذیر چوہان گرفتاری دینے تھانے جاپہنچے، پولیس کا حراست میں لینے سے گریز

لاہور: تحریک انصاف جہانگیر ترین گروپ کے ایم پی اے نذیر چوہان نے تھانہ ریس کورس میں اپنی گرفتاری پیش کی۔

لاہور کے تھانہ ریس کورس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جہانگیرترین گروپ کے ایم پی اے نذیر چوہان کا کہنا تھا کہ اپنی گرفتاری کےلیے آیا ہوں، اور اس موقع پر قوم کو معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے حوالے سے قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ان کے لئے جو الفاظ بولے تھے اس پر قائم ہوں، وہ پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں سے ہیں، اپنی آخرت کا خیال کریں، اور زبان کھولیں۔

اس خبرکوبھی پڑھیں:  نذیرچوہان کے خلاف شہزاد اکبرکی درخواست پرمقدمہ درج

نذیر چوہان کا کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ شہزاد اکبر کے کہنے پر کتنے ایف آئی اے کے آفیسرز اور کتنے پولیس افسر لگائے گئے ہیں، اپنے اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس بارے میں سوچیں، یہ نہ ہو کہ کہیں دیر ہو جائے، اور عمران خان ایک سچے مسلمان ہیں میں ان سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ اس حوالے سے تحقیقات کریں۔

میڈیا سے بات کرنے کے بعد ایم پی اے نذیر چوہان ایس ایچ او تھانہ ریس کورس رضا عباس کے سامنے پیش ہوگئے اور اپنے مقدمے کی کاپی پیش کی۔ ایس ایچ او نے کہا کہ مقدمہ درج ہو چکا ہے اور اب کام تحقیقات کا ہے۔ نذیر چوہان انچارج انوسٹی گیشن ریس کورس کے سامنے گئے اور ان سے درخواست کی کہ مجھے گرفتار کریں تاہم انچارج انوسٹیگیشن نے کہا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کی اجازت کے بعد کوئی کاروائی کریں گے۔

ایم پی اے نذیر چوہان نے معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر کے خلاف درخواست دی اور کہا کہ شہزاد اکبر کے خلاف درخواست میرے وکیل کے پاس موجود ہے،  میں نے جو الزامات لگائے ہیں وہ ثابت کروں گا، لیکن میں اپنی گرفتاری کے بعد ثبوت دوں گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کی درخواست پر ترین گروپ کے ایم پی اے نذیرچوہان کے خلاف تھانہ ریس کورس میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، مقدمہ دفعہ 506،258 .189، 153 کی دفعات کے تحت درج کیا گیا، جس میں شہزاد اکبر نے مذہبی حوالے سے الزام تراشی پر اندراج مقدمہ کی درخواست دی۔

 

The post نذیر چوہان گرفتاری دینے تھانے جاپہنچے، پولیس کا حراست میں لینے سے گریز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3c21m9g

بجٹ کے نام پر آئی ایم ایف کے مطالبات مسلط نہیں ہونے دیں گے، شہبازشریف

لاہور: مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبات کو بجٹ کا نام دے کر عوام پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارٹی کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کو حکومتی معاشی کارکردگی بے نقاب کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کونسل کو اجلاس بلانے کا کہا ہے۔

شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اکنامک ایڈوائزری کونسل عوام دشمن بجٹ منظور ہونے سے روکنے کے لئے حکمت عملی کا جائزہ لے، مہنگائی، بے روزگاری،  معاشی زبوں حالی سے عوام کو درپیش سنگین مشکلات، بجلی، گیس، ادویات، علاج، تعلیم اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشرا اضافے کے حقائق کو اُجاگر کیا جائے۔

صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ حکومت جھوٹ سے اعدادوشمار بدل سکتی ہے لیکن زمینی معاشی حقائق کو بدلا نہیں جاسکتا، آئی ایم ایف کے مطالبات کو بجٹ کا نام دے کر عوام پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔

 

The post بجٹ کے نام پر آئی ایم ایف کے مطالبات مسلط نہیں ہونے دیں گے، شہبازشریف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3utwdly

مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، وزیر خزانہ

 اسلام آباد: وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

اسلام آباد میں بجٹ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ جب حکومت سنبھالی تو معیشت کو شدید بحران کا سامنا تھا تاہم وزیراعظم نے معیشت کی بحالی کے لیے بڑے فیصلے کیے، روپے کی قدر میں اضافے کیلئے ترجیحی اقدامات کیے تاہم معیشت کی بحالی کے سفر میں کورونا کے باعث مشکلات آئیں، کورونا وبا کے باوجود تعمیراتی شعبے کا فروغ ممکن بنایا اور اس سے منسلک 40 سے زائد صنعتوں کو فعال کیا، معیشت کی بہتری کے ساتھ محصولات میں بھی مثبت اضافہ ہوا جب کہ زرمبادلہ کے زخائر میں اضافہ معیشت کی بہتری ہے۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول ہماری ترجیح ہے، اقتصادی بہتری کے لیے معاشی ماہرین سے بھی مشاورت کی گئی، معیشت کی بہتری کے لیے برآمدات بڑھانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہے جب کہ مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ حکومت نے ریوینیو میں اضافہ کیا، اس سال ریکارڈ 4 ہزار ارب سے زائد ریوینیو جمع کیا گیا تاہم گردشی قرضہ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ آئندہ بجٹ میں زراعت کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، کسان دوست پالیسز کے باعث زراعت کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے، ٹیکس چوری کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جائے گا، ٹیکس چوری کرنے والوں کا جدید ٹیکنالوجی اور بجلی کے بلوں سے سراغ لگایا جائے گا۔

The post مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، وزیر خزانہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3vAaKZA

خلیجی ملک سے آنے والے پاکستانی مسافر میں بھارتی کورونا وائرس کی تصدیق

 اسلام آباد: خلیجی ملک سے آنے والے پاکستانی شخص میں ایک شخص میں بھارتی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق بھارت کا خطرناک کورونا وائرس پاکستان میں بھی پہنچ گیا ہے، اس حوالے سے وزارت صحت نے بتایا ہے کہ متاثرہ شخص حال ہی میں خلیجی ملک سے پاکستان پہنچا تھا، اور پاکستانی ایئرپورٹ پر اس کی اسکریننگ کی گئی تو انکشاف ہوا کہ مسافر بھارتی کورونا وائرس کا شکار ہے۔

وزارت صحت کے مطابق متاثرہ شخص 8 مئی کو پاکستان پہنچا تھا اور کا تعلق آزادکشمیر سے ہے، اس میں بھارتی کورونا وائس کی نشاندہی ایئرپورٹ پر اسکریننگ کے ذریعہ ہوئی تو اسے سرکاری قرنطینہ سینٹر میں رکھا گیا، جہاں اس شخص کے اضافی ٹیسٹ کئے گئے تو ان میں بھی بھارتی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔

وزارت صحت نے بتایا ہے کہ متاثرہ شخص میں وائرس کی معمولی علامات پائی گئی تھیں، اور اس کو مکمل صحت یاب ہونے کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے، اور اس کے گھر والوں میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی، جب کہ متاثرہ شخص کے ساتھ آنے والے مسافروں کی اسکریننگ کی جارہی ہے۔

 

The post خلیجی ملک سے آنے والے پاکستانی مسافر میں بھارتی کورونا وائرس کی تصدیق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3vMms3a

زباں فہمی : پھر وہی دوچشمی ’ھ‘

زباں فہمی نمبر 99

خاکسار کے کالم زباں فہمی نمبر 75، بر موضوع ’’اردو کے حروف تہجی اور دوچشمی ’ھ‘ کا مسئلہ‘‘ مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین، مؤرخہ 6دسمبر 2020ء کی اشاعت کے بعد بھی انٹرنیٹ اور واٹس ایپ پر مختلف حلقوں (بشمول واٹس ایپ بزم زباں فہمی) میں اس موضوع کی جزئیات زیرِبحث رہیں، لہٰذا یہ بات ناگزیر محسوس ہوئی کہ اس بابت مزید اظہارِخیال کیا جائے۔

ویسے بھی تحقیق اور جستجو کی راہ کبھی مسدود نہیں ہونی چاہیے۔ مذکورکالم کی ابتداء میں خاکسار نے لکھا تھا کہ مقتدرہ قومی زبان (جدید نام: ادارہ برائے فروغ قومی زبان) یا National Language Promotion  Department اور اردو لغت بورڈ کے ماہرین نے اپنے خصوصی اجلاسوں اور مراسلت میں یہ طے کیا کہ اردو کے حروف تہجی کی تعداد چوّن[54] ہے ………یعنی: ا، آ، ب، بھ، پ، پھ، ت، تھ، ٹ، ٹھ، ث، ج، جھ، چ، چھ، ح، خ، د، دھ، ڈ، ڈھ، ذ، ر، رھ، ڑ، ڑھ، ز، ژ، س، ش، ص، ض، ط، ظ،ع،غ، ف،ق، ک، کھ، گ، گھ، ل، لھ، م، مھ، ن، نھ، ں، و، ہ، ء، ی اور ے۔ مسلسل مطالعے میں بعض کارآمد نکات ہاتھ آہی جاتے ہیں۔

سو ہمارے مایہ ناز، خورد معاصر حافظ صفوان محمد نے ایک ویب سائٹ (مکالمہ ڈاٹ کام) پر ’’دو چشمی ہا (ھ) کا استعمال‘‘ کے موضوع سے جامع اظہارِخیال کرتے ہوئے برملا کہا کہ ’’ جمل میں’ھ ‘ کا عدد 5 شمار ہوتا ہے، یعنی ہائے ہوز (ہ) کے برابر، چنانچہ بھ کی قدر 2 جمع 5 برابر 7 ہے، دھ کی قدر 4 جمع 5 برابر 9 ہے، وغیرہ۔ اس لیے بھ، پھ، تھ، ٹھ، وغیرہ حروف تہجی نہیں ہیں بلکہ مخلوط حروف ہیں جو ب، پ، ت، ٹ، وغیرہ کی بھاری آوازوں کی تحریری علامت کے طور پر مخصوص کر دیے گئے ہیں۔

ھ پر حرکت نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنے سے پچھلے حرفِ تہجی کی حرکت کے تابع ہوتی ہے‘‘۔ ان کے اسی مضمون میں خاکسار کے گزشتہ کالم کے کئی دیگر نکات کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔ گزشتہ کالم کی اشاعت کے بعد جب واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں مکالمہ شروع ہوا تو میرے بزرگ معاصرین پروفیسر محمد رئیس علوی، محترم حیات ؔ امروہوی اور محترمہ آمنہ عالم صاحبہ نے میرے مؤقف کی تائید کی ، جبکہ میری (شعبہ تدریس و ادب میں) بزرگ معاصر ڈاکٹر رخسانہ صباؔصاحبہ نے حسبِ سابق سرکاری مؤقف کی موافقت میں اظہارِخیال کیا۔ ممتاز شاعرہ اور بزم سائنسی ادب کی خازن، محترمہ آمنہ عالم نے فرمایا کہ ’’ھ ایک حرف ہے اور اس کے ساتھ دوسرے حروف مل کر بہت سی مرکب آوازیں بناتے ہیں۔ اردو حروف تہجی میں ھ ایک حرف کے طور پر شامل رکھنا ہی ہر لحاظ سے دانش مندی ہے۔

اگر اردو ھ کو حروف تہجی میں شامل نہ کیا جائے تو ساری بحث اور مرکب آوازوں کی حیثیت ہی یکسر مٹ جاتی ہے۔ ھ کو حروف میں شامل رکھ کر اسے’ہ‘ کے بعد اور’ہ‘ کی آواز ذرا ہَوا زبان سے باہر پھینکنے کے ساتھ نکلنے والا حرف پڑھایا جائے۔ (ہم گھر میں بچوں کو اسی طرح پڑھاتے ہیں)‘‘۔ انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ بھ، پھ، کھ، وغیرہ کیوں مرکب حروف نہیں؟ اور پھر جواباً ارشاد کیا کہ ’’پہلے مرکب کی وضاحت ہوجائے، دو یا دو سے زیادہ اشیاء، کا ایسا ملاپ جس میں اُن کا اپنا وجود ختم ہوکر ایک نیا آمیزہ بن جائے، مرکب کہلاتا ہے، جیسے پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ اگر یہ الگ ہوجائیں تو دو گیسیں رہ جائیں گی، پانی نہیں‘‘ پھر انھوں نے یہ سوال کیا کہ ’’ اگر ھ کو حروف میں شا مل ہی نہ رکھا جائے تو مرکب میں اسے کس طرح شامل کیا جا سکتا ہے‘‘۔

مزید برآں انھوں نے اسی نکتے کی وضاحت میں ارشاد کیا کہ ’’اب دیکھئیے کیا ھ کے ساتھ، مل کر بننے والی یہ آوازیں، لکھتے وقت مرکب وجود برقرار رکھتی ہیں؟….. دھول، گدھ، ڈھول، آڑھتی، دھم، گاڑھی وغیرہ وغیرہ بے شمار الفاظ ہیں جہاں یہ نام نہاد مرکب حروف، دو لخت ملتے ہیں۔ کیا دو لخت وجود مرکب کہلانے کے قابل ہو سکتا ہے؟…. اس لیے لازم ہے کہ ہم کسی سے نادانستگی میں ہونے والی اس غلطی کو آگے نہ بڑھائیں، جس زبان میں یہ مرکب حرف، مرکب رہتا ہو، انھیں بے شک مبارک ہو، لیکن اردو حروف تہجی پر غیرمنطقی اور غیرضروری اضافے کا بوجھ نہ ڈالا جائے‘‘۔

گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو محترمہ آمنہ عالم نے میری اس نکتہ آرائی کی بھی تائید کی کہ دیگر عالمی زبانوں کے علاوہ انگریزی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آخرش انھوں نے بجا طور پر استفسار کیا کہ ’’کیا آئندہ (اگر) ہمارے ملک میں موجود دیگر زبانوں میں رائج الفاظ کی اردو میں شمولیت ہوئی تو ہم، اُن کے نئےPhoneme کے لیے نئے حروف تہجی بنائیں گے؟‘‘۔ فونیم کیا ہے، اس کی وضاحت ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیے، بابا گوگل کے توسط سے:

A phoneme is the smallest unit of sound in a word that makes a difference in its pronunciation, as well as its meaning, from another word. For instance, the /s/ in ‘soar’ distinguishes it from /r/ in ‘roar’, as it becomes different from ‘soar’ in pronunciation as well as meaning.

اگر ہم پاکستان کی دیگر زبانوں میں شامل متعدد Phoneme المعروف مرکب حروف کی مثال لیں، جیسا کہ ماقبل لکھ چکا ہوں، تو معاملہ بہت گمبھیر ہوجاتا ہے۔ ماقبل، مذکور کالم نمبر 75میں لکھ چکا ہوں کہ ہماری علاقائی زبانوں میں سندھی اور سرائیکی میں بعض ایسے حروف شامل ہیں جنھیں اردو میں لکھ کر سمجھانا ہی محال ہے، مثلاً ڑونڑ کی آواز (جیسے جونیجو کو جونڑینجو کہا جاتا ہے)۔ اسی طرح گلگت، بلتستان اور چترال کی علاقائی زبانوں میں بھی یہ عنصر موجود ہے۔ فضلائے لسان اور ماہرین لسانیات میرے اس نکتے کا جواب دیں۔

{خاکسار نے اپنے کالم زباں فہمی نمبر 75میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ یہاں ایک عجیب انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مشہور ویب سائٹ وِکی پیڈیا کے اردو رُوپ، وِکی پیڈیاآزاد دائرۃ المعارف میں یہ عبارت چونکانے والی ہے:’’حرف ’ۃ‘ کو عموماً اُردو ابجد کا حصّہ نہیں مانا جاتا، تاہم کئی الفاظ و اِصطلاحات میں اِس کا اِستعمال ضرور ہے، جس کی ایک مثال مرکب لفظ دائرۃالمعارف ہے۔ اور شاید اِسی اِستعمال کی وجہ سے مقتدرہ قومی زبان نے اُردوحروفِ تہجی میں اِس کو شامل کیا ہے۔

اِس کے ساتھ ساتھ کئی مزید حروف کو بھی شاملِ ابجد کیا گیا ہے جس سے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد اٹھاون (58) ہوجاتی ہے‘‘۔ قارئین کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس ویب سائٹ پر منقول، اضافی حروف یہ ہیں: وھ، یھ…..معلوم نہیں کہ فاضل مرتبین نے چھپن حروف تہجی کہاں دیکھے کہ اُن میں اِن کا اضافہ کرکے تعداد، اٹھاون تک پہنچادی۔ اب یہ نکتہ ایسا ہے کہ ہمارے معاصر ماہرین بشمول ڈاکٹر شاہد ضمیر صاحب اس کی بابت بھی غور فرمائیں اور اس کے رَدّوقبول کا فیصلہ بھی متفق علیہ ہونا چاہیے۔ جب ہم اس بحث میں پڑ تے ہیں کہ تعداد کیا ہونی چاہیے اور کیا نہیں تو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اس ضمن میں دلائل کیا دیے گئے ہیں اور کیا ان کا رَدّ بھی ممکن ہے یا محض اس لیے قبول کرنا واجب ہے کہ ہمارے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

جس طرح بعض پرانی کتب میں پہلے مفرد حروف تہجی لکھے جاتے تھے، پھر مرکب، اسی طرح ماضی قریب میں منظرعام پر آنے والی، پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب’’اردوقواعدوانشاپردازی‘‘ (برائے جماعت اوّل تا پنجم) از محترمہ شگفتہ صغیر ترمذی میں بھی کیا گیا ہے، البتہ انھوں نے بوجوہ حروف کی تعداد کم (یعنی باون) لکھی ہے۔ (یہ عمدہ کتاب آن لائن دستیاب ہے اور ہماری فاضل معاصر، شاعری اور تدریس میں ہماری بزرگ، ڈاکٹر رخسانہ صبا صاحبہ نے دیگر مواد کے ساتھ ساتھ، اس کا ربط[Link] بھی فراہم کیا)}۔ یہاں ایک دل چسپ نکتہ ملاحظہ فرمائیے: مرکب حروف کی فہرست میں ’’لھ‘‘ یعنی لام+ھ بھی شامل ہے، مگر اردو میں اس کے استعمال کی کوئی نظیر موجود نہیں، البتہ عربی میں اس کا رواج ہے، جبکہ عربی میں تو دوچشمی ھ سے الفاظ شروع ہونے کا معاملہ بھی یہاں خارج ازبحث ہے۔

انٹرنیٹ کی سیر میں فورم ڈاٹ آکسفرڈ ڈکشنریز ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر جناب شاہد خان کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اُس کا ایک اقتباس محض امتثال امر کے لیے یہاں نقل کررہا ہوں کہ کہیں دوسرے مؤقف کے حامی یہ نہ سمجھیں کہ ہم ایسی تحریریں پڑھتے ہی نہیں:

’’باون حروف کے خاندان میں اگر پندرہ کو خاندان کا حصہ ہی نہ مانا جائے تو خاندان کا نظام کیسے چلے گا۔ اس الجھن کا شکار معمولی پڑھے لکھے افراد سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ لسانیات کے ماہرین اور لغات کے مرتبین بھی ہیں۔ لغت کی بعض کتابوں میں بھی ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں کوئی فرق نہیں سمجھا گیا اور ان کو اس طرح مخلوط و مجہول کردیا گیا کہ ایک عام فرد لفظ کے تلفظ، املا یا معنی سمجھنے کے بجائے مزید الجھاؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے ’’منہ‘‘، ’’منھ‘‘، ’’مونہہ‘‘ اور ’’مونھ‘‘ ایک ہی لفظ چار مختلف شکلوں میں لکھا جاتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ اسے کسی اور املا سے بھی لکھا جاتا ہو جو راقم کو معلوم نہ ہو۔ لطف کی بات یہ کہ ان املا کو لغت کی کتابوں میں بھی کسی تصریح کے بغیر کبھی ایک طرح سے اور کبھی دوسری طرح سے لکھا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ’’ٹ‘‘، ’’ڈ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ مرکب اور مخلوط حروف نہیں یعنی وہ کسی دوسرے حرف کو ’’ط‘‘ سے ملا کر نہیں بنائے گئے، اُسی طرح اردو میں ہائے دو چشمی گروہ کے سارے حروف اپنی اپنی حیثیت میں مستقل اور مفرد حروف ہیں۔ ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے اردو کے قدیم شعرا اپنے شعری دیوان مرتب کرتے وقت ’’ھ‘‘ کی ردیفوں مثلاً ’’آنکھ، ساتھ، ہاتھ‘‘ وغیرہ کو ردیف ’’ہ‘‘ کی ذیل میں ہی لکھا کرتے تھے۔ اس طرح ’’ہ‘‘ کی ردیف میں ’’یہ، وہ، نقشہ، جگہ‘‘ کے ساتھ ہی ’’آنکھ، بیٹھ، ساتھ، ہاتھ‘‘ وغیرہ بھی موجود ہوتے تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ ردیفوں کے نام صرف فارسی حروف پر رکھتے تھے اور ’’بھ، ٹھ، چھ، کھ‘‘ وغیرہ کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے تھے‘‘۔

انھی کی تحریر سے متصل ایک اور صاحب  نے بھی ایک مضمون ایک دوسری ویب سائٹ[https://www.urduweb.org/]    کے لیے تحریر کیا اور کہا کہ ’’آج کل لفظ ‘منہ’ کی ایک نئی املا سامنے آ رہی ہے ‘منھ’ کی شکل میں۔ پہلے تو میں بھی اس کو لفظ ‘منہ’ کی صحیح اور اصل املا سمجھا اور چند بار اسی املا کو استعمال بھی کیا۔ پھر ایک دن میں نے ان دونوں املاؤں کے تلفظ پر غور کرنا شروع کر دیا اور ان کے تلفظ کو آہستہ آہستہ اور بار بار ادا کرتا رہا جو بالکل ایک جیسا یا ایک ہی لگ رہا تھا۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ دونوں کا تلفظ بالکل ایک جیسا کیوں ہے۔ اسی طرح کرتے کرتے اچانک مجھے ادراک ہوا کہ ‘منھ’ کا تلفظ وہ نہیں بنتا جو میں ادا کر رہا ہوں بلکہ میں دونوں بار ‘منہ’ کا تلفظ ہی ادا کر رہا ہوں۔

پھر میں نے ‘مُنھ’ (میم پیش نھ) کا جو تلفظ ادا کیا تو وہ اس آواز سے بالکل مختلف تھا جو ہم ‘منہ’ کی ادا کرتے ہیں۔ لفظ ‘منہ ‘ آوازوں کے مندرجہ ذیل سلسلے پر مشتمل ہے:م+غنی پیش+ہ۔ اس کو مُ ں ہ سے ظاہر کر سکتے ہیں ملا کر (اور تمام اعراب کے ساتھ) مُنہْ لکھیں گے۔ خالص صوتیاتی انداز میں (IPA کا سہارا لیتے ہوئے) اسے mu~h لکھا جائے گا (یہاں تلفظ میں معروف غنی پیش ہے اس لیے u~ استعمال کیا گیا ہے مجہول غنی پیش ہوتی تو ~ استعمال ہوتا)۔ اب ہم توجہ مرکوز کرتے ہیں ‘مُنْھ’ (م+پیش+نھ)کے تلفظ پر۔ اس کا تلفظ ‘مُنْ’ سے کافی قریب ہے (جبکہ ‘منہ’ کا تلفظ بالکل مختلف ہے)۔ ‘نھ’ کی آواز’ ن’ کی آواز کے قریب ہے بس اس کو ادا کرتے ہوئے منہ سے ہوا کافی مقدار میں نکالی جاتی ہے۔ صوتیاتی انداز میں’مُنھ’ (م+پیش+نھ) کو mun لکھا جائے گا۔

پنجابی جاننے والے اس بات کو اس طرح بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں: پنجابی کے دو لفظ ہیں ایک ‘گَل’ (بمعنی بات) اور دوسرا ‘گَلھ’ (بمعنی گال، رخسار)۔ جو فرق اور قربت گَل اور گَلھ کے تلفظ میں ہے بالکل وہی فرق اور قربت مُن اور مُنھ کے تلفظ میں ہے۔

اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ‘منھ’ کس آواز کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح ‘مینہ’ (بارش) کو بھی غلط طور پر ‘مینھ’ لکھا جا رہا ہے اور ‘بانہہ'(بمعنی بازو) کو اسی غلط فہمی کی وجہ سے ‘بانھ’۔ شاید اور بھی اس طرح کے الفاظ ہوں۔ بہرحال ان سب کی املا ‘ں ہ’ سے کرنی چاہیے نہ کہ ‘نھ’ سے۔ اوپر کی گئی بحث سے یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ ‘نھ’ وغیرہ کا اردو میں کوئی وجود نہیں۔ اِنھیں، اُنھیں، جِنھیں کو اِ+نھیں، اُ+نھیں، جِ+نھیں سے ہی صحیح ظاہر کیا جا سکتا ہے نہ کہ اِن+ہیں، اُن+ہیں، جِن+ہیں (اِنہیں،اُنہیں، جِنہیں) سے‘‘۔ یہ بحث بہرحال مختلف ہے، مگر ہمارا ان سے اتفاق کرنا بھی لازم نہیں۔ ہماری ایک خورد معاصر، ادبِ اطفال کی فعال قلم کار محترمہ راحت عائشہ نے روشنائی ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر ایک دل چسپ مضمون بعنوان ’’ ہ نے چشمہ پہنا‘‘ لکھا۔ (ویسے چشمہ پہننا غلط ہے، چشمہ لگایا جاتا ہے)۔

اس مضمون میں حروف تہجی، کہانی کے مرکزی کردار سارا سے بات چیت کرتے ہوئے اُسے فہرست مرتب کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ اچھی کاوش ہے اور ہمیں اپنے بچوں کو ایسے مضامین پڑھوانے چاہییں۔ (بات کی بات ہے کہ عربی الاصل لفظ سارا کا مطلب ہے چادر، جبکہ سارہ قدیم سُریانی وعبرانی زبانوں میں بمعنی شہزادی مستعمل تھا۔ یہی وہ نام ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کا تھا)۔

The post زباں فہمی : پھر وہی دوچشمی ’ھ‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3c4egUi

مورڑو میربحر کی داستانِ شجاعت

گلبائی کے پُررونق چوک پر سے گزرتے ہوئے آپ نے گیارہ عدد اجاڑ قبریں اور ایک چوبی کھمبے پر درج نوٹ بعنوان ’’شش شہید‘‘ بھی ملاحظہ فرمایا ہوگا، جس پر مزید درج ہے کہ:’’حضرت مورڑو شاہ، نوٹ حضرت مورڑو شاہ کی تفصیل حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سندھی کتاب ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں موجود ہے۔‘‘

اسی حوالے سے ایک نجی ٹی وی کی ایک مختصر سی دستاویزی رپورٹ بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہے اور اسی رپورٹ کے حوالے سے ’’ ایک صحافی کی نجی ویب سائٹ ‘‘ پر ایک خبر بھی۔

اس رپورٹ اور خبر کے مطابق،’’1051ع میں کراچی ایک بلوچ قبیلے کی بستی تھی، جہاں مورڑو اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا اور جب اس کے بھائی ایک شارک کا شکار ہو گئے، تو مورڑو جو کہ ایک ٹانگ سے معذور بھی تھا، اس نے اس شارک کا شکار کیا اور اپنے بھائیوں کی لاشیں اس کے پیٹ سے برآمد کرکے انہیں موجودہ گلبائی چوک پر دفنا دیا جواس وقت ساحل سمندر تھا۔‘‘

یہ قصہ جزوی طور پر درست ہے لیکن اس میں سب سے اہم غلطی یہ ہے کہ مورڑو، شاہ (سید) نہیں تھے جیسا کہ اس قسم کا دعویٰ آپ مذکورہ بورڈ، رپورٹ اور خبر میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق بلوچوں کا سندھ میں ورود 13ویں صدی عیسوی میں ہوا:

’’اسلام کی آمد کے ساتھ ہی 8 ویں صدی عیسوی میں عرب، ایرانی اور ترک الاصل لوگ گروہ در گروہ سندھ پہنچنے لگے: ان سب میں بلوچ سب سے زیادہ تعداد میں تھے، جنہوں نے 13 صدی میں سندھ کی طرف ہجرت کی اور اسے بلوچستان کے بعد اپنا دوسرا وطن بنایا۔‘‘

اگرچہ سیدوں کو سندھ میں ہمیشہ سے وہی احترام حاصل رہا ہے جو کہ ہندوؤں میں برہمنوں کو، اور بلوچ قبائل بھی سندھ کے معتبرین میں سے ہیں، جوکہ سندھ کی سیاست اور اس کی ثقافت کے اہم حصہ ہیں؛ لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ مورڑو نہ تو سید تھے نہ ہی بلوچ، کیوں کہ شاہ جو رسالو جو کہ سندھی کی کوئی عام سی کتاب نہیں بلکہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا منظوم کلام ہے اور اسے سندھ میں الہامی کتب کے بعد کا درجہ دیا جاتا ہے تو اس کلام میں مورڑو کو کہیں بھی سید نہیں پکارا گیا، حالاںکہ شاہ عبداللطیف بھٹائی خود بھی سید ہی تھے، جب کہ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ 1051ع کا ہے تو اس صورت میں بلوچوں کا بھی سندھ میں وردو و وجود نہ تھا۔ یوں سندھ کی معلوم و مرقوم تاریخ کے مطابق مورڑو میر بحر یعنی مچھیرے تھے یا پھر جناب ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ صاحب کے مطابق بہلیم تھے، جو کہ وکیپیڈیا انگریزی کے مطابق ’’مسلم راجپوت‘‘ اور ’’ترک‘‘ ہیں۔

اسی طرح مذکورہ رپورٹ اور خبر میں کہا گیا ہے کہ، شش شہید شارک کا شکار ہوئے تھے لیکن شاہ جورسالو یا سندھ کی معلوم اور زیادہ مستند تاریخی روایات کے مطابق مورڑو کے بھائی ایک دیوہیکل مگرمچھ کا شکار ہوئے جسے عام طور پر مانگر مچھ یا صرف مچھ کہا جاتا رہا ہے۔ اور یوں بھٹائی کے سر گھاتو اور سندھ کی تاریخ میں مچھ یا مگرمچھ ظالم کا استعارہ بھی ٹھیرا، جو آج وطن عزیز میں ظالم اور بدعنوان انسان کا استعارہ بھی بن چکا ہے۔

اس سلسلے میں ایک اور غلط فہمی کا ازالہ بھی ہوجائے کہ ان قبروں میں مورڑو میربحر کی قبر بھی ہے۔ یہ قبریں صرف ان کے بھائیوں، بہن اور دیگر عزیزوں کی ہیں، جب کہ مورڑو کی قبر مسرور بیس میں ہے جہاں کبھی ان کے مزار پر میلہ بھی لگا کرتا تھا۔

جیسا کہ آصف رضا موریو صاحب ایسوسی ایٹ ایڈیٹر جیول ٹائم نے اپنی ایک تحریر میں نشان دہی کی ہے کہ: مورڑو کا مزار بیس مسرور کے ورانڈے میں ہے۔ وہ اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ:

اب (مورڑو کے مزار کے) مسرور بیس ماڑی پور کے ورانڈے کے اندر موجود ہونے کے باعث عام و خاص تو کیا اوبھایو کی اولاد کو بھی (مورڑو کو قبر پر) دو قل پڑھنے کی اجازت تک نہیں ہے۔ انگریزوں نے جب فوجی بیس تعمیر کیا تھا تو انہوں نے بھی مورڑو نیز ابراہیم شاہ اور سید حیدر شاہ (ابراہیم حیدری) کی مزارات کو عام لوگو ں کی زیارت کے لیے کبھی بند نہیں کیا تھا۔ ابراہیم شاہ اور سید حیدر شاہ کا مزار اس وقت بھی لوگوں کے لیے کھلا ہوا ہے صرف مورڑو کا مزار زیرعتاب ہے۔‘‘

’’کراچی شہر کی بنیاد رکھنے والے اس شخص کے مزار کی خبرگیری نہ لوگوں نے کی، نہ ہی محکمۂ ثقافت اور نہ ہی حکومت کے کسی اور ادارے نے۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت سندھ کے اکثر افسران کو یہ علم بھی نہ ہوگا کہ مورڑو کون تھے اور ان کا مزار کہاں ہے تو پھر اس گم نام لیکن بہادر سندھی سورما کی مٹی کا وارث کون اور کیوںکر ہو۔‘‘

ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ کارروائی بلکہ کارستانی کسی ایسے صاحب کی ہے جو کہ مورڑو کے مچھیرے ہونے پر معترض ہیں یا پھر انہیں تاریخ سے شغف نہ ہوتے ہوئے تاریخی شگوفے چھوڑنے کا شوق ہوگا۔ حالاںکہ آبادیوں کی ابتدا آب گاہوں کے پاس سے ہوئی اور مچھیرے ہی گویا تہذیبوں کے نقیب ہوئے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ قریشی بھی ’’قرش‘‘ سے منسوب و ماخوذ ہے جو کہ ایک قسم کی چھوٹی سی شارک مچھلی کا ہی نام ہے۔

علاوہ ازیں اس رپورٹ میں کہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ، چند سال پیشتر کراچی ناردرن بائے پاس اور لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے مورڑو برادران کی اصل قبور کو ڈھا دیا گیا تھا، جن کو کہ 1990ع میں پختہ کیا گیا تھا۔ انہیں اصل مقام سے ہٹا کر کچھ فاصلے پر ڈمی قبور بنائی گئیں تھیں، لیکن فشر فوک فورم کے صدر محمدعلی شاہ اور ان کی ساتھیوں کی جدوجہد کے باعث ان بھائیوں کے آخری آرام گاہوں کی نشان دہی اور بحالی ممکن ہوسکی۔

بہرحال یہ گزارشات کسی تاریخی تحریر کی نہیں بلکہ اسی مورڑے میربحر کے قصے بارے میں ہیں جو اب ہم یہاں پیش کرنے والے ہیں۔

محترم صحافی مختیار آزاد کے ڈان اردو میں مطبوعہ ایک مضمون ’’مورڑے سے ماری پور تک‘‘ کے مطابق،’’کراچی کا وہ علاقہ جسے آج ہم ماڑی پور کے نام سے جانتے ہیں اس کا قدیم نام مورڑو تھا، جسے برطانوی راج میں موری پور سے بدلا گیا، اور اب یہ علاقہ ماڑی پور کہلاتا ہے۔ ’’مورڑو میربحر ایک بہادر شخص اوبھایو کے فرزند تھے۔ اوبھایو کی ذات بہلیم تھی، جو پہلے تو دِلورائے کی نگری میں بستے تھے لیکن بعد میں وہ کلاچی کے ایک ساحلی علاقے میں آ بسے۔ روایات کی مطابق وہاں انہیں دولت اور شہرت دونوں نصیب ہوئے اور یہاں تک کہ اس بستی کا نام ان کی بیوی کے نام پر سون میانی پڑگیا۔‘‘

واضح رہے کہ مورڑو کے مذکورہ چھ بھائی سگے بھی نہیں سوتیلے تھے اور ان کی سگی صرف ایک بہن تھی۔ بہن کا نام سیرھیں تھا جب کہ بھائیوں کے نام پنہیر، انگاریو، مانجھاندو، لَلَو، سانئر اور ہنجھ تھے۔ مورڑو کے یہ چھے بھائی بڑے بہادر تھے۔ ان کا ٹولا میانی میں چھگیر (چھ کی منڈلی) کے نام سے مشہور تھا۔ یہ تمام بھائی شکار کرتے تھے جب کہ مورڑو لنگ کے باعث گھر کی رکھوالی کیا کرتا تھا۔

ساتوں بھائی متاہل تھے۔ مورڑو کی بیوی جب بھی ان کی بھابیوں سے شوہر کا حصہ لینے جاتی تو وہ اسے بے حد مطعون کرتیں، کیوںکہ مورڑو فراخ دل و فراخ دست انسان تھا۔ ایک بار انہوں نے اس سے کہا،’’تیرا شوہر کماتا وماتا تو کچھ نہیں لیکن بھائیوں کی کمائی سے لوگوں کو کھلا پلا کر سخی کہلاتا پھرتا ہے۔‘‘

مورڑو کی بیوی نے جواباً کہا،’’مورڑو مفت کی روٹیاں نہیں توڑتے، وہ بھائیوں کے پیچھے گھر سنبھالے ہوئے ہیں۔‘‘ اس پر بھابیوں نے مزید استہزا کیا،’’لوجی اب لنگڑے بھی گھر سنبھالنے لگے ہیں۔‘‘

اس بے چاری نے آکر شوہر کو دہائی دی،’’تیری بھابیاں مجھے تیرے نکمے اور معذور ہونے کی طعن دیتی ہیں۔‘‘

مورڑو نے غصہ سے کہا،’’تم ان معاملات میں کیوں پڑتی ہو۔ میں جانوں میرے بھائی جانیں۔‘‘

لیکن ایک دن اس نے اپنے کانوں سے بھابیوں کے طعن سن لیے تو ناراض ہوگیا اور اگلی صبح جال اٹھا کر شکار پر نکل پڑا۔ بہن کو جب پتا چلا تو دوڑ کر دیگر بھائیوں کے پاس پہنچی اور ان کو مطلع کیا کہ،’’بھائیو، بھابیاں مورڑو کو طعنے دیتی رہتی ہیں سو وہ آج شکار کو نکل گیا ہے۔‘‘ سوتیلے بھائی مورڑو سے بہت پیار کرتے تھے سو وہ لپک کر اس کے پاس پہنچے اور اسے قسمیں و قرار دے کر واپس لے آئے۔ اگرچہ اس کے بعد کچھ دن بہ عافیت گزرے لیکن آخر ایک دن بھابیوں نے پھر کہیں مورڑو کی سخاوت کی تعریف سنی تو ان سے رہا نہ گیا اور بول پڑیں،’’پرائے مال پر سخاوت کرتے اسے شرم تک نہیں آتی؟‘‘ اس طعنے کے بعد مورڑو سخت طیش میں آیا اور بیوی کو ساتھ لے کر بادشاہ وقت دِلورائے کی نگری کی طرف چل پڑا۔ اس بار بھی بھائیوں نے اسے روکنے کی بڑی کوشش کی لیکن اب اس نے ان کی بات مان کر نہ دی۔

دلورائے کی نگری میں مورڑو کرائے کے مکان میں رہنے لگا۔ ایک بار اسے شکار پر جاتا دیکھ کر بادشاہ نے پہچان لیا کہ یہ تو اوبھائے کا بیٹا ہے، کہ جس نے کسی وقت ان کی نگری میں لوگوں کو تنگ کرنے والے ایک خطرناک مگرمچھ کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔ سو اس نے مورڑو کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا اور اس کی اقامت کا بھی بندوبست کردیا۔ مورڑو اس بستی میں اطمینان سے رہتا تھا کہ ایک بار بادشاہ کے علاقے میں کہیں سے ایک شیر آگیا اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے لگا۔ تب بادشاہ نے اعلان کیا کہ،’’جوبھی اس شیر کو مارے گا وو اس منہ مانگا انعام دیں گے۔‘‘

لیکن شیر کی ہیبت کے باعث کوئی بھی اس پر آمادہ نہ تھا۔ آخرکار مورڑو نے اس کو ٹھکانے لگانے کی ٹھانی، وہ بادشاہ سے گویا ہوا،’’بادشاہ سلامت مال اور دولت کی بندے کے پاس کوئی کمی نہیں۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں لوگوں کے سر سے اس بلا کوٹالنے کی کوشش کروں؟‘‘ بادشاہ معذوری کی باوجود مورڑو کی موروثی شجاعت سے متاثر تھا اس لیے اس نے اسے بخوشی اس کی اجازت دے دی اور خود کچھ فاصلے سے تماشا دیکھنے پہنچ گیا۔

مورڑو شیر کی کچھار پر پہنچا تو شیر ایک انسان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر غصہ سے گرج کر اس پر حملہ آور ہوا لیکن مورڑو نے پھرتی سے اپنی ڈھال سامنے دے کر گھنگرو چھنکا کر اوپر کی طرف اچھالے تو شیر حیران پریشان ہوکر گھنکروؤں کی طرف متوجہ ہوا اور مورڑو نے اسی غفلت کا فائدہ اٹھا کر تلوار کے ایک ہی وار سے اس کی گردن اڑادی۔

اس کے بعد مورڑو کا شہرہ ملک کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔ بادشاہ نے کہا،’’جو چاہو سو مانگ لو۔‘‘مورڑو نے عاجزی سے کہا،’’بادشاہ سلامت میرے پاس تو کسی چیز کی کمی نہیں، اگر میرے بھائیوں پر محصول معاف کیا جائے تو نوازش ہوگی۔‘‘

بادشاہ نے فوراً حکم جاری کیا اور محصول معاف کردیا گیا۔

اس کے بعد مورڑو بھائیوں سے ملنے کو گیا اور کچھ دن گزار کر جب واپسی کی اجازت لی تو والد نے اسے روکنا چاہا مورڑو نے انہیں کہا،’’بابا بادشاہ سلامت کے ہم پر بڑے احسانات ہیں اور وہ مجھ پر بہت زیادہ اعتماد بھی کرتے ہیں۔ سو مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں ان کی خدمت سے منہ موڑ لوں۔‘‘ یوں باپ کی اجازت سے وہ بادشاہ کے پاس لوٹ آیا۔

دوسری طرف مورڑو کے بھائی جو اب محصول کی معافی اور سمندر میں گھومنے کی آزادی کے باعث پہلے سے زیادہ جری اور پُراعتماد ہو چکے تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ کلاچی کے کن (یعنی کلاچی کا بھنور) کے طرف جا کر شکار کریں گے جہاں ایک خطرناک مگر مچھ کے باعث لوگوں نے آناجانا ہی چھوڑ دیا تھا۔

’’کلاچی جوکن‘‘ساحل سے چند میل پرے گہرے سمندر میں ایک خوف ناک بھنور تھا جس کو سیکڑوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی ساحلی بستیوں کے لوگ کلاچی جو کن کہتے تھے اسبھنور میں بھولی بھٹکی کشتیاں وغیرہ ڈوبتی رہتی تھیں، جب کہ اسی کن کے قریب مانگر مچھ کا بھی ٹھکانا تھا۔

اوبھائے کو جب ان کے ارادوں کا علم ہوا تو انہوں نے بیٹوں کو نصیحت کی،’’بچو! وہ مگرمچھ تو پہاڑ سا عفریت ہے اور عافیت اسی میں ہے کہ تم وہاں پھٹکو تک نہیں!‘‘

لیکن بیٹوں نے ان کی بات نہ مانی تو والد نے مورڑو سے شکایت کی۔ اس نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا کہ،’’ابا کی بات مانیں وہ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد بھائیوں نے بظاہر اپنا ارادہ تبدیل کردیا لیکن ایک دن موقع دیکھ کر وہ چند باہمت ملاحوں کے ساتھ کلاچی جو کن کی طرف روانہ ہوئے۔ بعد ازاں دیگر ساتھی تو بہت سا شکار کر کے لوٹ گئے لیکن ان کا جال مگرمچھ کے پنجے میں آگیا۔ یہ سمجھے کہ جال پانی میں کہیں اٹک گیا ہے اور تمام بھائیوں نے بہت زور لگایا لیکن مگرمچھ جال کو یوں پکڑے تھا کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

آخر بڑے بھائی نے کہا،’’بھائیو! میں پانی میں جاکر جال چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اگر واپس نہ آسکا تو تم لوگ میری اور جال کی فکر چھوڑ گھر لوٹ جانا۔‘‘

بھائیوں نے اس کی بات مان لی اور وہ پانی میں اتر گیا۔ بہت دیر کے بعد بھی جب وہ نہ لوٹا تو باقی بھائی بھی ایک دوسرے کو واپس جانے کی تاکید کرتے یکے بعد دیگرے پانی میں اترے اور مگرمچھ نما عفریت کا لقمہ بنتے گئے۔ پھر کوئی بھی زندہ کنارے پر نہیں لوٹا۔

تمام شکاریوں کے لوٹنے کے بعد بھی جب مورڑو کے بھائی نہیں لوٹے تو اوبھایوپریشان ہو گیا۔ اس نے لوگوں سے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے بیٹے تو کلاچی جو کن میں شکار کو گئے ہوئے ہیں۔

صبح کو سب ان کی تلاش میں نکلے اور کن کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ بھائیوں کا تو نام نشان تک نہیں۔ سمجھ گئے کہ تمام بھائی مگرمچھ کا لقمہ بن گئے ہیں۔ اوبھایو روتا پیٹتا لوٹا۔ اور مورڑو کو پیغام بھیجا۔ مورڑو تمام مصروفیات ترک کر بادشاہ سے اجازت لے کر گھر آیا اور قصد کیا کہ مچھ سے بھائیوں کا بدلہ لے کر رہے گا۔ باپ نے دہائی دی کہ،’’بیٹا اب ہمارا سہارا تو تم ہی ہو۔ تمہارے بنا ہم کیسے جییں گے؟‘‘

مورڑو نے جواب دیا،’’بابا! خدا پر بھروسا رکھ کر مجھے اجازت دیں کہ میں یہ کام کرسکوں۔ اور میں یہ مقابلہ جذباتی ہو کر نہیں بلکہ عقل ودانش سے کروں گا۔‘‘ پھر اس نے والد اور دیگر کو اپنا منصوبہ بتایا تو سب متفق و مدد کے لیے آمادہ ہوگئے۔

مورڑو نے ایک آہنی پنجرہ تیار کرایا جس کے باہر کی طرف آہنی کنڈے اور بڑی بڑی نوک دار کیلیں لگائی ہوئی تھیں۔ ہر کنڈے میں ریشمی رسے بندھے ہوئے تھے جو کہ کتنی ہی بیل گاڑیوں کے جووں (یوک) سے بندھے ہوئے تھے۔ اس اہتمام کے ساتھ وہ سب کلاچی جو کن پر پہنچے اور وہاں پہنچ کر مورڑے نے پنجرے میں بیٹھ کر دوستوں سے کہا،’’اس پنجرے کو پانی میں پھینکو اور جب میں رسوں کو ہلاؤں تو اسے کھینچ کر باہر نکال لینا۔‘‘

اس پنجرے کو بہ حفاظت پانی میں اتارا گیا۔ مگرمچھ بھی اپنا بھاڑ سا منہ پھاڑے تیار بیٹھا تھا اس نے مورڑو سمیت پنجرے کو نگلنے کی کوشش کی تو پنجرے میں ابھرے کنڈے اور کیلیں اس کے جبڑوں میں گڑگئیں۔ یوں وہ کسی مچھلی کی طرح پھنس گیا۔ اب مورڑو نے رسے ہلائے تو ساحل پر موجود دوستوں نے بیل گاڑیوں میں جتے ہوئے بیلوں کی پشت پر رکھی تیل میں بھیگی دھجیوں کو آگ دکھا دی۔

آگ کی تپش کے باعث گھبرا کر بیل پوری قوت سے ایک طرف کو بھاگے اور اس طرح آہنی پنجرہ مگرمچھ سمیت ساحل پر کھینچ لایا گیا۔ اب بیلوں کو آزاد کردیا گیا اور مورڑو کو بھی صحیح سلامت پنجرے سے نکال لیا گیا۔ اس کے بعد مشتعل لوگوں نے جس کے ہاتھ جو ہاتھ آیا اسی سے مگرمچھ پر حملہ کردیا۔ یہاں تک کے اس کی جان لے لی۔ آخرکار مگرمچھ کا پیٹ چاک کرکے اس میں سے بھائیوں کی مسخ شدہ لاشوں کو نکالا گیا اور اس جگہ دفنایا گیا جہاں یہ آج موجود ہیں۔

دلورائے بادشاہ نے مورڑو کے اس کارنامے پر خوش ہوکر سون میانی اس کے خاندان کو بہ طور جاگیر عطا کردیا۔

یوں مگرمچھ کا قصہ تو تمام ہوا لیکن افسوس یہ ہے کہ موہن جو دڑو کی طرح ہی مورڑو برادران کی قبور کو حکومتوں اور حکام نے نظرانداز کر چھوڑ دیا ہے، جب کہ یہ قبور اور اس وابستہ تاریخی داستان شجاعت اس کے متقاضی ہیں کہ یہ مرجع خلائق نہ ہوکر بھی مرجع سیاحت ضرور ہونی چاہییں۔ ہمارے خیال میں لاشوں پر سیاست کرنے سے کہیں بہتر ہے شہیدوں پر سیاحت کا اہتمام کیا جائے۔ خاص طور اس وقت جب کہ ماڑی پور ہاکس بے روڈ کی تعمیر ہو رہی ہے تو لگے ہاتھوں وفاق اور صوبے کی متعلقہ وزارتیں، محکمے اور ادارے مورڑو کے مزار اور مورڑو برادران کی قبور کی سابق حیثیت بحال کر انہیں سیاحتی مرکز کی حیثیت دلا کر ملک کی شہرت اور زرمبادلہ میں اضافہ کا ذریعہ بنائیں۔

ماخذ:
الف) شاہ جو رسالو _ہوتچند مولچند گربخشانی۔
ب) مورڑو ائیں مانگر مچھ، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، سندھی ادبی بورڈ.
ج) مضمون: مورڑے سے ماری پور تک: مختیار آزاد ڈان اردو۔
ہ) ’’ javedch.com
و) https://ift.tt/2SHW8Zn
/Sindh-province-Pakistan
ز) https://ift.tt/3wHtqqr
ح)سندھ جی سامونڈی تاریخ جو سرتاج ، مضمون از آصف رضاموریو https://ift.tt/g8FRpY
/asif.r.morio/posts/4204547469557796

The post مورڑو میربحر کی داستانِ شجاعت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3wLXC3w

بُک شیلف

’’عمران سیریز‘‘ پر ایک تجزیاتی اشاعت
زیرتبصرہ ’جلد‘ راشد اشرف کے 2016ء میں شروع کیے گئے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کی ’سینچری اشاعت‘ ہے، یعنی شمار نمبر 98، 99 اور 100۔ یہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس میں نام وَر مصنف ابن صفی کی مشہور زمانہ ’عمران سیریز‘ کے تین ناول دل چسپ حادثہ، بے آواز سیارہ اور ڈیڑھ متوالے شایع کیے گئے ہیں۔

460صفحاتی اس ’جلد‘ میں 363 صفحات تک یہ تین تحیر انگیز ناول دراز ہیں، اس کے بعد تقریباً 80 صفحات پر ’ڈیڑھ متوالے‘ سیریز کا تجزیاتی مطالعہ اور قارئین کی آرا، تجزیے، اداریے اور تبصرے وغیرہ شامل کیے گئے ہیں، جس میں راشد اشرف، ڈاکٹر صابر حسین، محمد حنیف، ڈاکٹر خالد جاوید، محمد عمیر صدیقی، شمس الرحمن علوی، تبسم حجازی، عباس حسینی وغیرہ شامل ہیں، یوں تحقیقی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔۔۔ جب کہ آخری 16 صفحات میں ابن صفی کے صاحب زادے ابرار صفی کا ایک انٹرویو بھی کتاب کی زینت بنایا گیا ہے، جس میں انھوں نے اپنے والد سے متعلق گفتگو کی ہے۔

یوں یہ صرف ابن صفی پر ایک مکرر اشاعت نہیں، بلکہ اپنے ساتھ تاثرات اور تجزیوں کے اہم لوازمات بھی لیے ہوئے ہے، جو اس موضوع کے محققین کے لیے بھی دل چسپی کا باعث ہے۔ اس دیدہ زیب اشاعت کا اہتمام اٹلانٹس پبلی کیشنز (0300-2472238 021-32581720) نے کیا ہے، اس کتاب میں ابن صفی کی کچھ تصاویر بھی شامل ہیں، قیمت 890 روپے ہے۔

رواں اسلوب کے خاکے
’خاکے‘ کہنے کو شخصی مضامین کی ایک ایسی شکل کا نام ہے، جس میں لفظوں کے ذریعے مذکورہ شخصیت کا نقشہ تحریر میں ’عکس بند‘ کیا جاتا ہے، لیکن ’خوش نفساں‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے احساس کچھ اس کے سوا ہوتا ہے، ایک تو زمانۂ حال سے زیادہ پرے نہ ہونے کے سبب ’تازگی‘ کا تاثر موجود ہے۔

راشد اشرف عموماً اپنے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ میں اردو کی نادر و کم یاب کتب شایع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن امجد علی شاکر کی یہ کتاب ’زندہ کتابیں‘ کے ذریعے پہلی بار منصۂ شہود پر آئی ہے۔ اس کتاب میں شامل خاکوں کا اسلوب رواں اور براہ راست ہے۔۔۔

اگرچہ کہیں کہیں پنجابی کے فقرے بھی خاکوں کا حصہ ہیں، لیکن مجموعی طور پر اخباری کالموں جیسا سہل انداز ملتا ہے، کہیں کہیں پر تو خاکے کی پیش کش اور اس کے ابتدائیے سے ’فیچر‘ جیسا تاثر جھلکتا ہے۔۔۔ خاکوں میں مختلف دل چسپ واقعات اور قابل ذکر تاریخی حوالوں کی خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔۔۔ موضوعِ سخن بننے والے تمام احباب ہی ادب، تحقیق اور لکھنے لکھانے والوں کی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس لیے پوری کتاب میں یہی رنگ غالب ہے۔۔۔ ڈاکٹر رشید احمد جالندھری سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ عبداللہ ملک، ڈاکٹر سلیم اختر، نند کشور وکرم، ابو سلمان شاہ جہاں پوری، آپا صدیقہ بیگم اور ناصر زیدی تک دراز نظر آتا ہے۔ آخر میں صداقت صاحب، بھوت لکھاری، بٹ وبٹ اور پاسنگ شو جیسے خاکے تو گویا کتاب کے اندر ایک کتاب کے مترادف ہیں۔ بالخصوص ’بھوت لکھاری‘ کے ذیل میں جس طرح نام وَر لوگوں کے لیے لکھنے والے کردار کو قارئین تک پہنچایا گیا ہے، وہ بلاشبہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ 250 صفحاتی اس دل چسپ کتاب کی قیمت 400 روپے ہے، اشاعت کا اہتمام فضلی سنز، کراچی (03353252374، 021-32629724) سے کیا گیا ہے۔

آدم خور، جم کوربٹ اور ہندوستان
جم کوربٹ کی تین کتب ردر پریاگ کا آدم خور چیتا، کمائوں کا آدم خور اور مندر کا شیر پہلی بار بالترتیب 1948ء 1944ء اور 1954ء میں شایع ہوئیں۔ اب راشد اشرف کی ’زندہ کتابیں‘ سلسلے کے تحت منظر عام پر آئی ہیں۔ پہلی کتاب کے مترجم جاوید شاہین، جب کہ باقی دونوں کتابوں کا ترجمہ منصور قیصرانی نے کیا۔

جم کوربٹ اس میں حسب روایت شکار اور شکاری کے حوالے سے نئی نئی معلومات فراہم کرتے ہیں، جنگل کے آثار اور مختلف علامات کے ذریعے ’شکار‘ کی کیفیت اور رفتار وغیرہ کا اندازہ لگانے سے لے کر عام چیتے اور آدم خور چیتے کو شکار کرنے تک مختلف استدلال بھی اس کتاب میں شامل ہیں، جیسا کہ یہ کہ ’شیر کا قدرتی کردار فطری توازن برقرار رکھنا ہے، وہ حالات سے مجبور ہوکر ہی ’آدم خوری‘ کی طرف آتا ہے۔ ان وجوہات میں عمر رسیدہ ہونا یا شکار کی کسی کوشش میں زخمی ہونا شامل ہے‘ جم کوربٹ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ جنگل میں دیگر چرند پرند کی آوازوں سے کس طرح اپنے لیے مختلف اشارے پاتے تھے۔

یہ سب مختلف مہم جوئیوں کے ساتھ اِس ایک جلد میں یک جا ہے۔ چوں کہ جم کور بٹ ہندوستان میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے اس لیے ہندوستان کے حوالے سے ان کے تجربات بھی ان کی دیگر تصنیفات کی طرح ہمیں یہاں بھی ملتے ہیں۔

فلیپ پر جم کور بٹ کا یہ مختصر سا تعارف بھی موجود ہے کہ انھیں برطانوی ہندوستانی فوج میں کرنل کا عہدہ دیا گیا تھا، چوں کہ ہندوستانیوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ تھی، اس لیے انھیں متعدد بار آدم خور چیتوں اور شیروں کے شکار کے لیے بلایا گیا۔ 1907ء تا 1938ء انھوں نے متعدد آدم خوروں کو ہلاک کیا، جس کی بنا پر انھیں کافی شہرت حاصل ہوئی اور لوگ انھیں سادھو کہنے لگے۔ وہ 1955ء میں کینیا میں وفات پا گئے، 1957ء میں ان کے اعزاز میں ہندوستان نے کمائوں کے علاقے میں قائم قدیم ترین نیشنل پارک کو جم کوربٹ سے منسوب کر دیا۔ یہ کتاب فضلی سنز، کراچی (03353252374، 021-32629724) سے شایع کی گئی ہے۔

انسانی جذبات میں گُندھے افسانے
ان افسانوں کے موضوعات انسانی جذبات سے شروع ہوتے ہیں اور ہجر اور وصل کے روایتی جذبوں کی اوٹ سے ہوتے ہوئے سماجیات اور آدم خوری جیسے انتہا تک پہنچ جاتے ہیں، مذکورہ افسانوں کے مجموعے ’من تراش‘ کے مصنف اختر شہاب لکھتے ہیں کہ وہ 1980ء سے کہانیاں لکھ رہے ہیں، لیکن انھیں جمع کرنے کا خیال نہیں آیا۔ اب مختلف اداروں اور محکموں کی ’مٹر گشت‘ کرنے کے بعد انھوں نے اس جانب توجہ فرمائی ہے، انھیں یہ بھی فکر دامن گیر ہے کہ کہیں یہ کتاب کبھی ردی کے ٹھیلے پر نہ پہنچے، بس جہاں بھی پہنچے وہ اسے پڑھے ضرور۔۔۔ ان کی اولین کتاب میں چھان پھٹک کر 18 افسانے شامل کیے گئے ہیں، دوسرے مجموعے پر کام جاری ہے۔ ان افسانوں پر اظہارِخیال کرتے ہوئے مدیر سرگزشت پرویز بلگرامی رقم طراز ہیں ’’مجھے تو وہ اپنے ہر افسانے میں خود نظر آتے ہیں۔

ایک سادہ سا، محبت کرنے والا، دردِدل رکھنے والا انسان۔ انھوں نے احساسات اور کیفیتیں بھی عالی قدر پائیں۔ جن موضوعات کا انتخاب کیا، ان میں بیش تر ان کی نفسی اور ذاتی کیفیتوں کے آئینہ دار محسوس ہوئے۔ دردِغم، درماں نصیبی، حسرت ویاس، تنہائی فراق، عہدِ ناسپاس، بازی گرانِ سیاست، ان کی دھوکا دہی، سب گلے شکوے یک جا ہیں ان کی کہانیوں میں۔ اور یہی ایک اچھے قلم کار کی خوبی کہلاتی ہے۔‘‘ کتاب پر اظہارخیال کرتے ہوئے محمد تقی لکھتے ہیں کہ ’’جیسے دنیا کے بہترین افسانہ نگاروں نے بہ ذریعہ افسانہ انسانی ذہن کی نہ صرف آب یاری کی، بلکہ قاری میں فکر متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اسی طرح اختر شہاب کے افسانے بھی قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔‘‘ کتاب کی ضخامت 248 صفحات، ناشر رنگ ادب پبلی کیشنز (03452610434, 0213271100) اور قیمت 700روپے ہے۔

سہل عروض میں منضبط کلام

کشتی کو لے کے جائے کنارے پہ دوستو
رستے میں جو ڈبوئے وہ دریا نہیں ہوں میں

مصرع ثانی سے اپنے شعری مجموعے کا عنوان اخذ کرنے والے احمد مسعود قریشی زمانۂ طالب علمی سے ہی کچھ شاعری کی طرف مائل تھے، لیکن ’عروض‘ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ’کلام‘ کے اوزان کی خبر نہ تھی، بعد میں انھوں نے شاعری کے اوزان پڑھے، جس کے نتیجے میں ان کی شاعری باقاعدہ منضبط ہوئی؎

لوگوں نے جانے کیسے فسانے بنا لیے
دعوت میں اس کو میں نے بلایا تھا اور بس

وہ لکھتے ہیں کہ ’فیس بک‘ کی دنیا نے انھیں شاعری کی طرف مائل کیا اور یوں پھر ان کی شاعری اب کتابی صورت میں سامنے آئی ہے۔ ان کے والد مقبول قریشی بھی شاعر اور کالم نگار تھے اور ان کے دو مجموعے کلام بھی شایع ہوئے۔ زیرتبصرہ کتاب ’دریا نہیں ہوں میں‘ کو اگر ایک دو لفظوں میں بیان کیا تو وہ سہل ممتنع ہوگا، جسے اختیار کرتے ہوئے بہت آسان ڈھب پر مختلف مضامین آراستہ کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر فرحت عباس لکھتے ہیں ’’ وہ اپنی نفسیات اور خیالات کے امتزاج سے غنائیت سے بھرپور نشاطیہ، حزنیہ اور عشقیہ شاعری کرتے ہوئے ملتے ہیں، ان کے ہاں خیالات کا بہائو روایتی ہوتے ہوئے بھی ہلکی پھلکی جدت کے در کھولتا ہے۔‘‘ 114 صفحاتی اس کتاب کی شروعات حمد ونعت سے ہوتی ہے اور تقریباً کتاب میں غزلیں شامل کی گئی ہیں۔۔۔ پی بی ایچ پرنٹرز، لاہور سے شایع ہوئی ہے، (03218717729) قیمت 300 روپے ہے۔

ماضی کی تلخ وترش بازگشت


بریگیڈیئر محمد اسمعٰیل صدیقی کی آپ بیتی اور خاکوں پر مشتمل دو کتابیں ’لخت لخت داستان‘ اور ’دھند اور دھنک‘ راشد اشرف نے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت یک جا کی ہیں۔ مصنف نے شروعات اپنی والدہ سے کی ہے اور ان کی زندگی کا تکلیف دہ احوال بلا کم وکاست بیان کر دیا ہے، اُن کی والدہ کی پُرمشقت زندگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سِل بٹّے پر مسالا پیستے پیستے ان کے ہاتھوں سے خون بہہ بہہ کر مسالے میں ملنے لگتا تھا۔۔۔! اُن کی زندگی کی دیگر تلخیاں اس کے سوا ہیں۔

اس کتاب میں منشی تلوک چند محروم کا تذکرہ بھی ہے، جن سے مصنف کو زانوے تلمذ طے کرنے کا شرف ملا۔۔۔ اُن کی ہندوستان ہجرت کے احوال سے ان کی کلاس میں بٹوارے کے ہنگام میں پیدا ہونے والے کچھ رویے بھی مذکور ہیں کہ کس طرح کچھ جذباتی طلبہ نے حاضری کا جواب دیتے ہوئے ’جے ہند‘ کہنا شروع کیا تو جواباً مسلمان طلبہ بھی ’لبیک‘ کہنے لگے۔۔۔ اس طرح اگلے صفحات میں کرنل محمد خان، جنرل شفیق الرحمن، عبدالرحمن چغتائی سمیت 20 سے زائد شخصیات کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔

متحدہ ہندوستان کی بازگشت موجود ہونے کے باوجود مصنف کے سرحد کے اِس طرف ہونے سے 1947ء کے زمانے میں یہاں کی خاصی سن گن ملتی ہے۔ 482 صفحاتی جلد میں پہلی کتاب 288 صفحات تک دراز ہے، جب کہ اگلی کتاب کے مشمولات میں 11 مضامین شامل ہیں، جو ان کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہیں، مختلف جنگی محاذوں سے لے کر بہت سے عالمی تنازعات اور ان کے اثرات پر مواد موجود ہے۔ یعنی اس حصے میں فوجی نظم ونسق اور عسکری زندگی سے لگائو رکھنے والوں کی دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ اشاعت کا اہتمام فضلی سنز نے کیا ہے۔ قیمت 700 روپے ہے۔

دو تاریخی وتہذیبی دستاویزات


شاہد احمد دہلوی کی وفات کے بعد 1970ء میں ان کے رسالے ’ساقی‘ نے ’شاہد احمد دہلوی نمبر شایع کیا، جسے جمیل جالبی نے مرتب کیا، 50 برس پرانی اس تہذیبی دستاویز کو راشد اشرف نے مجلد جامے میں ’زندہ‘ کیا ہے۔۔۔ جس میں خاص طور پر صاحب زادگان شاہد احمد دہلوی محمود احمد اور مسعود احمد کی یادداشتیں بھی شامل کی گئی ہیں۔

باقی پورا شمارہ وہی ہے، جس کی قدیم کلاسیکی کتابت سے اگرچہ قارئین کو تاریخی شمارے کا عکس تو میسر ہو جاتا ہے، لیکن کہیں کہیں طباعت ہلکی ہونے کے سبب جی چاہتا ہے کہ کاش اس کی ازسرنو برقی کتابت (کمپوزنگ) کرا لی جاتی، تو سونے پہ سہاگہ ہوجاتا۔۔۔ لیکن مجموعی طور پر اس کی طباعت بہترین ہے۔ اس شمارے میں اشرف صبوحی، رازق الخیری، حجاب امتیاز علی، ن۔م راشد، ابوالفضل صدیقی، وقار عظیم، احمد ندیم قاسمی، ماہر القادری، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، ابن انشا، تابش دہلوی، جمیل جالبی، ملا واحدی، حکیم محمد سعید، مختار زمن، اسلم فرخی، سید انیس شاہ جیلانی اور دیگر مشاہیر کے رشحات قلم شامل کیے گئے ہیں۔۔۔ 368 صفحات تک یہ سلسلہ ہے۔

اس کے بعد شاہد احمد دہلوی کی مختلف تحریریں ہیں، جس میں ان کی کتاب ’اجڑے دیار‘ کے کچھ مضامین، دلی کی بپتا، کچھ خاکے اور چند خطوط بھی اس یادگار شمارے کی زینت ہیں۔ رئیس امروہوی کی شرکت ’قطعہ‘ کی صورت میں ہے۔ شاہد احمد دہلوی کو دلی اور دلی والوں پر سند قرار دیا جاتا تھا، احباب نے ان کے بچھڑنے کو دلی سے بچھڑ جانے سے تعبیر کیا، کیسی تہذیب اور رکھ رکھائو والی شخصیت تھی کہ جس کے بارے میں پڑھیے تو پڑھتے ہی چلے جائیے۔۔۔ شاہد احمد دہلوی کی دلی اور دلی سے ہجرت تو ایک طرف ان کی فنِ موسیقی سے لگن کو دیکھیے تو یہ بالکل ایک الگ دشا ہے اور پھر ساقی کا ذکر کیجیے تو وہ یک سر ایک الگ ہی باب ہے۔۔۔ فضلی سنز (03353252374، 021-32629724) سے شایع ہونے والی 370 صفحات کی اس ثقافتی اور تہذیبی دستاویز کی قیمت 1600 روپے ہے۔

افکار کے ’جوش نمبر‘ میں شاہد احمد دہلوی نے بھی جوش ملیح آبادی کا ایک خاکہ لکھا، جس کے جوابی مضمون میں جوش صاحب نے شاہد احمد دہلوی کے والد بشیر الدین اور دادا ڈپٹی نذیر احمد تک کی اردو پر تنقید کر ڈالی۔ پھر اس کے جواب میں شاہد احمد دہلوی نے ’ساقی‘ کے ’جوش نمبر‘ کا اہتمام کیا، جو ’زندہ کتابیں‘ کے تحت دوبارہ شایع ہو چکا ہے۔ اب ’افکار‘ کا مذکورہ ’جوش نمبر‘ بھی شایع کیا گیا ہے۔ صہبا لکھنوی کے اس رسالے کی تیاری میں پورا ایک سال صرف ہوا اور اس کی فہرست کے ساتھ یہ جملہ درج کیا گیا ہے کہ ’یہ سارے مضامین، نظم ونثر براہ راست حاصل کیے گئے ہیں اور پہلی بار شایع ہوئے ہیں۔‘

جوش صاحب کی نئی نظمیں اور انتخاب بھی اس خاص شمارے کا حصہ ہے۔ اُن کے شعری محاسن پر بھی سیر حاصل کلام موجود ہے۔ جو ش ملیح آبادی اردو ادب کے ایک عہد کا نام تھا، اور اس خاص شمارے کے ذریعے بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ جا بہ جا جوش کے ہاتھ کے لکھے ہوئے عکسی خطوط بھی اس شمارے کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی، شاہد احمد دہلوی، ماہر القادری، سلام مچھلی شہری، پروفیسر حنیف فوق، جمیل جالبی، خواجہ حمید الدین شاہد، پنڈت سوز ہوشیاری پوری ودیگر کے قلم سے ادا ہونے والے جوش صاحب کے خاکے بھی مشمولات میں شامل ہیں۔ 736 صفحات کی یہ مجلد تاریخی دستاویز بھی 1600 روپے میں دست یاب ہے۔

آثارقدیمہ اور تاریخی مٹرگشت
آپ نے سیاحت، ثقافت، سماجیات اور آثار قدیمہ جیسے مخصوص موضوعات پر دل چسپ مضامین روزنامہ ایکسپریس کے انھی صفحات پر پڑھے ہوں گے، یعنی آپ کے لیے ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری کا نام نیا نہیں ہے۔۔۔ وہ تاریخ کے پنوں سے انھی موضوعات پر نت نئی، غیرمعروف اور بعض اوقات حیرت انگیز معلومات نکال کر لاتے ہیں اور انھیں دل چسپ مضامین میں پروتے ہیں، یہ کتاب ان کے کچھ ایسے ہی مضامین کا مجموعہ ہے۔

دریائے جہلم، ملک کے مشہور پارک، نوروز کا تہوار، چنیوٹ کا تاج محل، پاکستان کی معدوم ہوتی ہوئی زبانیں، برجوں اور فصیلوں میں ڈھلی ہوئی تاریخ وغیرہ جیسے مندرجات پر نگاہ ڈالیے، تو بہ یک وقت یہ ہمارے ملک کے اہم مقامات کی سیر ہی نہیں کراتے، بلکہ طالب علموں کے لیے بھی اہم معلومات فراہم کرتے ہیں، چھوٹی چھوٹی سرخیوں تلے لکھے گئے متن سے بالکل ایسا لگتا ہے کہ جیسے تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے کسی طالب علم کو بہت سہل کر کے چیزیں سمجھائی گئی ہوں۔

ڈاکٹر عظیم شاہ بخاری کی اولین تصنیف کا عنوان صاحبِ کتاب کے ’فیس بک‘ کے صفحے سے مستعار لیا گیا ہے، کتاب میں شامل 15 مضامین میں دو مضامین بیرون ملک سے متعلق بھی ہیں۔۔۔ 127 صفحاتی کتاب کی قیمت 500 روپے ہے، اشاعت ’علی میاں پبلی کیشنز، لاہور سے ہوئی ہے، کتاب حاصل کرنے کے لیے فون نمبر 03302244374 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2RNuqL1

چوہدری خلیق الزماں

چوہدری خلیق الزماں کی شخصیت اُن قدآور سیاست دانوں میں نمایاں نظر آتی ہے جن کی سوچ اور افکار ان کے دور میں موضوعِ بحث بنے رہے۔

اس مختصر مضمون میں چوہدری صاحب کی زندگی کا مطالعہ ممکن نہیں لیکن ان کی سیاسی کارکردگی کا اجمالی جائزہ اس مضمون کی غرض وغایت ہے، جس میں 1962ء سے 1971ء کا دور نمایاں ہے۔ بنگلادیش کے صدرمملکت کی سرکاری ویب سائٹ پر پاکستان کے قیام کے بعد سے سویلین ادوار میں مشرقی پاکستان میں جو گورنر تعینات رہے ہیں ان کا مختصر پروفائل(Profil) پیش کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں چوہدری خلیق الزماں کے دورِگورنری کو پُرتحسین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اس میں ان کی ملی زندگی کے آغاز میں ان کی خدمات کا ذکر موجود ہے، جس کی ابتدا ترکی اور یورپ کے درمیان ہونے والی جنگ بلقان سے ہوتی ہے، جس کے دوران چوہدری صاحب ا س میڈیکل مشن میں بحیثیت سیکریٹری شامل تھے جس نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی سربراہی میں ترکی میں دوران جنگ طبی امداد کے لیے کیمپ لگایا تھا۔

مذکورہ ویب سائٹ پر چوہدری خلیق الزماں کے حوالے سے یہ بات بھی درج ہے کہ انہوں نے گورنر ہاؤس میں غیرملکی اشیائے خورونوش پر پابندی عائد کردی تھی اور تواضع کے لیے مقامی اشیاء کے ساتھ ساتھ ’’پان‘‘ استعمال کیا جاتا تھا۔ نیز اس دور میں ان کی شریک حیات بیگم زاہدہ خلیق الزماں نے گورنر ہاؤس میں میلادالنبیﷺ کا سلسلہ جاری کیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بحیثیت گورنر ان کے دور میں ہونے والے شفاف انتخابات کے نتیجے میں حکم راں جماعت مسلم لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کی جگہ مختلف جماعتوں کے اتحاد نے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی تھی۔

اس موقع پر پاکستان کی مرکزی حکومت خاص طور پر گورنر جنرل اسکندر مرزا انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ مرکزی حکومت نے چوہدری خلیق الزماں کو ہدایت کی کہ وہ صوبے میں گورنر راج نافذ کرکے اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیں اور سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کو اقتدار منتقل نہ کریں لیکن اس موقع پر چوہدری خلیق الزماں نے گورنر راج کے نفاذ سے انکار کرتے ہوئے اس اعلیٰ منصب سے مستعفی ہونے کو ترجیح دی تھی۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا تھا کہ اگر جمہوریت کو جاری رکھنا ہے تو انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کی روایت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

قیام پاکستان سے قبل تحریک خلافت میں چوہدری خلیق الزماں نے مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں غیرمعمولی خدمات انجام دی تھیں جس کی پاداش میں انہیں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ انڈین نیشنل کانگریس نے جب سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو چوہدری صاحب ان سیاسی قائدین میں شامل تھے جن کو تحریک کے قائد کی گرفتاری کی صورت میں ’’آل انڈیا ڈکٹیٹر‘‘ بنایا جاتا تھا جو اپنی گرفتاری تک ان فرائض کو انجام دیتا تھا۔

1937کے انتخابات میں مولانا شوکت علی اور چوہدری خلیق الزماں کی زیرقیادت قائم ہونے والے ’’مسلم یونٹی بورڈ‘‘ نے مسلم نشستوں پر بڑی کام یابی حاصل کی تھی جب کہ ان انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے چوہدری خلیق الزماں کو مسلم یونٹی بورڈ سے مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی تھی جس کے نتیجے میں ’’مسلم یونٹی بورڈ‘‘ کو آل انڈیا مسلم لیگ میں ضم کر دیا گیا تھا، جس کے بعد درحقیقت مسلم لیگ کی نشاط ثانیہ کا وہ دور شروع ہوا جو بالآخر1947میں قیام پاکستان پر منتج ہوا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا شوکت علی اور چوہدری خلیق الزماں کی زیرقیادت مسلم یونٹی بورڈ جس میں تحریک خلافت کی قدآور شخصیات اور کارکنان شامل تھے، آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جس کی وجہ سے مسلم لیگ کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اور وہ مسلمانوں کی مستحکم سیاسی نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آئی۔

قیام پاکستان کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم لیگ کو دو علیحدہ علیحدہ سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہونا پڑا۔ ہندوستان میں اس کو انڈین مسلم لیگ کا نام دیا گیا جب کہ پاکستان میں یہ پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ازسرنو منظم کی گئی جس کے لیے چوہدری خلیق الزماں نے آزادی کے بعد قائم ہونے والی ملک کی اس پہلی سیاسی پارٹی کے چیف آرگنائزر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ بعدازآں چوہدری خلیق الزماں نے انڈونیشیا اور فلپائن میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے تھے۔ فلپائن کی مسلم اقلیت ریاست میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے پاکستان کے سفیر کی خدمات کو لائق تحسین گردانتی تھی۔

انڈونیشیا میں بحیثیت سفیر اپنے قیام کے دوران منعقد ہونے والی تاریخی ہنڈوگ کانفرنس میں چوہدری صاحب نے سیکریٹری کے فرائض انجام دیے تھے۔ اس کانفرنس میں جو اعلامیہ منظور کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں غیرجانب دار عالمی تحریک معرض موجود میں آئی۔ پنج شیلہ کے اصول وضع کیے گئے اور افروایشیائی عوامی استحکام کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا۔ قیام پاکستان میں مسلم لیگ کی صدارت سے فراغت کے بعد چوہدری خلیق الزماں نے پیر علی محمد راشدی، مغرز حسین نقوی وغیرہ کو ساتھ لے کر ’’مسلم پیپلز آرگنائزیشن‘‘ قائم کی تھی جس کا مقصد مسلم دنیا میں عوامی سطح پر اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا تھا۔

1962میں چوہدری خلیق الزماں کی سیاسی زندگی کا ایک اور دور شروع ہوا۔ جب پاکستان میں مارشل لا کے اختتام پر کالعدم سیاسی جماعتوں کی بحالی کا عمل شروع ہوا اور اسی کے ساتھ چوہدری خلیق الزماں کی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ منظرعام پر آئیں۔

ان سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ کی بحالی بھی شامل تھی جو بحالی کے عمل میں دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ چوہدری صاحب کی زیرنگرانی پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ایک پارٹی کی تشکیل نو وقوع پذیر ہوئی جو بعدازآں کنونشن مسلم لیگ کے نام سے پکاری گئی، جب کہ دوسری طرف مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس کے فیصلے کے نتیجے میں جو پارٹی بحال ہوئی اسے کونسل مسلم لیگ کے نام سے جانا گیا، جس کے سربراہ خواجہ ناظم الدین منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد ایبڈوEBDO کی پابندی کی بنیاد پر عملی سیاست میں شرکت سے معذور تھی۔

چوہدری خلیق الزماں نے پارٹی کے چیف آرگنائزر کی حیثیت سے مسلم لیگ کو ازسرنو منظم کیا اور پھر صدر ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ کی صدارت سنبھال لی۔ یہ1962ء کا وہ دور تھا جب عالمی طور پر دنیا سرمایہ دار اور اشتراکی بلاکوں میں منقسم تھی۔ سرد جنگ کے اس زمانے میں افروایشیائی نوآزاد ممالک جن کی ایک بڑی تعداد مسلم ممالک پر مشتمل تھی انہی دو بلاکوں سے متاثر تھے۔ مصر، شام، عراق پر سوویت یونین کا اثر نمایاں تھا جب کہ انڈونیشیا کا جھکاؤ بھی کچھ اسی جانب تھا۔ اس کے برخلاف پاکستان، ایران، ترکی وغیرہ وہ ممالک تھے جو امریکا سے قریب تھے۔

لہٰذا پاکستان میں مارشل لا کے خاتمے کے بعد سیاسی نظام کے لیے دو ہی ممکنات موجود تھے، یعنی کہ ترکی کی مثال کو سامنے رکھا جائے جہاں صدر فوج کی حمایت یافتہ ایک انتہائی بااختیار شخصیت ہوتا تھا اور مملکت کا روزمرہ کا نظام چلانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کی ایک پارلیمنٹ بھی موجود تھی، جس میں اکثریتی پارٹی کے راہ نما کو صدر وزیراعظم مقرر کرتا تھا۔ دوسری طرف اس وقت کی صورت حال میں ایک اور آپشن Option یہ تھا کہ صدارتی طرزحکومت میں جو کہ پہلے ہی1962ء کے آئین کی صورت میں رائج ہوچکا تھا صدرِ مملکت ہی کو براہ راست سیاسی پارٹی سے منسلک کردیا جائے، تاکہ ایک بااختیار صدر کی حیثیت سے وہ بذاتِ خود مملکت کے امور کی انجام دہی کے لیے پارلیمنٹ اور عوام کے کے سامنے جواب دہ ہو۔

چوہدری خلیق الزماں کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے صدر ایوب خان کو دوسرے آپشن کے لیے آمادہ کرلیا اور اس طرح پاکستان میں صدارتی طرزحکومت کے حوالے سے صدرمملکت کی شخصیت سیاسی عمل میں شریک ہوگئی۔ ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے دوسری پارٹیوں کے راہ نماؤں کے زمرے میں آگئے اور اس طرح ایک شخص جس نے طاقت کے بل بوتے پر پاکستان میں اقتدار حاصل کیا تھا عوام کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ محدود جمہوریت کی یہ صورت حال1969ء تک قائم رہی جب25مارچ کو ایوب خان نے اقتدار فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو منتقل کردیا۔ اس اثناء میں 1965ء کے اوائل میں صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کی متنازعہ کام یابی نے صدرایوب کو ایک بار پھر بیوروکریسی پر انحصار کی جانب مائل کردیا اور سیاسی عمل دوبارہ تعطل کا شکار ہو گیا۔

اس دوران چوہدری خلیق الزماں کنونشن مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاسوں میں اور دیگر مواقع پر ایوب خان کو سیاسی عمل جاری رکھنے اور سیاسی پارٹی کی اہمیت اور عوامی رابطے کی ضرورت کی جانب تواتر سے متوجہ کرتے رہے ۔1968ء کے اوائل میں ایوب خان کو بیماری کے غلبے کی وجہ سے جسمانی کم زوری کا سامنا تھا۔

وہ پہلے سے بھی زیادہ افسر شاہی پر تکیہ کرنے لگے۔ اسی سال ملک میں ایبڈو کی پابندیوں کے خاتمے کے بعد متعدد سیاست داں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ اس وقت چوہدری صاحب نے کنونشن مسلم لیگ کے صدر ایوب خان کو مشورہ دیا کہ وہ پارٹی کی سطح پر قاضی عیسیٰ اور مولانا عبدالماجدبدایونی جیسی عوامی شخصیات پر مبنی ایک سیاسی بورڈ تشکیل دیں جو عوام اور ان کی پارٹی کے درمیان رابطے کو بحال کرے، لیکن اس مشورے پر عمل درآمد نہ ہوا اور1968ء کے اواخر میں ایوب خان اور ان کی حکومت کے خلاف ایک مقبول عوامی ابھار نے جنم لیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے عوام کے مختلف طبقات تک پھیل گیا۔ چوہدری خلیق الزماں کے مسلسل مشورے کے باوجود ایوب خان اپنے خلاف سیاسی ردِعمل کا اپنی پارٹی کی سطح پر جواب دینے کا کوئی پروگرام نہ بنا سکے۔

1969ء میں صورت حال بتدریج سیاسی انارکی، کی طرف گام زن ہوگئی جس کی بنا پر ایوب خان کو ایک جانب سیاسی پارٹیوں کی مہم کا سامنا تھا اور دوسری جانب فوج کے سربراہ یحییٰ خان کے دباؤ کا سامنا تھا جو اپنے لیے اقتدار کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس موقع پر ایوب خان کو سیاسی راہ نماؤں کی گول میز کانفرنس بلانی پڑی اور شدید عوامی مخالفت کی موجودگی میں سیاست دانوں کی کانفرنس میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے آئندہ صدارتی انتخاب سے لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا۔ گول میز کانفرنس کے نتیجے میں جب ایوب خان صدارتی طرزحکومت کے بجائے پارلیمانی طرزحکومت کی بحالی پر آمادہ ہوئے تو چوہدری خلیق الزماں نے کونسل مسلم لیگ اور کنونشن مسلم لیگ کے باہمی انضمام کی تجویز پیش کی کیوںکہ اب دونوں پارٹیوں کے درمیان کوئی اصولی اختلاف باقی نہیں تھا۔

چوہدری صاحب کی اس تجویز کی بھی شنوائی نہ ہوئی بعدازآں جب ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ چوہدری صاحب نے صدارت کے لیے خان عبدالقیوم جیسی مضبوط سیاسی شخصیت کانام تجویز کیا، لیکن ایوب خان نے یہ منصب فضل القادر چوہدری کے حوالے کرنے میں عافیت محسوس کی۔ اس طرح مسلم لیگ کے دونوں دھڑے ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ نتیجتاً مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن صاحبان کو سیاسی کام یابیوں کے لیے میدان خالی مل گیا۔

اسی طرح یحیٰی خان کے برسرِاقتدار آنے کے بعد چوہدری خلیق الزماں مغربی پاکستان کی وحدت کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے حامی نہیں تھے بلکہ وہ اختیار کی مرکزیت کو یونٹوں میں منتقل کرنے کے حامی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ون یونٹ کے قیام کے 15سال بعد اس نظام کی ناکامی اور خامیوں کے سبب اسے تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے تو اس کے نتیجے میں بعض انتہائی اہم سیاسی اور آئینی پیچیدگیاں جنم لیں گی جن کا سہارا لے کر پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کو متاثر کرنے کی بنیاد فراہم ہوسکتی ہے۔

چوہدری صاحب مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مقامی نظام کو قابل عمل اور اس کو جاری رکھنے کے لیے پیریٹی PARITY ٰیعنی مساوات کے اصول کے سختی سے قائل تھے۔ ان کی رائے تھی کہ مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کی آبادی غیرمسلم آبادی کی وجہ سے قائم ہے جو نمائندگی میں تبدیل ہوتے وقت پاکستان کے قیام کے بنیادی محرکات اور مقاصد پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ ان کی رائے درست ثابت ہوئی اور مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے خاتمے، دونوں بازوؤں کے درمیان پیریٹی کے اصول کو ختم کرکے (ایک آدمی ایک ووٹone man,one vote ) کے اصول کے تحت جب 1970میں عام انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو مشرقی پاکستان میں غیرمسلموں کے ووٹوں کی بنیاد پر شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو غالب اکثریت حاصل ہوگئی۔ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے خاتمے پر چوہدری خلیق الزماں نے مشرقی پاکستان میں بھی صوبوں کی تجویز پیش کی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ غالباً یہ تجویز پاکستان کو متحد رکھنے کی ایک سیاسی کوشش تھی جسے نظرانداز کردیا گیا۔

بدقسمتی سے سیاست داں اور مقتدر قوتیں چوہدری خلیق الزماں کی آراء کی گہرائی اور ان میں مضمر دوررس نتائج کا احاطہ نہ کرسکیں، تاآنکہ پاکستان دسمبر1970میں دولخت ہوگیا۔ چوہدری صاحب کے لیے یہ صدمہ بہت گہرا تھا۔ ان کی زندگی کے آخری سالوں1972تا1975میں اس صدمے کی بدولت ان کی سیاسی سرگرمیاں محدود رہیں، لیکن اس دوران بھی وہ اپنے بیانات کے ذریعے رائے عامہ کی راہ نمائی کا فریضہ ادا کرتے ہے۔ بنگلادیش کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی قومی بحث کے دوران ان کے یہ تاریخی الفاظ تھے کہ بنگلادیش کو تسلیم کرنے نہ کرنے کا فیصلہ بھی اب باشعور مجمع کرے گا جس نے شیخ مجیب الرحمن کی رہائی کا فیصلہ کیا تھا۔

چوہدری خلیق الزماں 18مئی 1973کو خالق حقیقی سے جاملے، وہ کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

The post چوہدری خلیق الزماں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/34wgfN6

لاہور کا گورا قبرستان

لاہور شہر کے بڑے اور اہم قبرستانوں میں سے ایک گورا قبرستان بھی ہے۔

جیل روڈ پر واقع یہ قبرستان لاہور کے قدیم مسیحی قبرستانوں میں سے ایک ہے جو برطانوی سام راج کے پنجاب پر قبضے کے بعد معرض وجود میں آیا۔ اس کو مسیحی قبرستان بھی کہا جاتا ہے جہاں برصغیر اور پاکستان کی چند نا مور مسیحی ہستیاں دفن ہیں۔

ان اہم ہستیوں میں مندرجہ ذیل شامل ہیں؛

 جیفری ڈگلس لینگ لینڈز؛

بچپن میں پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک ڈوکومینٹری دیکھی تھی جس میں ایک سرخ وسفید بوڑھا چترالی لباس میں نظر آیا۔ میں سمجھا یہ وادی کیلاش کا کوئی فرد ہے لیکن یہ، پاکستان اور چترال کے محسن میجر جیفری تھے جو میڈم روتھ فاؤ کی طرح پاکستان کے لیے رحمت بن کہ آئے تھے۔جیفری ڈگلس لینگ لینڈز 21 اکتوبر 1917ء کو انگلستان کے شہر کنگسٹن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اینگلو امریکن کمپنی میں ملازمت کرتے تھے جب کہ والدہ کلاسیکی رقص سکھایا کرتی تھیں۔ 1918ء میں جیفری کے والد ہسپانوی فلو سے انتقال کر گئے۔ والد کے انتقال کے چند سالوں بعد والدہ بھی سرطان کا شکار ہوکر فوت ہوگئیں تو جیفری اور اُن کا بھائی اپنے نانا کی سرپرستی میں آگئے۔

نانا کے مرنے کے بعد ایک قریبی عزیز نے اِن کی سرپرستی کی اور جیفری کو کنگز کالج، ٹانٹن میں داخل کروا دیا گیا۔

18 سال کی عمر میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جیفری نے بطور معلم، لندن میں حساب اور سائنس پڑھانا شروع کیا۔ اسی دوران جب دوسری جنگ عظیم کی ابتدا ہوئی تو جیفری برطانوی فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے اور جنوری 1944ء میں بطور کمانڈو، برطانوی ہند آگئے۔ یہاں بنگلور میں قیام کے دوران ہنگامی طور پر سیکنڈ لیفٹننٹ کے عہدے پر فائز ہوئے اور پھر دہرہ دون چلے گئے۔

تقسیم ہند کے بعد میجر جیفری نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں آکر وہ راولپنڈی میں پاک فوج سے منسلک ہوگئے۔ انہوں نے پاک فوج کے انسٹرکٹر کے طور پر چھے سال تک ذمے داریاں سرانجام دیں۔ جب برطانوی فوج نے پاکستان سے کیے گئے معاہدے کے تحت ملک چھوڑا تو صدر پاکستان محمد ایوب خان کی فرمائش پر جیفری پاکستان ٹھہر گئے اور یہیں لاہور میں ایچیسن کالج میں بطور معلم ریاضی اور سائنس پڑھاتے رہے۔ یہاں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور چوہدری نثار بھی آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ اس ادارے سے وہ 25 سال منسلک رہے۔ اپریل 1979ء میں صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ کی فرمائش پر شمالی وزیرستان کے کیڈٹ کالج رزمک میں بطور پرنسپل چارج سنبھالا۔ یہاں آپ کو شرپسند عناصر نے اغوا کرلیا لیکن کچھ دنوں بعد بغیر کسی نقصان کے چھوڑ دیا گیا۔

آزاد ہونے کے بعد 1989 میں ہندوکش کا شہر چترال آپ کی منزل ٹھرا۔ یہاں ایک ڈپٹی کمشنر کے بنائے گئے پہلے نجی اسکول میں آپ نے پڑھانا شروع کیا جس کا نام بعد میں آپ کے اعزاز میں ”لینگ لینڈ اسکول و کالج” رکھ دیا گیا۔

یہاں آپ کی الوداعی تقریب کے دن تقریباً پورا شہر وادی میں اکٹھا ہوا اور سب نے ڈھیروں تحائف اور دعائیں دے کر بھاری دل سے آپ کو الوداع کہا۔ یہاں سے آپ 2012 میں ایچیسن کالج واپس چلے آئے۔جیفری 101 سال کی عمر میں، 2 جنوری 2019ء کو لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ انہیں اُن کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا۔ملک پاکستان کی نسلوں کی تعلیم و تربیت برطانوی راج کے اس آخری بوڑھے کی مقروض رہے گی۔

پرنسس بمبا سدرلینڈ؛

گورا قبرستان کی سب سے منفرد قبر شہزادی بمبا کی ہے جس پر دور سے ہی خالصہ راج کا نشان واضح نظر آتا ہے۔ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ مسیحی قبرستان میں سکھ شہزادی کی قبر کیا کر رہی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

1869 کو مہاراجا دلیپ سنگھ کے گھر لندن میں پیدا ہونے والی شہزادی بمبا کا پورا نام بمبا صوفیہ جنداں دلیپ سنگھ تھا۔ آپ سکھ سلطنت کے مہاراجا رنجیت سنگھ کی پوتی اور لاہور میں وفات پانے والی سکھ سلطنت کی آخری نشانی تھیں۔

شہزادی بمبا کے والد مہاراجا دلیپ سنگھ، سکھ سلطنت کے خاتمے کے بعد انگریزوں کی طرف سے لندن جلاوطن کردیے گئے تھے جہاں ان کی پرورش ایک عیسائی کے طور پر کی گئی۔ اپنی والدہ مہارانی جنداں کور کے دیہانت کے بعد جب وہ ان کی آخری رسومات ادا کرکے ہندوستان سے واپس برطانیہ جا رہے تھے، تو راستے میں کچھ دن مصر میں ان کا قیام ہوا۔

یہاں قاہرہ کے ایک مشنری اسکول میں پڑھانے والی ”بمبا مولر” سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ دلیپ سنگھ اپنے لیے عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی ایک مشرقی بیوی چاہتے تھے۔ بمبا کی ہاں کے بعد مصر کے شہر اسکندریہ میں برطانوی قونصل خانے میں چند گواہان کی موجودگی میں دونوں نے شادی کرلی اور برطانیہ منتقل ہوگئے۔ اِسی لیے شہزادی بمبا کی پرورش اور ابتدائی تعلیم بھی عیسائیت کی طرز پر مشنری اسکول میں ہوئی۔ 1887ء میں بمبا کی والدہ بمبا مولر گردے کے عارضے میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئیں۔

شہزادی بمبا نے اس دوران ہندوستان کے کئی دورے کیے جس میں وہ لاہور اور شملہ بھی گئیں۔ وہ 1915 میں قیامِ پاکستان سے قبل ہی لاہور منتقل ہوگئی تھیں جہاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ واٹر سدرلینڈ سے ان کی شادی ہوئی۔ 1938 میں ان کی وفات کے بعد بمبا لاہور میں تنہا رہ گئیں۔ وہ اپنی ماضی کی شان و شوکت کو بہت یاد کرتی تھیں۔

آپ کو گلاب کے پھولوں سے بہت محبت تھی۔ گھر میں ایک گلاب کا باغ بھی لگوایا تھا اور یہ وصیت بھی کی تھی کہ میری قبر پہ وقتاً فوقتاً گلاب کے پھول رکھے جائیں۔آپ نے اپنی عمر کے آخری ایام ماڈل ٹاؤن میں اپنی رہائش گاہ پر ضعیفی و کم زوری میں گزارے۔ آخری دنوں میں آپ کو نظر کا مسئلہ اور فالج کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔ طویل علالت کے بعد 1957 میں آپ نے وفات پائی اور اسی گورا قبرستان میں دفن ہوئیں۔

کہا جاتا ہے کہ اُن کے پاس سکھ سلطنت سے متعلق بہت سے نوادرات و دستاویزات تھیں جو اْنہوں نے قلعہ لاہور کی سکھ گیلری کے لیے عطیہ کردی تھیں۔آپ کی قبر کے کتبے پر یہ الفاظ تحریر ہیں۔

There lies in eternal peace

The princess bamba sutherland

Eldest Daughter of

Maharaja Dleep Singh

And grand daughter Of

Maharaja Ranjit Singh of Lahore

فرق شاہی و بندگی برخاست چوں قضائے نوشتہ آید پی

گر کسے خاک مردہ باز کند نہ شنا سد تونگر از درویش

The difference between royalty and servility vanishes,The moment the writing of destiny is encountered,If one opens the grave,None would be able to discern rich from poor

سیسل چوہدری؛

سیسل چوہدری ان شخصیات میں سے ہیں جن کا نام ہم 6 ستمبر اور 23 مارچ جیسے دنوں میں اکثر سنتے رہتے ہیں۔

مشہور پریس فوٹوگرافر ایف ای چوہدری (فاؤسٹن ایلمر) کے ہاں اگست 1941 میں ضلع چکوال کے علاقے ڈلوال میں پیدا ہونے والے سیسل، اس خطے مزاج کے مطابق بچپن سے ہی فوج میں جانے کا شوق رکھتے تھے۔ آپ کے والد ایک فوٹوگرافر کے ساتھ ساتھ حساب اور طبیعات کے استاد بھی تھے۔

سینٹ انتھونی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیسل نے فورمن کرسچن کالج لاہور سے فزکس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد 1958 میں آپ نے پاکستان ایئر فورس اکیڈمی کے انجنیئرنگ پروگرام میں داخلہ لیا اور ڈبل بی ایس سی ڈگری سمیت فائٹر پائلٹ بن کر نکلے۔

آْپ کا پہلا امتحان پینسٹھ کی جنگ تھی جس کے کئی اہم معرکوں میں آپ نے بھرپور حصہ لیا اور بھارت کے تین جہاز مار گرائے۔ ایک مرتبہ بھارت کی فضا میں لڑے جانے والے ایک معرکے میں سیسل چوہدری کے جہاز کا ایندھن بہت کم رہ گیا۔ سرگودھا ایئربیس تک واپسی ناممکن تھی۔ جہاز کو محفوظ علاقے میں لے جاکر اس سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلا جا سکتا تھا مگر ایک ایک جہاز پاکستان کے لیے قیمتی تھا۔ حاضردماغ سیسل نے ایک انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ بچے کھچے ایندھن کی مدد سے جہاز کو انتہائی بلندی تک لے گئے اور پھر اسے گلائیڈ کرتے ہوئے سرگودھا میں اتار دیا۔ اس سے پہلے کسی پاکستانی ہواباز نے جنگی جہاز کو گلائیڈ نہیں کیا تھا۔ اس جنگ میں سیسل چوہدری کے دلیرانہ کارناموں کے اعتراف میں انہیں ستارۂ جرات دیا گیا۔

1971 میں سیسل چوہدری جنگ کے لیے سرگودھا ایئربیس پر تعینات تھے۔ بھارتی حدود میں ایک مشن کے دوران سیسل چوہدری کے جہاز میں آگ لگ گئی۔ سیسل نے پیراشوٹ کی مدد سے چھلانگ لگادی اور عین پاک بھارت سرحد پر بارودی سرنگوں کے میدان میں اترے۔ انہیں پاکستانی مورچوں تک پہنچنے کے لیے محض تین سو گز کا فاصلہ طے کرنا تھا۔

اس علاقے سے ان کا زندہ نکل آنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ پاکستانی فوجیوں نے انہیں فوراً اسپتال پہنچا دیا کیوںکہ ان کی چار پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں مکمل آرام کرنے کا حکم دیا مگر وہ اپنے بھائی کی مدد سے رات کی تاریکی میں اسپتال سے فرار ہو کر اپنی بیس پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان ٹوٹی ہوئی پسلیوں کا درد سہتے ہوئے سیسل چوہدری نے 14 فضائی معرکوں میں حصہ لیا۔ اس مرتبہ انہیں ستارۂ بسالت دیا گیا۔ پھیپڑوں کے سرطان کی وجہ سے 3اپریل 2012ء کو لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔

ایک ہواباز کے علاوہ آپ نے ماہرتعلیم کے طور پر پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور پرنسپل سینٹ انتھونی کالج کے طور پر بھی کام کیا۔ آپ پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے۔

الفریڈ کوپر وولنر؛

مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی کے باہر چبوترے پر کتاب اٹھائے ایک شخص کا مجسمہ نصب ہے جس کے نیچے ان کا نام اور تاریخ پیدائش و وفات بھی درج ہے۔ یہ الفریڈ کوپر وولنر ہیں، جامعہ پنجاب کے نائب چانسلر اور ماہرلسانیات۔

1878 کو انگلینڈ میں پیدا ہونے والے الفریڈ کوپر نے آکسفورڈ کے ٹرینٹی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ وولنر سنسکرت کے مشہور محقق تھے جو 1902 سے 1928 تک جامعہ پنجاب لاہور میں کتب خانے کے انچارج کے طور پر کام کرتے رہے۔ 1903میں آپ کو رجسٹرار بنایا گیا اور 1928 میں آپ اسی جامعہ کے نائب چانسلر بن گئے۔ اس عہدے پر 1931 تک فائز رہے۔ 1933 میں آپ نے ”انڈین لائبریری ایسوسی ایشن” کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر کے طور پر کام کیا۔

آپ کے اعزاز میں پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں ہزاروں کی تعداد میں موجود سنسکرت و ہندی مخطوطات کے مجموعے کو آپ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ نیز 1937 میں آپ کا کانسی سے بنایا گیا مجسمہ بھی فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے باہر مال روڈ پر نصب کیا گیا تھا جو تقسیم کے بعد لاہور میں باقی رہ جانے والا برطانوی سام راج کا واحد مجسمہ ہے۔آپ کی وفات 1936 میں نمونیا کے باعث ہوئی۔

ایلون رابرٹ کارنیلیئس؛

لاہور کی کینال روڈ پر سفر کرتے ہوئے ایک انڈرپاس آتا ہے جو ”کارنیلیئس انڈرپاس” کہلاتا ہے لیکن افسوس کہ ہم میں سے بہت سوں کو اس شخصیت کے نام کے علاوہ اور کچھ نہیں معلوم۔

متحدہ صوبہ جات میں 1903 کو پیدا ہونے والے رابرٹ کارنیلیئس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس تھے۔ آپ ایک مشہور ماہرِقانون اور فلاسفر تھے۔

آگرہ کی اینگلو انڈٰین فیملی میں پروفیسر کارنیلیئس کے ہاں پیدا ہونے والے رابرٹ، اِلہٰ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد کیمبرج چلے گئے۔ واپس آ کر سول سروس جوائن کی اور بطور اسسٹنٹ کمشنر بھرتی ہوئے۔اس کے بعد آپ نے پنجاب حکومت کا محکمہ قانون جوائن کیا۔ اس دوران آپ نے قانون پر کچھ کتابیں بھی لکھیں۔

تحریک پاکستان میں آپ نے بڑھ چڑھ کہ حصہ ڈالا۔ 1946 میں آپ لاہور ہائی کورٹ کے ایسوسی ایٹ جج بنے اور اس کے بعد پاکستان کے وزیرقانون جوگیندر ناتھ منڈل کے سیکریٹری۔ اس دوران آپ نے دن رات ایک کر کے پاکستان کے عدالتی نظام کا ڈھانچا مرتب کیا۔

1949 سے 1953 تک آپ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرپرسن کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

1960 میں جنرل ایوب خان نے آپ کو پاکستان کا پہلا مسیحی چیف جسٹس منتخب کیا۔ اس سیٹ پر آْپ 1968 تک رہے اور اس کے بعد 1969 سے 71 تک جنرل یحییٰ خان کی حکومت میں وزیرانصاف و قانون رہے۔

88 سال کی عمر میں 1991 میں آپ نے لاہور میں آخری سانس لی۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو ”ہلالِ پاکستان” سے نوازا۔

دیوان بہادر سنگھا؛

آپ پاکستان کے مشہور سیاست داں تھے جو تقسیم سے پہلے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے تھے۔ 1893 میں سیالکوٹ کے شہر پسرور میں آنکھ کھولنے والے سنگھا کے دادا بہاری جب کہ دادی بنگالی تھیں۔

آپ نے شروع میں پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار کے طور پر کام کیا۔ یہ آپ ہی کی کوششیں تھیں کہ پاکستانی نظام تعلیم میں میٹرک اور انٹر کی ڈگریاں شامل کی گئیں۔ آپ کی انہی خدمات پر آپ کو ”دیوان بہادر ” کے خطاب سے نوازا گیا۔

اقلیتوں سے متعلق قائداعظم کے خیالات سے آپ بہت متاثر تھے۔ آپ کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ جب 1940 کی قرارداد لاہور منظور ہوئی تو آپ وہاں موجود تھے۔

ایس پی سنگھا نے ”آل انڈیا کرسچین ایسوسی ایشن” کے پلیٹ فارم سے قائد کو یقین دلایا کہ پاکستان کی آزادی میں وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

آپ کا علی الاعلان یہ کہنا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت پورے ملک میں مسیحیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ گنا جائے۔

آپ نے جناح کو اپنا لیڈر تسلیم کیا اور قائداعظم نے بھی مسیحیوں کو تحفظ کا یقین دلایا۔

تقسیم کے قریب آپ کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر چنا گیا جہاں آپ نے شدت سے پنجاب کی تقسیم اور اس کی پاکستان میں شمولیت کی حمایت کی۔

جون 1947 کے اجلاس میں جب ایک سکھ لیڈر نے کرپان لہرا کر کہا کہ وہ ہر اس شخص پر حملہ کرے گا جس نے پنجاب کے پاکستان سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا تو سنگھا نے کہا کہ وہ پھر بھی اپنا ووٹ پاکستان کے حق میں دیں گے۔

اس ہنگامے کے بعد جب نتیجہ آیا تو متحدہ پنجاب کی اسمبلی نے 88 کے مقابلے 91 ووٹوں سے پنجاب کا پاکستان سے الحاق منظور کرلیا اور یوں مسلم لیگ اور قائداعظم کی جیت ہوئی۔یہ تین ووٹوں کی برتری دیوان بہادر سنگھا اور ان کے ساتھی مسیحی نمائندوں کی وجہ سے تھی اس لیے یہ ان کا پاکستان پر احسان عظیم ہے۔

پاکستان بننے کے بعد دیوان بہادر سنگھا بھی ایک مہینے کے وقفے سے 1948 کی خزاں میں انتقال کر گئے۔

حکومت پاکستان نے آپ کی یاد میں 2016 میں ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا۔

مسز اے ایس نتھینیل؛

عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی اے ایس نتھینیل، وہ پاکستانی نرس تھیں جنہوں نے کوئٹہ کے قریب واقع زیارت ریذیڈنسی میں قائدِاعظم محمد علی جناح کے آخری ایام میں ان کی نرس کے فرائض سرانجام دیے تھے۔ یہ قائد کی آخری خدمت گار تھیں۔

مسز نتھینیل کو 1938 میں محکمہ صحت میں بھرتی کیا گیا تھا اور 1948 میں قائداعظم کی خدمات و تیمارداری کے لیے خصوصی طور پر ان کو چنا گیا تھا۔

آْپ 1980 میں ریٹائر ہوئیں۔ کوئٹہ کے رہائشی سالس نتھینیل آپ کے شوہر تھے جن سے آپ کے تین بچے ہوئے، ڈاکٹر وکٹر نتھینیل، ڈاکٹر مورین کرسٹی منیر اور کیتھ صادق نتھینیئل۔

محترمہ اے ایس نتھینیئل کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اس وقت کے صدر پاکستان، جناب رفیق تارڑ صاحب کی جانب سے تمغہ امتیاز دیا گیا۔ 6 اکتوبر ، 2013 کو ان کا انتقال ہوگیا اور انہیں لاہور روڈ کے مسیحی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔

سنگِ مرمر سے بنی آپ کی قبر کا کتبہ بھی آپ کی خدمات کا گواہ ہے۔

یہ تھے اس قبرستان میں سپرد خاک چند نادر و نایاب نگینے۔ یہاں اداکار شان کی والدہ نیلو کی قبر بھی موجود ہے۔ان کے علاوہ بھی یقیناً اور بہت سی اہم ہستیاں یہاں دفن ہوں گی جن کے کاموں پر اب شاید گرد جم چکی ہے۔

گورا قبرستان میں مسلمانوں کے داخلے اور تصاویر بنانے کے لیے خصوصی اجازت نامہ درکار ہے۔ اس لیے جانے سے پہلے اجازت نامہ ضرور حاصل کیجیے گا۔

The post لاہور کا گورا قبرستان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3uCfRqK

رحیم یارخان میں 14 سالہ لڑکے سے دو سگے بھائیوں کی اجتماعی زیادتی

رحیم یار خان:  اوباش بھائیوں نے 14 سالہ لڑکے کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل...