4 روز کی بندش کے بعد سی این جی اسٹیشن آج کھل جائیں گے

کراچی: سندھ بھرکے سی این جی اسٹیشن 4 روزہ بندش کے بعداتوار کی صبح 8 بجے سے 12 گھنٹے کیلیے کھول دیے جائیں گے۔

ایس ایس جی سی کے مطابق سندھ بھر کے سی این جی اسٹیشن اتوارکی 8بجے شب تک کھلے رہیںگے، سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام کا کہناہے کہ کمپنی کو مختلف گیس فیلڈز سے ملنے والی گیس کی مقدارکم ہے جس کے باعث لائن پیک متاثر ہے،گیس کاپریشرکم ہونے کی وجہ سے کمپنی کو گھریلو صارفین کو گیس پہنچانے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔

ایس ایس جی سی حکام کا کہناہے کہ سی این جی سیکٹر کے لیے آئندہ کا شیڈول گیس پریشر کی صورتحال کو مد نظر رکھ کرجاری کیا جائے گا۔

 

The post 4 روز کی بندش کے بعد سی این جی اسٹیشن آج کھل جائیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/311BG68

ٹوٹی سڑکوں پر سفر شہریوں کا ’مقدر‘ بن گیا

کراچی: ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کے ہر علاقے کی سڑک ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہے جب کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر سفر شہریوں کا مقدر بنادیاگیا ہے۔

شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، شہر کی ہر تیسری سڑک کہیں سے ادھڑ چکی ہے یا اس پرگڑھے پڑچکے ہیں،شہر کے لاکھوں افراد روزانہ ایک مقام سے دوسرے مقام پر سفرکرتے ہیں ،لیاری ،ناظم آباد ،لیاقت آباد، لانڈھی،سائٹ ،بلدیہ ٹاؤن ،ملیر،فیڈرل بی ایریا،کیماڑی،کھارادر، میٹھا در،گلشن معمار ،اسکیم 33 ،گڈاپ ٹاؤن،سرجانی ٹاؤن اور دیگر علاقوں کی سڑکوں کا برا حال ہے،حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی غفلت اور عدم دلچسپی کے باعث سڑکوں کی مرمت بھی نہیں کی جارہی ہے۔

واٹربورڈ کی سنگین غفلت سے سڑکوں پرپانی جمع رہتا ہے ،واٹربورڈکی فراہمی و نکاسی آب کی لائنیں بوسیدہ ہوچکی ہیں اکثر مقامات پر لائنوں کے رساؤ سے وسیع علاقہ زیر آب رہنا معمول بن گیا ہے،سڑکوں پر پانی جمع رہنے سے بڑے بڑے گڑھے پڑجاتے ہیں، لائنوں کی مرمت کردی جاتی ہے لیکن سڑکوں کو پہنچنے والے نقصان کا فوری ازالہ نہیں کیاجاتا جس سے قوم کے اربوں روپے سے بنائی گئی سڑکیں تباہی کا شکار ہورہی ہیں،لاکھوں شہری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اذیت ناک سفر کرتے ہیں،جس سے گاڑیوں کو نقصان پہنچتا ہے،ٹوٹی ہوئی سڑکوں پرروزانہ سفر سے انسانی جسم بھی مخلتف امراض میں مبتلا ہوجاتاہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں بنیادی سہولتوں کا پہلے ہی فقدان ہے ،سندھ حکومت اور وفاقی حکومت بنیادی سہولتوں سے متعلق اپنے کئی منصوبے ہی مکمل نہیں کررہی ہے،ایسے میں سڑکوں پر پڑے گڑھوں اور ٹوٹ پھوٹ کی اذیت بھی سہنی پڑرہی ہے ، شہریوں نے کہا کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر کب تک سفر کریں ،روڈ ٹیکس کیوں لیا جاتا ہے،رات میں اکثر سڑکوں پر حادثا ت ہوجاتے ہیں ،چیف جسٹس ہائی کورٹ سڑکوں کی عدم مرمت کا نوٹس لیں تاکہ شہری اذیت ناک سفر سے جلد ازجلد چھٹکا را حاصل کرسکیں۔

 

The post ٹوٹی سڑکوں پر سفر شہریوں کا ’مقدر‘ بن گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2sWuICE

نئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کل حلف اٹھائیں گے

اسلام آباد: نئے چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کل حلف اٹھائیں گے۔

سکندرسلطان راجہ کل نئے چیف الیکشن کمشنر کا حلف اٹھائیں گے، چیف جسٹس پاکستان ان سے حلف لیں گے، حلف برداری کی تقریب سپریم کورٹ میں ہو گی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ حلف اٹھانے کے بعد الیکشن کمیشن کے2نئے ارکان نثار درانی اور شاہ محمد جتوئی سے حلف لیں گے۔

 

The post نئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کل حلف اٹھائیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2O0yxOr

کرونا وائرس پاکستان میں داخل، حکومت کا انکار

کراچی: کرونا وائرس پاکستان میں داخل ہوگیا لیکن حکومت مسلسل انکارکررہی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ21جنوری کودبئی اورکراچی کے بعد ملتان پہنچنے والا شخص وائرس سے متاثر ہے لیکن حکومت پنجاب کی جانب سے تاحال کوئی تصدیق نہیں کی جاسکی،پاکستان میں اس حوالے سے سرکاری سطح پر عوام کو آگاہی بھی فراہم نہیں کی جارہی،کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھرکے ممالک میں ایمرجنسی نافذکردی گئی، پاکستان میں چین سے ممکنہ طورپرداخل ہونے والے وائرس کی وجہ سے طبی حلقوں میں بھی چہ میگوئیاں شروع ہیں۔

بعض ماہرین طب کاکہنا ہے کہ یہ بائیوحملہ بھی ہوسکتا ہے جبکہ بعض ماہرین کاکہنا تھا کہ پاکستان میں چین کی سروس عارضی طورپرمعطل کردی گئی ہے، دوسری جانب اہم حلقوں میں یہ خیال بھی ظاہرکیا جارہا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کو متاثرکرنے کیلیے چین پربائیوحملہ کیاگیا ہے تاکہ پاکستان چین سے اپنی درآمدی اشیاکی ترسیل کو فوری معطل کردے۔

عالمی ادارہ صحت نے دنیا کے تمام ممالک کو اس وائرس کے حوالے سے الرٹ بھی جاری کردیا ہے،دریں اثنا پاکستان میں متعدی امراض کے ماہرین نے بھی عوام کو اس وائرس کے بارے میں آگاہی فراہم نہیں کی۔

ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ پاکستان میںکسی بھی وائرس کی وبائی صورت سے نمٹنے کیلیے سہولتیں موجود نہیں ہیں، سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں ہرسال بجٹ میں اضافہ کیا جاتا ہے لیکن سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد25سال پرانی ہے۔

ماہرین صحت نے بتایا کہ پاکستان میں کسی بھی وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلیے سہولتیں موجود نہیں اور نہ ہی کسی بھی وائرس کی تشخیص پاکستان میںکی جاسکتی ہے۔

 

The post کرونا وائرس پاکستان میں داخل، حکومت کا انکار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/30UEbXH

کورونا وائرس؛ پاکستان میں مزید 3 مشتبہ چینی اسپتال داخل

اسلام آباد / ملتان: چین میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 41 ہو گئی ہے جبکہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں تیرہ سو سے زائد افراد اب تک اس وائرس کا شکار بن چکے ہیں۔

کورونا وائرس یورپ بھی پہنچ گیا،لاہورمیں تین چینی شہریوں کوسروسزاسپتال میں داخل کیاگیا جنہیں آئیسولیشن وارڈشفٹ کردیاگیاہے ،تینوں افرادکاتعلق چین کے شہر ووہان سے ہے، سینئرڈاکٹرنے بتایا کہ تینوں مریضوں کوچھاتی میںدرد بخار،فلواورکھانسی کی تکلیف ہے کرونا وائرس کے پیش نظر وزارت خارجہ نے چین میں مقیم پاکستانی شہریوں کے اعدادو شمار جاری کردیے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق چین میں 28 ہزار پاکستانی طلبا زیر تعلیم ہیں 800تاجر چین میں رہائش پذیر ہیں اور 1500 پاکستانی تاجر چین آتے جاتے ہیں، ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ صرف ووہان صوبے میں 500 کے قریب پاکستانی طلبا رہائش پذیرہیں ۔قومی ادارہ صحت کے سربراہ میجر جنرل عامر اکرام نے بتایا ہے کہ ملتان میں چینی مریض میں نزلہ زکام، کھانسی اور بخار کی علامات سامنے آنے کہ وجہ سے اس کو آئسولیشن وارڈ میں رکھا گیا ہے اور اس کے سیمپل لے لئے گئے ہیں۔

قومی ادارہ صحت کے مطابق چین سے تا حال پروازیں بند کر دی گئی ہیںجبکہ چین نے بھی اپنی تمام پروازیں بند کر دی ہیں۔کراچی ،لاہور اور اسلام آباد تین ائرپورٹس ہیں جہاں سے چین پروازیں جاتی ہیں جو تاحال بند ہیں۔

چین کے صدر ژی جن پنگ نے کہا کہ ہے کہ ان کے ملک کو سنگین صورتحال کا سامنا ہے،چین کے سرکاری ٹی وی کے مطابق صدر ژی نے ہفتے کے روز پولٹ بیورو اجلاس کی صدارت کی جس میں تیزی سے پھیلتی کرونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔

وائس چانسلرنشترمیڈیکل یونیور سٹی پروفیسر ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ نشتر ہسپتال میں دو روز قبل چائنا کے شہر وہان سے واپس ملتان آنے والے 40 سالہ فینگ فین کو نشتر ہسپتال کے آئی سو لیشن وارڈ میں داخل کیا گیا۔

متاثرہ شخص کو کرونا وائرس کے شبہ میں داخل کر کے نمونے اسلام آباد بھجوا دئیے گئے ہیں تاہم فینگ فین کو گلہ خرابی اور زکام کی ادویات دی گئیں جس سے اسے افاقہ ہوا ہے اور مریض تیزی سے صحت کی جانب گامزن ہے جبکہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی و ہسپتال کے شعبہ امراض سینہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر انجم نوید جمال کو کرونا وائرس سے متعلق فوکل پرسن بھی نامزد کر دیا گیا ہے جبکہ تین سے چار روز میں تشخیصی کٹس اسلام آباد پہنچ جائیں گی جہاں سے نشتر ہسپتال کو بھی مہیا کر دی جائیں گی ۔

The post کورونا وائرس؛ پاکستان میں مزید 3 مشتبہ چینی اسپتال داخل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/38xfTFU

کثیرالمنزلہ عمارت پر دنیا کا سب سے بلند میورل پینٹ کردیا گیا

کراچی: اٹلی سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹ نے کراچی کی کثیرالمنزلہ عمارت پردنیاکا سب سے بلند وبالامیورل پینٹ کردیا،287فٹ بلند میورل میں سمندر،فضاؤں میں محوپرواز پرندوں جبکہ مینگروزکے درختوں کی اہمیت کو اجاگرکیاگیاہے۔

اٹلی کے نوجوان آرٹسٹ گوئسپے پرسی واتی نے 9روز کی شب وروز محنت کے بعد شہر کی بلند عمارت سینٹر پوائنٹ پررائزنگ بلیو کے نام سے بہت ہی منفرد میورل پینٹ کیا ہے،287فٹ بلند میورل میں نیلگوں سمندراس کی فضاؤں میں محوپرواز پرندوں جبکہ مینگروز کے درختوں کی اہمیت اور افادیت کواجاگرکیا گیا ہے۔

اٹالین پینٹرگوئسپے پرسی واتی کے مطابق یہ حکومت اٹلی کی جانب سے شہرقائدکے2کروڑعوام کے لیے تحفہ ہے، آئی ایم کراچی کے منتظمین نے اسے تعمیری سرگرمی قراردیتے ہوئے کہاہے کہ اس کے ذریعے شہرقائد کو خطرناک اور صفائی کے لحاظ سے گندا شہر قراردینے کی سوچ کی نفی کی گئی ہے،ان اقدامات سے نہ صرف شہرکاامیج بہتر ہوگا بلکہ مثبت پہلوؤ کوترویج ملے گی۔

آئی ایم کراچی کے مطابق بلند وبالا میورل اٹلی کی جانب سے ایک جاذب نظراورتاریخی ثقافتی تبادلہ ہے ،میورل میں موسمیاتی تبدیلی اورایک قوم کے ضمیر کی بیداری کے طورپردکھایاگیا ہے،یہ اقدام انٹرنیشنل پبلک آرٹ فیسٹیول کاحصہ ہے۔

اٹلی کی قونصل جنرل اینا روفینو کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر مسرت ہورہی ہے کہ یہ میورل میرے ملک کے آرٹسٹ نے بنایا ہے، یہ میورل امن اور اٹلی پاکستان کے درمیان برادرانہ تعلق کاعکاس ہے۔

 

The post کثیرالمنزلہ عمارت پر دنیا کا سب سے بلند میورل پینٹ کردیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/36qycLA

سفاک باپ نے 8 ماہ کی بیمار بیٹی قتل کرکے صحن میں دبا دی

قصور / فاروق آباد: سنگدل باپ نے 8 ماہ کی بیمار بیٹی کو گلا دبا کر قتل کر کے نعش صحن میں دبا دی۔

پتوکی کے نواحی گاؤں گہلن ہٹھاڑ میں سنگدل باپ نے دوسری بیوی سے مل کر اپنی پہلی بیوی سے 8 ماہ کی بیمار بیٹی کو گلا دبا کر قتل کر کے نعش صحن میں دبا دی۔

ہمسایوں کی اطلاع پر پولیس نے بچی کی نعش برآمد کر کے ملزم شریف اور اسکی دوسری بیوی زینب کو گرفتار کر لیا،ملزم شریف نے دو سگی بہنوں نبیلہ اور اٹھارہ سالہ زینب سے شادی کر رکھی تھی، نبیلہ کو طلاق دینے کے بعد اپنے ساتھ ایک ہی گھر میں رکھا ہوا تھا ،مقتولہ بچی ایمان فاطمہ پہلی بیوی نبیلہ سے تھی اور اکثر بیمار رہتی تھی۔

پولیس تھانہ الہ آباد نے بچی کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے بجھوا کر ملزمان سے تفتیش شروع کردی۔

 

The post سفاک باپ نے 8 ماہ کی بیمار بیٹی قتل کرکے صحن میں دبا دی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/37satMn

شہریوں کی آسانی کیلیے سہولت سینٹرز پروگرام کا آغاز

پشاور: خیبر پختونخوا حکومت شہریوں کی سہولت اور آسانی کیلیے  شہری سہولت سنٹرز (سی ایف سی ایس )کا باقاعدہ آغاز کرنے جا رہی ہے۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت شہریوں کی سہولت اور آسانی کیلیے  شہری سہولت سنٹرز (سی ایف سی ایس )کا باقاعدہ آغاز کرنے جا رہی ہے اس سہولت کے تحت خیبر پختونخوا کے شہری اپنے بلز، کاغذات وغیرہ الیٹرانک طور پر جمع کر وا سکیں گے۔ پچھلے مہینے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شروع کئے گئے۔

ڈیجیٹل پاکستان فری پروگرام جس کے تحت 10لاکھ لوگوں کو ڈویلپنگ ڈیجیٹل سکلز سکھائی جائیں گے کے پی کے حکومت بھی پشاور میں شہری سہولت سنٹرز کا آغاز کرنے جا رہی ہے اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت نے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کو منصوبہ شروع کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

ابتدائی طور پر سنٹرز میں شہریوں کوسات محکموں کے حوالے سے سہولیات دی جائیں گی جن میں ایکسائز ،پولیس ،واسا ،بورڈ آف ریونیو ،ہوم ڈپارٹمنٹ ،نادرا اور بلدیہ کا محکمہ شامل ہے محکمہ آئی ٹی افسران کے مطابق محکمہ نادرا کی طرح کام کریگا لیکن صرف صوبائی سطح پر جسے مستقبل میں دیگر محکموں تک بھی پھیلایا جا سکے گاپروگرام کے تحت شہری محکموں کا دورہ کئے بغیر اپنے بلز اور کاغذات الیکٹرانک طور پر جمع کر واسکیں گے۔

کے پی آئی ٹی بی کے ڈائریکٹر شہباز نے ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کے تحت شہری نقدی کے بغیر اپنی رقوم اور کاغذات ،بلز وغیرہ الیکٹرانک طور پر جمع کروا سکیں گے اسی طرح کا سسٹم پنجاب اور سندھ میں بھی کامیابی سے چل رہا ہے اور کے پی کے تیسرا صوبہ ہو گا جو اس سسٹم کو اپنائے گا ۔

 

The post شہریوں کی آسانی کیلیے سہولت سینٹرز پروگرام کا آغاز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2tFaqy5

اب دوبارہ ’سب رنگ‘ نکالنے کی ہمت نہیں رہی، شکیل عادل زادہ

بات کہاں سے شروع کی جائے اور پھر کہاں پر یہ لفظ تمام ہوں۔۔۔ ہمیں اپنی اس ’محرومی‘ کا اعتراف ہے کہ ’عہدِ سب رنگ‘ کے ڈھلنے کے بعد جنمے۔۔۔ لیکن کالج کے دور میں لوگوں کو یہ پوچھتے دیکھا کہ ’’سنا ہے ’سب رنگ‘ آیا ہے۔۔۔؟‘‘

یہ اکیسویں صدی میں ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کے احیا کا زمانہ تھا۔ پھر ’ایم اے‘ کے دوران اپنے ایک ’اسائمنٹ‘ کے سلسلے میں ہم نے پہلی بار ’سب رنگ‘ والے ’شکیل بھائی‘ سے ملاقات کی۔۔۔ مقام وہی ’پریس چیمبر‘ میں واقع ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کا سابقہ دفتر۔۔۔ جب ہم پہنچے، تو وہاں احباب کی محفل جمی ہوئی تھی۔۔۔ اور ہماری مذہبی تاریخ کا ایک اہم واقعہ موضوع تھا۔ کچھ دیر بعد اذن باریابی ہوا تو ہم ان کے بازو میں کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے۔۔۔ وہ اِس دفتر کو اپنا دوسرا گھر کہتے۔ ’سب رنگ‘ کے زمانے میں اکثر وہیں سو جاتے، ایک مرتبہ تو 22 روز بعد گھر گئے!

مشہور زمانہ رسالہ ’سب رنگ‘ اپنے بلند معیار کو پست نہ کر سکا، اور رخصت ہوگیا، لیکن یہ دفتر تین برس پہلے تک آباد رہا۔۔۔ وہ نزدیک ہی واقع نجی چینل میں مامور ہوتے، تین بجے وہاں سے نکلتے اور پھر اس بیٹھک میں رونق لگ جاتی۔۔۔ چائے اور پان کے دور چلتے۔۔۔ کیا کیجیے کہ اگر اب ’سب رنگ‘ نہ تھا، لیکن یہاں کی دانش ورانہ گفتگو میں تو ’ہر رنگ‘ تھا۔۔۔

اس ملاقات کے بعد جب بھی ملے، بہت شفقت سے ملے۔۔۔ پھر ہم نے خصوصی طور پر ’ایکسپریس‘ کے لیے اُن سے وقت لیا۔۔۔ دوران گفتگو وہ تاکید کرتے رہے کہ ’’واقعات بکھر گئے ہیں، اسے ترتیب میں کر لیجیے گا۔‘‘ ’مرادآباد‘ سے ’ناظم آباد‘ تک کی اس داستان میں ’انشا‘ کا ذکر بھی ہے اور ابن انشا کا بیان بھی۔۔۔ ہماری ’ڈائجسٹ‘ کی دنیا کے اس ’’بازی گر‘‘ نے زبان وادب کا وہ پالن کیا، جس کی نظیر ذرا کم ہی ملتی ہے۔ سرحد پار کے اردو کے قاری ’فیس بک‘ پر جب یہ سنتے ہیں کہ ہم ’شکیل عادل زادہ‘ کی نگری میں زندگی کرتے ہیں، تو وہ ہماری قسمت پر بہت رشک کرتے ہیں۔

کاغذات میں اُن کا سن ولادت 1940ء درج ہے، لیکن شکیل عادل زادہ کا خیال ہے کہ وہ 1938ء میں پیدا ہوئے، جنم بھومی؛ مراد آباد، تعلق ’پنجابی سوداگرانِ دہلی‘ برادری سے، جو ہندوستان میں دلی کے علاوہ رام پور، بریلی اور مراد آباد وغیرہ میں آباد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے والد ادیب اور شاعر تھے، وہ ایک رسالہ ’مسافر‘ نکالتے تھے، جس کے مدیر اردو کے ممتاز سخن وَر رئیس امروہوی تھے۔ انہیں ابا ہی صحافت میں لائے تھے۔ ابا مسلم لیگی اور ’روشن خیال‘ تھے، انہوں نے ’ادیب فاضل‘ اور ’منشی فاضل‘ کیا ہوا تھا، شعر بھی کہتے تھے۔ اُن کی اپنے کام سے اتنی وابستگی تھی کہ جب دوسری جنگ عظیم میں کاغذ کی نایابی کی وجہ سے ان کا رسالہ بند ہوا، تو انہیں صدمے سے آنتوں کی ٹی بی ہوگئی۔‘ شکیل عادل زادہ نے کچھ توقف کیا اور پھر بولے ’یہ رسالے کا معاملہ اولاد کی طرح ہوتا ہے۔۔۔ یہ بند ہوتو بڑی تکلیف ہوتی ہے، انہیں بھی ہوئی ہوگی! جب ابا کا انتقال ہوا، تو میری عمر چھے سال تھی، ایک چھوٹا بھائی اور ایک چھے ماہ کی بہن تھی۔ اس کے بعد سب کچھ بکھر گیا۔

پھر اماں نے کچھ سلائی کی، اور کچھ نانا کی اعانت سے گزارا ہوا۔ نانا کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ رہا، وہ دیوبندی مکتب فکر سے متاثر تھے۔ ابا کا انتقال ہوا، تو اتنا شعور نہ تھا۔ نانا کی رحلت پر بہت رویا، ابا اتنا یاد نہیں آتے، جتنے نانا آتے ہیں۔ لازمی مذہبی تعلیم کے لیے ’جامعہ قاسمیہ‘ میں داخلہ ہوا، اساتذہ کی بے رحمانہ مار کے سبب مجھے مدرسے سے چڑ ہوگئی۔ ماموں اور خالہ زاد بھائی حافظ تھے اور نانا کی خواہش پر میں نے بھی حفظ کیا اور تین سال تراویح بھی سنائی۔ 1954-55ء میں میٹرک کے بعد انٹر میں داخلہ لیا، وہاں اردو تقریباً ختم ہو چکی تھی، ذریعہ تعلیم ’ہندی‘ تھا۔‘‘

اپنے مطالعے کی شروعات کے حوالے سے شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ ’دو پیسے والے ناول سے یہ سلسلہ شروع ہوا، روزانہ ایک ناول پڑھ لیتا تھا۔ مختلف رسالے ’بیسویں صدی‘ اور ’شمع‘ وغیرہ بھی ایک دن میں مکمل کر لیتا۔ نویں، دسویں میں، میں نے ایک مختصر سا افسانہ لکھا، ہم جماعتوں نے کلاس ٹیچر کو بتا دیا، وہ ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے، انہوں نے افسانہ سنا اور سراہتے ہوئے بولے کہ یہ سلسلہ جاری رکھو مگر پڑھتے بھی رہو۔

شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ بٹوارے کے ہنگام میں نو سال کا تھا، اس لیے مجھے وہ وقت یاد ہے۔ انہوں نے پاکستان سے وہاں آئے ہوئے ایک عزیز کی تحریک پر ہجرت کا فیصلہ کیا، کہتے ہیں کہ چُھپ کر پاسپورٹ بنوایا، پیسوں کے لیے اماں کی ’چَمپا کلی‘ ایک ہندو مہاجن کے پاس 40 روپے کے عوض گروی رکھی۔

رات کو مراد آباد سے ریل میں بیٹھا اور صبح امرَت سر پہنچا، وہاں سے پیدل ’واہگہ‘ پار کر کے پاکستان آگئے۔ پھر امّاں کو خط لکھا کہ وہاں مجھے اپنے مستقبل کے لیے کوئی چیز اچھی نظر نہیں آرہی تھی، اس لیے میں یہاں آگیا ہوں۔ خط تو ایک ہفتے بعد پہنچا، لیکن دوستوں نے اگلے دن ہی گھر پر سب بتا دیا۔

پاکستان آیا تو 10روپے اور ایک صندوق میں کچھ کپڑے تھے، جس عزیز کے کہنے پر آیا تھا، ان کے گھر گیا، رات کے گیارہ بجے تھے، انہوں نے کہلوا دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں! یہ پہلا جھٹکا لگا تھا کہ خوامخواہ یہاں آگئے، پھر کسی اور شناسا کا پتا معلوم کر کے وہاں ٹھیرا۔

ہجرت کے بعد شکیل عادل زادہ واپس ہندوستان چلے گئے، لیکن قرۃ العین حیدر کی طرح وہاں رہ نہیں سکے، اس حوالے سے وہ یوں بتاتے ہیں: ’’اماں بہت پریشان تھیں، ان کے بہت خط آر ہے تھے، اس لیے تین ماہ بعد واپس چلا گیا، لیکن میں نے وہاں جو مسلمانوں کی صورت حال دیکھی، تو لگا کہ نہیں میرا پاکستان جانے کا فیصلہ صحیح تھا۔‘‘

ہم نے اس ’صورت حال‘ کی وضاحت پوچھی تو وہ بولے کہ ’مسلمانوں کے لیے کوئی گنجائش نظر نہں آتی تھی۔ مستقبل بس یہی تھا کہ دکان کھول لیں، یا کسی دکان پر کام کر لیں۔ مراد آباد میں نانا کا برتنوں کا کاروبار تھا، بڑے ماموں آرڈر لینے کے لیے ہندوستان بھر کا دورہ کرتے تھے، وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے کہ یہاں اس کا جی بہل جائے اور یہ پاکستان جانے کی ضد چھوڑ دے، اس طرح ہم نے جنوبی ہندوستان اور بہت سے شہر دیکھے، جو بعد میں ’بازی گر‘ لکھتے ہوئے بہت کام آئے۔ پھر کوئی سال، چھے مہینے میں واپس پاکستان آگیا، بہتر یہی لگا۔‘‘ ہم نے پوچھا کہ ’’والدہ نے آپ کو جانے دیا؟‘‘ تو وہ بولے کہ میں دوبارہ بھی بغیر بتائے یہاں آیا، لیکن اب کے اماں کو ایسا دکھ نہ ہوا ہوگا کہ انہوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ اب یہ یہاں رکے گا نہیں۔‘

کراچی آنے کے بعد وہ رئیس امروہوی کے ہاں چلے گئے، وہ اِن کے والد کے دوست تھے، انہوں نے ’اردو کالج‘ میں کامرس میں داخلہ کرا دیا، دن میں کام کرتے اور شام میں کالج جاتے، بتاتے ہیں کہ ’رئیس امروہوی نے 100 روپے مہینے کے عوض اپنے اخبار ’شیراز‘ کی نگرانی سونپی، ہم سید محمد عباس اور جون ایلیا، بولٹن مارکیٹ سے آگے واقع دفتر ہی میں رہتے تھے، جون بھی مجھ سے 12 دن پہلے پاکستان آئے تھے۔ ہم دفتر سے پیدل رئیس صاحب کے گھر کھارادر جا کر کھانا کھاتے تھے۔‘

اخبار ’شیراز‘ کے حوالے سے شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ اس میں ٹینڈر نوٹس، عدالتی نوٹس اور کچھ ’کے ڈی اے‘ وغیرہ کے اشتہارات آجاتے تھے۔ میں نے اخبار چار صفحوں سے ایک صفحے کا کر دیا، جس سے 800 روپے ماہانہ بچت ہوتی، اس میں ہمارے اخراجات اور رئیس صاحب کی مے نوشی کا خرچ نکل آتا تھا۔

’’جب جون ایلیا ہندوستان سے آئے تو انہیں دق تھی۔‘‘ گفتگو کے نئے موڑ پر شکیل بھائی نے گویا تمہید باندھنا شروع کی، اور بولے کہ ’’انہیں مسلسل انجکشن لگتے تھے، ان کی صحت یابی کے بعد دونوں بڑے بھائی سید محمد تقی اور رئیس امروہوی ایک علمی وادبی ماہ نامے کے ’ڈیکلریشن‘ کی عرضی لیے الطاف گوہر کے پاس گئے۔ تب ’ڈیکلریشن‘ بڑی مشکل سے ملتا تھا، لیکن ایک ’جنگ‘ کا مدیر اور ایک قطعہ نگار اور کالم نویس تھا، اس لیے انہیں ہاتھ کے ہاتھ ہی مل گیا، یوں فروری 1958ء میں ’انشا‘ جاری ہوا۔

’شیراز‘ سے علاحدگی کا سبب شکیل بھائی ایک اشتہار کے معاملے میں رئیس امروہوی سے تَناتنی بتاتے ہیں، پھر وہ اسی دفتر میں ’انشا‘ کے لیے کام کرنے لگے، لیکن رئیس صاحب سے تعلق ویسا ہی رہا۔ وہ کہتے ہیں ’تب شاید ہی کوئی ادبی پرچا ہو، جو ایک ہزار سے زیادہ چھپتا ہو، ہم نے بھی ’انشا‘ ایک ہزار سے شروع کیا۔ ادبی پرچے عموماً بلامعاوضہ ادیبوں اور شعرا کو جاتے ہیں، کچھ خریدار بھی مل جاتے ہیں۔ مجھے یہ ذمہ ملا کہ ’انشا‘ کے اشتہار بڑھاؤں، میں مختلف کمپنیوں میں ’انشا‘ پیش کرتا اور نہایت عاجزی سے درخواست کرتا تھا، اشتہار تو چار پانچ فی صد ملتے، لیکن تعلقات بہت بن گئے۔ ہر ماہ ’رسالہ‘ جانے پر بہت سے لوگ اشتہار دینے لگے۔ ’انشا‘ وہ واحد ادبی پرچا تھا، جو فائدے میں تھا، لیکن وقت کے ساتھ یہ بچت بڑھ نہ سکی۔ اسی دوران ’اردو ڈائجسٹ‘ آیا اور مقبول ہوا، تو ہم نے ’انشا‘ کی لوح کے ساتھ ‘عالمی ڈائجسٹ‘ لکھنا شروع کر دیا۔ جس پر 11سو سے اشاعت چار ہزار ہوگئی، یہ 1961-62ء کا زمانہ تھا، مگر پھر یہ چار ہزار پر ٹھیر گیا، اب اخراجات بھی بڑھ گئے تھے۔ اس عرصے میں، میں ’بی اے‘ کر کے ’ایم اے‘ عمرانیات میں پرائیوٹ امیدوار کے طور پر داخلہ لے لیا۔

شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ یہ 1962-63ء کی بات ہوگی، صحیح تاریخیں اب یاد نہیں کہ جب ہم نے ’اردو ڈائجسٹ‘ کی طرز اپنانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد مضامین ختم کر کے مکمل ’فکشن‘ کردیا اور ’انشا‘ کی لوح ہٹا کر اس کا نام ’عالمی ڈائجسٹ‘ کر دیا۔ پھر بہزاد لکھنوی نے پراسرار واقعات لکھنا شروع کیے، جس سے ’عالمی ڈائجسٹ‘ 20 ہزار تک پہنچ گیا۔

شکیل عادل زادہ کے بقول ’انہوں نے ’انشا‘ میں مختلف سماجی مسائل پر مضامین لکھنا شروع کیے، پھر پانچ قسطوں میں امیر علی ٹھگ کے عنوان سے لکھا، جسے ’عالمی ڈائجسٹ‘ میں بھی دُہرایا۔ کچھ تو وہ واقعات ’کنفیشن آف اے ٹھگ‘ میڈوس ٹیلر (Meadows Taylor) کے اردو ترجمے سے لیے اور کچھ اپنے پاس سے لکھے، اس افسانوی انداز کو بہت پسند کیا گیا، وہ جون ایلیا کو سنا کر تصحیح کراتے اور پھر اپنی چھَپی ہوئی تحریر دیکھنے کا باقاعدہ انتظار کیا کرتے۔

گفتگو اب دھیر دھیرے اصل محور یعنی ’سب رنگ‘ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ بولے کہ یہ طے ہو گیا تھا کہ ’عالمی ڈائجسٹ‘ میں ہم تین ہی افراد ’شراکت دار‘ ہیں۔ میں اشتہارات دیکھتا، جون ایلیا اداریہ اور کہانیاں دیکھتے، جب کہ سید محمد عباس پروف وغیرہ کا کام کرتے، وہ تو میں بھی کر لیتا تھا۔ ایک دن ہمارے ایک مشترکہ دوست نقاد محمد علی صدیقی، جو ’ڈان‘ میں تنقیدی مضامین بھی لکھتے تھے، انہوں نے میری پرچے سے ’شراکت‘ کی قانونی حیثیت پر توجہ دلائی، جس پر میں نے دستاویز کی بات چلائی، تو جون اور عباس صاحب نے کہا کہ یہ تو تقی صاحب اور رئیس صاحب کا بھی ہے!‘ گویا اس واقعے کے بعد شکیل بھائی کا سفر ’سب رنگ‘ کی طرف شروع ہوگیا۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے یہ اعتماد ہوگیا تھا کہ میں کاغذ کی خریداری سے اشتہارات اور طباعت واشاعت کے تمام کام کر لیتا ہوں۔ ایوب خان کا دور تھا، ’ڈیکلریشن‘ ملنا ’درآمدی لائسنس‘ ملنے کی طرح تھا، میں نے بہت تگ ودو کر کے بالآخر پانچ نومبر 1969ء کو ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کا ’ڈیکلریشن‘ لے لیا اور چھے نومبر کو ایک چھوٹا سا رقعہ لکھ دیا کہ ’میں ’عالمی ڈائجسٹ‘ چھوڑ رہا ہوں، اگر کوئی حساب بنتا ہے، تو دے دیجیے، نہیں بنتا، تو کوئی بات نہیں۔‘ اور وہاں سے چلا آیا۔

اپنی رہائش کے حوالے سے شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ ’جب رئیس امروہوی گارڈن ایسٹ منتقل ہوئے، جہاں انہیں ’کلیم‘ میں کوٹھی ملی تھی، تو میں کھارادر کے فلیٹ میں رہنے لگا، پھر کچھ وقت کے بعد ’پاپوش نگر‘ (ناظم آباد) میں اپنے دوست فاروق مفتی کے ساتھ کرائے پر رہنے لگا۔ جون ایلیا اور عباس صاحب تو باہر نہیں نکلتے تھے، سارا کام میں ہی کرتا تھا، اس لیے رئیس امرہوی کئی بار ملنے آئے، لیکن میں کہلوا دیتا تھا کہ میں لاہور گیا ہوا ہوں۔‘

ہم نے پوچھا کہ کیا انہیں ’سب رنگ‘ کے ڈیکلریشن کی خبر ہو گئی تھی؟ تو وہ بولے کہ نہیںِ، وہ سمجھے تھے کہ میرے بہت تعلقات بن گئے ہیں، اس لیے میں کسی ’اشتہاری ایجنسی‘ سے جُڑ گیا ہوں۔

’سب رنگ‘ کے پہلے شمارے کے حوالے سے شکیل عادل زادہ نے بتایا کہ ’تیاری پہلے سے کر رہا تھا، اس لیے یکم جنوری 1970ء کو ’سب رنگ‘ جاری ہو گیا۔ دوستوں کی مدد اور کچھ جوڑے ہوئے پانچ ہزار روپے کام آئے۔ جان پہچان کےسبب ’پریس‘ نے بھی فوری پیسوں کا تقاضا نہ کیا، اشتہارات دینے والوں نے بھی ساتھ دیا۔ 160 صفحے کے رسالے میں 29-30 اشتہارات اور قیمت ڈیڑھ روپے تھی، پہلی بار پانچ ہزار چھپا، جس میں سے ساڑھے تین ہزار فروخت ہوگیا، پھر بھی فائدے میں رہا۔

قارئین میں اپنے ’تعارف‘ کے حوالے سے شکیل عادل زادہ گویا ہوتے ہیں کہ عالمی ڈائجسٹ میں، میں ’نوٹ‘ وغیرہ کے ساتھ اپنا نام دینے لگا تھا، اس لیے ’سب رنگ‘ پر میرا نام اجنبی نہ تھا۔ ابتداً ’سب رنگ‘ کو ’عالمی ڈائجسٹ‘ سے مختلف رکھا، کچھ حالات حاضرہ، کچھ معلوماتی حصہ اور کچھ ’فکشن‘، پھر دو ماہ کے بعد مکمل ’فکشن‘ کر دیا۔ تیسرے ماہ میں ہی پانچ کا پانچ ہزار ’پرچا‘ فروخت ہو گیا اور پھر پہلے سال 20 ہزار، دوسرے سال 42 ہزار، تیسرے سال 82 ہزار، پانچویں سال ایک لاکھ اور پھر ڈیڑھ لاکھ سے بھی اوپر گیا، یہ ایک ریکارڈ ہے۔

’ابن انشا‘ کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہم ان سے بہت چھوٹے تھے، لیکن ہماری بہت اچھی دوستی ہوگئی۔ ایک دن انہوں نے ’سب رنگ‘ کے لیے ممتاز مفتی کا ایک ’طبع زاد‘ افسانہ دیا۔ ہمارے ہاں افسانے پانچ، چھے آدمیوں کی رائے کے بعد شایع ہوتے ہیں۔ وہ افسانہ معیار پر نہ اتر سکا، لیکن اب میں انہیں یہ سب کیسے کہوں، چناں چہ میں نے افسانہ دبا لیا، پھر ابن انشا لندن چلے گئے، پھر کافی دن بعد ملے اور پوچھا تو انہیں سب بتا دیا۔ انہوں نے لندن سے ایک خط لکھا، جو میرے پاس محفوظ ہے کہ ’’شکیل، ’پرفیکشنسٹ‘ بننے کی کوشش مت کرو!‘‘ کیوں کہ ’سب رنگ‘ بے قاعدہ ہونے لگا تھا۔ بھئی، جب مواد اچھا ہوگا، تبھی تو چھپے گا۔ میں نقصان برداشت کر لیتا تھا، لیکن یہ طے تھا کہ جب بھی آئے گا، معیاری رسالہ ہی آئے گا۔ ایک مرتبہ تو پونے چار سال کے وقفے کے بعد آسکا، لیکن تب بھی اتنی ہی مقبولیت کے ساتھ فروخت ہوا۔‘

ہم نے ’سب رنگ‘ کے ملک سے باہر جانے کا استفسار کیا، تو وہ بولے کہ بہت کم تعداد میں دبئی اور سعودی عرب وغیرہ جاتا تھا۔ ہندوستان اسمگل ہو کر پہنچتا اور تین روپے کا رسالہ 50 روپے میں بِکتا، اور وہاں کے دوسرے ڈائجسٹوں میں نقل بھی ہوتا۔ پانچ، چھے ہزار مشرقی پاکستان بھی جاتا تھا، جو 1971ء کے بعد بند ہوگیا۔

ہم نے شکیل بھائی سے پوچھا کہ آپ نے کبھی ابن انشا کے مشورے پر عمل نہیں کیا؟ تو وہ بولے کہ ’’کر نہیں سکتا تھا۔ ’سب رنگ‘ کے باقاعدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ میں خود بھی لکھنے لگا۔ 1976ء میں ’بازی گر‘ شروع کیا، تو وہ بہت مقبول ہوا۔ اب جب تک ’بازی گر‘ کی قسط نہ لکھ لوں، ’پرچا‘ چھپنے نہیں جاتا تھا اور ’پرچا‘ نہ آنے کا مطلب نقصان ہے۔ عملے کے 22 افراد تھے، پھر 16 رہ گئے، ان کو ہر مہینے تنخواہ تو دینی ہوتی تھی۔ آخر ٹاور کا دفتر، اللہ والا ٹاؤن کا مکان اور پتا نہیں کیا کیا بیچا اور کنگالی کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔‘‘

ہم نے پوچھا کہ یہ کس زمانے کی بات ہے، تو وہ بولے کہ ’’1980ء 1985ء کی، پھر بھی کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔‘‘

’پھر انشا جی نے ٹھیک کہا تھا؟‘ ہم نے گفتگو سے منطقی نتیجہ اخذ کرنا چاہا، تو وہ بولے کہ ’’واقعہ یہی ہے۔۔۔ انہوں نے بالکل سچی بات کہی تھی، ہم نے صرف ایک نام، معیار اور عزت کمائی ہے، لیکن کام کی عزت کا لطف اب آرہا ہے۔‘‘

میر شکیل الرحمن نے کہا کہ ’سب رنگ‘ ’جنگ‘ کے بینر تلے نکلے۔ آپ کی تنخواہ ہو اور منافع میں پانچ فی صد کے ساجھے دار بھی ہوں، 20 سال پرانی دستاویز موجود ہے۔ دبئی میں میرے ایک دوست اور بزرگ ’ملک صاحب‘ نے منع کیا کہ تم نے کبھی ملازمت نہیں کی، نہیں کر پاؤ گے!، چناںچہ میں نے دستخط نہیں کیے اور ٹالتا رہا۔‘

ہم نے پوچھا آپ کے خیال میں وہ فیصلہ درست تھا؟‘ تو وہ بولے کہ معاہدہ ہو جاتا تو بہتر تھا۔ ہمیں وسائل مل جاتے، تو ہم اسے ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ جیسا ’پرچا‘ بنا سکتے تھے۔ پھر بعد میں جب اس معاہدے کی بات چلائی، تو انہوں نے ہامی تو بھری، لیکن تب وہ اپنے ’چینل‘ کی تیاری میں لگ گئے تھے۔ وہ چینل کے حوالے سے مشاورت کرتے تھے اور چینل شروع ہونے سے پہلے ہی میری تنخواہ باندھ دی تھی، اُدھر ملک صاحب کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے راشد ملک نے رابطہ کیا، انہوں نے کہا ’ہم اُتنے پیسے تو نہیں دے سکتے۔‘ اب میں بہت تھک چکا تھا، اس لیے اُس سے کچھ کم پر ’سب رنگ‘ کی فروخت کا معاملہ طے پا گیا۔

اس کی بھی نصف قیمت دی کہ باقی رقم کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد دیں گے، لیکن آج تک نہیں دی۔ پھر ’سب رنگ‘ دوبارہ آیا، وہ مجھے تنخواہ دیتے رہے، معاہدے کے مطابق دو سال کے اندر اسے ’ماہانہ‘ کر نا تھا، لیکن ہمارے دماغ میں معیاری چیز دینے کا ’’خناس‘‘ تھا، خراب چیزیں چھاپتے، تو ہر ماہ آجاتا، چناںچہ دو سال میں پانچ پرچے ہی نکال سکے، معاہدے کی رو سے یہ غلط تھا۔ انہیں شکایت ہوئی کہ نقصان ہو رہا ہے، میں نے کہا ’ڈیکلریشن‘ آپ کے نام پر ہے، آپ سنبھالیں۔ پھر انہوں نے اسے ماہ نامہ کر دیا اور برا حال ہوگیا، یہاں تک کہ اشاعت پانچ ہزار تک گر گئی، تو پھر انہوں نے بند کر دیا۔

’ڈیکلریشن‘ واپس ملنے کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ راشد ملک نے مقررہ مدت میں مطلوبہ ’ڈمیاں‘ محکمہ اطلاعات میں جمع نہیں کرائیں، تو میں نے ’ڈیکلریشن‘ کی درخواست دی، اور مجھے ’سب رنگ‘ کا ڈیکلریشن واپس مل گیا، لیکن اب نہ سرمایہ تھا اور نہ ہمت۔

اپنی بیماری سے متعلق شکیل بھائی نے بتایا کہ ’میرا 10 برس قبل ’بائی پاس‘ ہوا، اور اس سے سات برس قبل آنتوں کا کینسر ہو چکا، خوش قسمتی سے ’کینسر‘ زیادہ نہیں تھا، اس لیے آنت کا متاثرہ حصہ الگ کر دیا گیا۔‘

’آپ کو بھی ’سب رنگ‘ کا گھاؤ لگا، جیسے والد کو لگا تھا؟‘ ہمیں اُن کے والد کو رسالے کا صدمہ یاد آگیا، وہ بولے ’’بالکل، ابا کو بھی یہی تھا، لیکن اس زمانے میں علاج کی اتنی سہولتیں نہیں تھیں۔۔۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ صحافی رؤف کلاسرہ اور دیگر نے پوچھا تھا کہ ’سب رنگ‘ دوبارہ نکالیں، تو کتنے پیسے لگیں گے، میں نے کہا کم سے کم 50 لاکھ روپے تو ہونا چاہئیں۔ رؤف کلاسرہ نے کہا 10 لاکھ میں دینے کے لیے تیار ہوں، اس طرح سہیل وڑائچ، مجیب الرحمن شامی اور دیگر نے بھی کہا، الغرض پانچ آدمیوں نے مجموعی طور پر 50 لاکھ روپے دینے کی ہامی بھرلی، لیکن بات آگے نہیں بڑھی۔‘ ہم نے پوچھا کہ کیا یہ سب زبانی گفتگو ہوئی؟ تو شکیل بھائی نے بتایاکہ رؤف کلاسرہ نے اپنے کالم میں یہ سب لکھا تھا۔ پھر راول پنڈی سے ’سب رنگ‘ کے ایک عاشق نے ’ڈیکلریشن‘ خرید لیا اور کہا کہ ہم تین ماہ میں آپ کی زیر نگرانی دوبارہ ’سب رنگ‘ نکالتے ہیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا، بہت دنوں تک اُن کا ’ڈیکلریشن‘ برقرار رکھنے کے لیے میں ’ڈمیاں‘ جمع کراتا رہا، لیکن پھر چھوڑ دیا۔‘

’تو اب دوبارہ ’سب رنگ‘ نکلنے کی امید نہیں ہے؟‘ اس سوال کا جواب ہم لاکھ چاہیں کہ اثبات میں ہو، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’’میں تو نہیں نکال سکتا، اب ہمت نہیں رہی!‘‘

کراچی کی پُرتشدد تاریخ کے تناظر میں ہم نے شکیل عادل زادہ سے کسی ردعمل کا پوچھا، تو وہ بولے کہ ’انشا‘ میں کراچی کی سرگرمیاں لکھتے ہوئے ایک مرتبہ ’اردو کالج‘ کے خلاف کچھ جملے لکھ دیے۔ جس پر مشتاق احمد یوسفی نے بڑی انکساری سے کہا کہ ’’آپ سے گزارش ہے کہ کبھی کوئی ایسی تحریر نہ نہ لکھیے گا، جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو، یہ میری نصیحت ہے۔‘‘ میں نے آج تک اس بات کو گرہ سے باندھا ہوا ہے۔‘

ہم نے شکیل بھائی سے ’سب رنگ‘ میں تراجم کے حوالے سے پوچھا کہ وہ دیگر زبانوں سے لفظ بہ لفظ ترجمہ کر دیتے تھے یا ہماری سماجی اقدار کے لحاظ سے اِس میں کچھ تدوین بھی کرتے تھے؟ وہ کہتے ہیںکہ ’ایڈٹ‘ تو ہر چیز ہی ہوتی تھی، بلکہ ’سب رنگ‘ میں تو تقریباً چیزیں ’ری رائٹ‘ ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی ’اداریہ‘ سیاسی ہوتا تھا۔۔۔ اس میں ہم کبھی پروا نہیں کرتے تھے۔ جو ہم ٹھیک سمجھتے تھے، لکھ دیتے تھے۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ ادب میں بھی کبھی ہم نے یہ نہیں کیا کہ صاحب، پتا چلے کہ ہم لیفٹ سے دل چسپی رکھتے ہیں وغیرہ۔‘‘

’ایم کیو ایم‘ پر لکھا؟‘ ہم نے براہ راست پوچھا۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا، تو لامحالہ وجہ پوچھی۔ وہ بولے کہ دراصل ’سب رنگ‘ کے زمانے میں، ’ایم کیو ایم‘ اتنی نہیں تھی۔

ہم نے کہا کہ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ کراچی تجارتی شہر ہے، اس لیے یہ ادبی مرکز نہیں بن سکتا؟ جس پر وہ بولے کہ جون ایلیا کا ایک جملہ ہے کہ ’جہاں سمندر ہو، وہاں تجارت جنم لیتی ہے اور جہاں دریا ہوں وہاں تہذیب!‘ ہم نے پوچھا کہ کیا پھر کراچی میں کوئی تہذیب نہیں ہو سکتی؟ وہ بولے کہ ’’بڑے شہر میں ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

خود نوشت لکھنے کے سوال پر شکیل عادل زادہ بولے کہ ’بہت لوگ کہتے ہیں کہ میں لکھوں۔ مختلف اخبارات میں ’کالم‘ لکھنے کی پیشکشیں ہوئیں، میں نے سوچا ہے کہ اگر ’کالم‘ لکھنے پڑے، تو پھر سیاست پر لکھنا تو میرا مزاج نہیں، اس لیے پھر اس میں، میں اپنی یادداشتیں لکھوں گا۔

ایک نجی انٹرٹینمنٹ چینل سے بطور’چیف اسکرپٹ ایڈیٹر‘ وابستہ شکیل عادل زادہ نے اس ’گروپ‘ کے خبری چینل کی اردو بھی درست کی۔ وہ مشہور ڈراما نگار نور الہدیٰ شاہ کے اسکرپٹ کو عمدہ اور مکمل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسکرپٹ اور کہانی لکھنا، دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ اسکرپٹ لکھنا تیکنیکی اور مشکل کام ہے۔ سچی بات ہے کہ میں نے کوشش کی میں تو اس میں ناکام ہو گیا۔

’مدیر‘ کو لکھنا نہیں چاہیے۔۔۔!
ہم نے شکیل عادل زادہ سے اُن کے اِس خیال کی بابت استفسار کیا کہ ’مدیر کو لکھنا نہیں چاہیے‘ تو وہ بولے کہ دیکھیے، جتنے بڑے بڑے اخبار ورسائل کے مالکان تھے، وہ لکھتے نہیں تھے، بہت سے مدیران، جو لکھ سکتے تھے، لیکن نہیں لکھتے تھے۔ ’جنگ‘ کا اداریہ سید محمد تقی لکھتے تھے، اگر کبھی وہ نہ لکھیں، تب میر خلیل لکھتے تھے۔ مدیر جب لکھنے لگتا ہے، تو پھر اس کی توجہ لکھنے میں زیادہ ہو جاتی ہے۔ میں پہلے رسالے کو 50 فی صد کاروبار کہتا تھا، لیکن اب 75 فی صد کہتا ہوں۔ آپ باقاعدہ اس کی تشہیر کرتے ہیں، اِسے دیدہ زیب بناتے ہیں۔ اس کا معیار بھی اسی میں شامل ہے، کیوں کہ معیار بھی تو رسالے کی ساکھ اچھی بناتا ہے۔

جب ’سب رنگ‘ 50 ہزار شایع ہوگا تب شادی کروں گا!
شکیل عادل زادہ کو ایک ناکام محبت کے تجربہ رہا، کہتے ہیں کہ کچھ میری وجہ سے اور کچھ دیگر صورت حال ایسی تھی کہ وہاں شادی نہیں ہو سکتی تھی۔ فروری 1972ء میں وہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ یہ پسند اور ’ارینج‘ ملی جلی تھی۔ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں نے کہا تھا جب ’سب رنگ‘ کی اشاعت 50 ہزار ہوجائے گی، تب شادی کروں گا، اور یہ جلد ہی ہوگئی! والدہ بھی شادی میں شریک ہوگئیں۔ والدہ اور میرے بہن، بھائی وہیں رہے، والدہ کے انتقال پر ہندوستان نہ جا سکا۔

’’بازی گر‘‘ قارئین کے ساتھ ’ناظرین‘ کے لیے بھی مکمل ہونے کو ہے!
شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ 15 برس قبل جب ’سب رنگ‘ کے اُس وقت کے مالکان نے ’بازی گر‘ مختلف لوگوں سے لکھوایا، تو پڑھنے والے بتاتے ہیں کہ ویسا معیار نہیں تھا۔ ’بازی گر‘ کی کتابی صورت کے حقوق کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’جاسوسی ڈائجسٹ‘ والے معراج رسول کے بھائی اعجاز رسول سے دوستی تھی، انہوں نے 25 ہزار روپے فی کتاب مجھے دیے، لیکن یہ طے نہیں ہوا تھا کہ یہ پہلے ایڈیشن کے ہیں یا دوسرے ایڈیشن کے۔ اب ’بازی گر‘ لاہور کے ایک نجی پروڈکشن ہائوس نے سیریل بنانے کے لیے خرید لیا ہے، انہیں کہا ہے کہ اسکرپٹ تو میں نہیں لکھ سکتا، آپ لکھ کر مجھے دکھا دیں، اب وہ آخری قسط کا انتظار کر رہے ہیں۔ آخری حصے کا وہ نصف حصہ لکھ چکا ہوں، جو پچھلی اقساط کے تسلسل میں ہے، اس کی ضخامت سوا سو صفحات ہے، اب آخری حصہ لکھنا باقی ہے، جس میں اُسے ختم کرنا ہے، اگلے ماہ صاحب زادی کی شادی کی مصروفیات کے سبب یہ کام ذرا چُھوٹا ہوا ہے، توقع ہے کہ سال بھر میں مکمل ہو جائے گا۔

رام پور سے پیدل مراد آباد چل پڑے۔۔۔!
شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ اُن کی نانی رام پور سے بیاہ کر مراد آباد آئی تھیں، اس لیے بہت سے ننھیالی رشتے دار رام پور میں رہتے تھے، اُن کے ایک ماموں ذرا توتلے تھے، وہ ان کی شادی پر رام پور گئے، تو انہیں حسب عادت چھیڑ رہے تھے، کہتے ہیں کہ میں تو انہیں ذرا ’رازداری‘ سے چھیڑ رہا تھا، لیکن انہوں نے سب کے سامنے مجھے ڈانٹ دیا، جس پر خفا ہو کر شیروانی پہنے پہنے ہی مراد آبا کو چل پڑا۔ وہاں سے ریلوے اسٹیشن ہی تین کلو میٹر دور تھا۔ وہاں پہنچا تو کسی ریل گاڑی کا وقت نہ تھا، جیب میں صرف تین آنے تھے، چناں چہ ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا رہا، راستے میں کسی صاحب نے سائیکل پر بٹھا لیا، تو کچھ مسافت ان کے ساتھ طے کی اور پھر رات تک مراد آباد پہنچ گیا۔

ضیاالحق بولے کہ سرورق پر میری تصویر چھاپو گے تو کوئی پڑھے گا نہیں!
شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ سرکاری اشتہار کے بغیر رسالہ تو چل سکتا ہے، لیکن اخبار کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ ’سب رنگ‘ کو بھی یہ بندش سہنا پڑی۔ اس کی تفصیل وہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ’سی پی این ای‘ (کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز) کی تقریب میں سربراہ انور خلیل سب مدیران کا تعارف جنرل ضیاالحق سے کرا رہے تھے۔ جنرل ضیا اُن سے ملے تو بولے ’سب رنگ‘ کی بڑی تعریف سنی ہے، میں نے تو کبھی پڑھا نہیں۔ سنا ہے بہت چَھپتا ہے، بڑی خوشی ہوئی مل کے۔‘ بعد میں انہوں نے انور خلیل سے کہہ کر جنرل ضیا سے ملاقات کی، تاکہ خواتین کے ’ماہ نامے‘ کی ’ڈیکلریشن‘ کی درخواست آگے بڑھ سکے، پانچ منٹ ملاقات طے ہوئی، جو25 منٹ چلی۔ ’سب رنگ‘ پیش کیا، تو ضیا الحق بولے کہ ’’اس میں عورت کی تصویر لازمی ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ میری تصویر چھاپ دو، پھر تو کوئی پڑھے گا نہیں۔‘‘ جس پر شکیل عادل زادہ نے کہا سرورق دیدہ زیب رکھنے کی خاطر ایسا کرتے ہیں۔

پھر پوچھا کہ مذہبیات پر کیا چھاپتے ہیں، تو ’تصوف‘ کے مضامین کا ذکر کیا، وہ کہنے لگے کہ تصوف کے علاوہ؟ پھر ’ڈیکلریشن‘ پر بولے اتنے رسالے ہیں، اب آپ کو کیا ضرورت ہے؟ کہا کہ کوئی اچھا ’پرچا‘ آجائے گا۔ وہ بولے کچھ کرتے ہیں، آپ ’سب رنگ‘ کے کچھ اور شمارے بھیجئے، اگلے دن محکمہ اطلاعات نے ’سب رنگ‘ منگالیے، جس کے بعد ’ڈیکلریشن‘ تو کیا ملتا، الٹا ’سب رنگ‘ کے اشتہارات اور کاغذ کا کوٹا ہی بند کر دیا گیا۔ شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت کمپیوٹر پر اردو نہیں آئی تھی، انہوں نے ضیاالحق کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بالجبر اردو ٹائپ نافذ کر دیں، تاکہ اردو اخبار ترجمے کی مشقت سے بچ جائیں۔ وہ بولے کہ اس سے کاتب تو بے روزگار ہو جائیں گے!n

ماجرا ’’شکیلہ جمال‘‘ کے خطوط کا۔۔۔
شکیل عادل زادہ بتاتے ہیںکہ رسالے ’بیسویں صدی‘ میں افسانوں کے ساتھ ادیبوں کا پتا بھی شایع ہوتا تھا۔ مجھے خط کتابت کا بہت شوق تھا، یہ ’خط وکتابت‘ لکھنا غلط ہے۔ تو ہم وہاں سے پتے دیکھ کر افسانوں پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے، لیکن کبھی کوئی جواب نہ آیا۔ جب ’شکیلہ جمال‘ کے نام سے خط لکھے، تو جواب آنے لگے، اس طرح اُس زمانے کے بہت سارے ادیبوں کو لکھا۔ دلی کے ایک قلم کار سے معاملہ رومانوی ہوگیا، یہاں تک کہ وہ ملنے مراد آباد چلے آئے۔ میں انٹر میں تھا، کالج سے گھر لوٹا، تو امّاں نے بتایا کہ کوئی صاحب شیروانی پہنے ہاتھ میں بیگ لیے ’شکیلہ جمال‘ کا پوچھ رہے تھے۔

امّاں کو یہ ماجرا پتا تھا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ’شکیلہ جمال‘ تو بریلی گئی ہوئی ہے، البتہ ان کے بھائی شکیل ہیں، جو کالج گئے ہوئے ہیں۔ تو وہ بتا گئے کہ وہ آجائیں، تو اسٹیشن کی ’انتظار گاہ‘ میں بیٹھا ہوا ہوں۔ میں جب وہاں گیا، تو اس دوران وہ پھر گھر آگئے۔

دو بار ایسا ہوا کہ وہ یہاں اور میں وہاں، تیسرے پھیرے پر ہمارے ایک عزیز نے پوچھا، تو وہ بولے کہ میں شکیل صاحب کو تلاش کر رہا ہوں، ان کی بہن ہیں، شکیلہ جمال، ان کے لیے میں یہ کتابیں لایا تھا۔ اُن صاحب نے بتا دیا کہ ’شکیلہ‘ کوئی نہیں ہے، یہ شکیل ہی شکیلہ بن کر خط لکھتا ہے! بعد میں شکیل بھائی نے یہ ماجرا شکیل بدایونی کو بتایا تو انہوں نے وہ خطوط بمبئی منگائے اور نوشاد صاحب کو بھی پڑھوائے، وہ بھی بہت ہنسے اور بولے کہ ان سے کہو کہ یہ کھیل نہ کھیلے، چناں چہ پھر یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ ’شکیلہ جمال‘ والے خطوط کا پلندہ واپس مل گیا، لیکن پھر کراچی آنے کے باعث وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔

’کمرۂ امتحان‘ لکھنا غلط ہے؟
ہم نے اردو کے الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ کے آخر میں ’ہ‘ یا ’الف‘ لگانے کا معاملہ چھیڑا، تو وہ بولے کہ ’لکھنے والوں کا کام ہے کہ وہ اس کا خیال رکھیں کہ جو لفظ ہندی کا ہے وہ ’ہ‘ پر ختم نہیں ہو سکتا۔ جیسے ’روپیا‘ اور ’پیسا‘ وغیرہ۔ آپ آٹا کیوں ’ہ‘ پر ختم نہیں کرتے؟ اس لیے کہ ’ٹ‘، ’ڈ‘ اور ’ڑ‘ والے سارے لفظ ’ہندی‘ یا ’انگریزی‘ وغیرہ سے آئے ہیں، وہ الف پر ہی ختم ہوں گے۔‘ ہم نے کہا ’کمرا‘ اگر الف سے لکھیں، تو ’کمرۂ امتحان‘ کی ترکیب کا کیا ہوگا؟ وہ بولے کہ ’غلط ہے، کمرا ’الف‘ سے اس لیے ہوگا کہ پرتگالی زبان سے آیا ہے۔ اس لیے ’امتحانی کمرا‘ کہنا چاہیے۔n

اردو آپ کے گھر میں بھی اجنبی۔۔۔؟
شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ اُن کے صاحب زادے نے لندن سے آئی ٹی میں ماسٹرز کیا، گھر میں چار پانچ اخباروں میں سے صرف وہ انگریزی کا اخبار چھوتے تھے۔ ’آپ کے گھر میں بھی اردو اجنبی ہو رہی ہے؟‘ ہم نے حیرانی ظاہر کی تو وہ بولے کہ ’’ہاں۔۔۔ بیٹی نے مائیکرو بائلوجی پڑھی، وہ کچھ اردو جانتی ہے، لیکن ادب سے اسے کوئی دل چسپی نہیں۔ یہ انفرادی رجحان ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کا بیٹا علامہ اقبال نہیں ہوتا!‘‘

شکیل عادل زادہ کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ صاحب زادے شادی شدہ ہیں اور کینیڈا میں رہتے ہیںِ۔ بڑی بیٹی بھی اپنے گھر کی ہیں، چھوٹی بیٹی کی اگلے ماہ شادی ہے، وہ آرٹ پڑھاتی ہیں۔ ان کا رجحان بھی نہیں۔
’آپ نے شروع میں بچوں کو اردو کی طرف راغب نہیں کیا؟‘ ہم نے ذہن میں آنے والے بے چین سوال کو راہ دی، تو وہ بولے کہ ’’اردو میں اچھے اسکول ہی نہیں تھے!‘‘ ہم نے کہا کہ وہ تو نصابی معاملہ ہوگیا، لیکن گھر کی سطح پر؟ تو وہ بولے کہ ہم گھر میں خود اچھی اردو بولتے ہیں، لیکن اردو ادب سے انہیں کوئی دل چسپی نہیں، کوئی کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ بچپن میں بچوں کے رسائل کی طرف راغب کرنے کے ذکر پر وہ کہتے ہیں کہ ’’نہیں، وہ بھی انگریزی کے پڑھے۔‘‘

وہ نظام تعلیم کو قصوروار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری ذرا بھی آمدنی بڑھتی ہے، تو ہماری ترجیح انگریزی اسکول ہوتے ہیں، پھر ہم روتے رہیں کہ اردو اور کتاب کا رواج ختم ہو رہا ہے۔۔۔ بھئی یہی ہوتا رہے گا۔ دیکھیے، جس زبان میں روزگار ملتا ہے، وہ زبان چلتی ہے۔ آپ اردو میں ایم اے کریں، کوئی ملازمت نہیں ملے گی، انگریزی میں کریں، تو فوراً مل جائے گی۔ آپ اُسے روتے رہیں، میں نہیں روتا۔ پہلے فارسی تھی، مرزا غالب اسی زمانے میں زندہ تھے، ان کے اس شعر میں پہلا مصرع مکمل فارسی میں ہے؎

بوئے گل، نالۂ دل، دوِدِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

اردو ’بولی‘ کے طور پر ہمیشہ رہے گی
’’ہم بچا نہیں سکتے اردو کو؟‘‘ ہمارے اس استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ ’’ممکن نہیں ہے! یہ بولنے والی زبان کے طور پر ہمیشہ رہے گی، چوں کہ ہندوستان کی ’ہندی‘ اس کی معاونت کرتی ہے۔ ’ہندی‘ سے ہی اردو بنی تھی۔۔۔ سیدھی سی بات ہے۔ ورنہ اردو کیسے بنتی۔‘‘ گویا آپ ہندی رسم الخط کو اصلی مانتے ہیں؟‘ ہمارے ذہن میں فوراً یہ سوال آیا وہ بے ساختہ بولے ’نہ۔۔۔! رسم الخط کی بات دوسری ہے۔‘‘ ہم نے کہا ظاہر ہے وہ اُسے دوسرے رسم الخط میں لکھتے ہیں، تو ’ہندی‘ ہو جاتی ہے۔ تو انہوں نے اتفاق کرتے ہوئے کہا وہ دیوناگری کے بہ جائے اُسے ’خطِ نستعلیق‘ میں لکھیں، تو وہ اردو ہو جاتی ہے۔ اِدھر کچھ فارسی وعربی کے الفاظ شامل ہو جاتے ہیںِ، جس کی تعداد 30 فی صد سے زیادہ نہیں۔‘ ہم نے عربی وفارسی کے الفاظ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ الفاظ تو وہ بھی استعمال کر رہے ہیں، جیسے ’سلطان‘ نام کی تو فلم بنی۔‘ جس پر انہوں نے ٹکڑا لگایا کہ ’مغل اعظم‘ بھی بنی، لیکن اب ’مغل اعظم‘ انہی مکالموں کے سا تھ دکھائی جائے، تو وہ کوئی نہ سمجھے۔‘n

کیا تقسیم ہند نے اردو کو نقصان پہنچایا۔۔۔؟
’’بٹوارے نے نقصان پہنچایا اردو کو؟‘‘ ہمارے اس سوال پر وہ دو ٹوک انداز میں بولے ’’کوئی شبہ ہی نہیں ہے اس میں۔۔۔!‘‘
’اردو کے لیے پاکستان بنا اور الٹا اردو کو ہی نقصان ہو گیا؟‘ ہم نے استدلال کیا، تو وہ بولے کہ ’اردو کے لیے پاکستان نہیں بنا، صرف اسلام کے لیے بنا، بلکہ اسلام کے لیے بھی نہیں، مسلمانوں کے لیے بنا۔ دیکھیے، تقسیم سے پہلے کا منظر ذہن میں رکھیے، فارسی ختم ہو رہی ہے، جواہر لعل نہرو اپنے دستخط اردو میں کر رہے ہیں، ان کی شادی کا کارڈ اردو میں ہے۔ ہندو خوب اردو پڑھتے، باقاعدہ شاعری کرتے، نعت تک کہتے تھے، چکبست، فراق گورکھ پوری، بیدی اردو کا ایک بہترین سلسلہ تھا۔ میرے ایک ہندو دوست کے ابا نے اپنی بیٹی کی شادی کا خط یہاں اردو میں بھیجا۔ یہاں پاکستان کے لوگوں کو قطعاً یہ نہیں معلوم کہ وہ تو 70 فی صد ’ہندی‘ بول رہے ہیں۔ اب آپ رسم الخط کی بات کر رہے ہیں۔ ہندی رسم الخط دنیا کے مکمل ترین رسم الخطوں میں سے ایک ہے، اس میں اِعراب کی ایسی شکل بنا دی گئی ہے کہ غلط لکھا ہوا ہو تو غلط پڑھ سکتے ہیں، ورنہ کبھی غلط نہیں پڑھا جائے گا۔ اس میں ایسی ’ماترائیں‘ ہیں، جو زبر، زیر اور پیش کی خبر دیں گی، عربی، فارسی اور انگریزی میں ایسا نہیں۔‘

ہم نے ’ہندی‘ رسم الخط کے مصنوعی ہونے کا استفسار کیا، تو انہوں نے نفی کی اور کہا ہندی رسم الخط تو بہت پرانا ہے۔‘ ہم نے پوچھا کہ کیا پھر دونوں رسم الخط قدرتی ہیں، تو اُن کا کہنا تھا کہ قدرتی نہیں کہہ سکتے، ظاہر ہے رسم الخط لوگوں نے ہی کوشش کر کے بنائے۔

شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ 1947ء سے پہلے اردو رسم الخط زیادہ چلتا تھا۔ ہندی، اردو کا تنازع تقسیم سے ہوا اور اس سے پہلے آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ’ہندو مسلم‘ عصبیت شروع ہو چکی تھی۔
’اگر بٹوارا نہ ہوتا تو اردو رسم الخط غالب ہوتا؟‘ شکیل بھائی ہمارے اس براہ راست سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ بہت زیادہ! لیکن یہ مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی تھی۔ شمالی ہندوستان کے علاوہ دیگر ریاستوں کی اپنی زبانیں ہیں۔ البتہ اُن کی فلموں کی وجہ سے شہروں کی زبان ’ہندی‘ ہوگئی۔ جیسے ہمارے شہروں میں سب اردو بول لیتے ہیں، وجہ؟ ضرورت! اسی ضرورت کے تحت حیدر آباد میں ایک ’مہاجر‘ سندھی بھی جانتا ہے۔

’’اگر بٹوارا نہیں ہوتا تو کیا پھر پورے خطے کی زبان ارود ہوتی؟‘‘ ہم نے ایک تاریخی مفروضہ پیش کیا تو وہ بولے ’بٹوارا نہیں ہوتا، تو اردو کا یہ نقصان نہیں ہوتا۔ دیکھیے نقصان کیا ہوا، حساب لگا لیتے ہیں۔ ہندوستان میں ہندوئوں نے کہا یہ تو مسلمانوں کی زبان ہے اور اردو کا نام ونشان مٹا دیا، اب وہاں اردو کی کتابیں تو چھپتی ہیں، لیکن وہ سب رسمی ہے، وہاں سے میرا بھانجا تک مجھے ’ہندی‘ میں خط لکھتا ہے۔ میں وہاں ’ریختہ‘ کی کانفرنس میں گیا، وہاں کسی بورڈ پر اردو لکھی ہوئی نہیں دیکھی، دلی اسٹیشن اور کچھ سڑکوں پر بے شک اردو لکھی ہوئی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد یہ اور ختم ہو جائے گی۔ ثابت یہ ہوا کہ جہاں ہندو بھی اردو بولتے تھے، وہاں اردو کا قلع قمع ہوگیا۔ اب آجائیں سابقہ ’مشرقی پاکستان‘ میں، وہاں اب کوئی اردو جانتا تک نہیں۔ البتہ یہاں رابطے کی زبان ہونے کے سبب اردو ’بولی‘ کی حد تک محفوظ رہے گی۔

The post اب دوبارہ ’سب رنگ‘ نکالنے کی ہمت نہیں رہی، شکیل عادل زادہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2TXk8Xl

خواجہ خورشید انور

میانوالی: کمال دین اور جما ل دین تجارت کی غرض سے کشمیر سے ہجرت کرکے لاہور آئے تو اس خاندان میں خواجہ فیروزالدین جیسے انسان نے بھی جنم لیا جو بعدازاں پیشے کے اعتبار سے بیرسٹر اور مسلم لیگ ک رکن ہونے کے علاوہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔

وہ موسیقی کے  قدردان بھی تھے تاہم ان کے بیٹے خواجہ خورشید انور کا شمار دنیا کے عظیم و نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے جو 21 مارچ 1912بروز جمعرات شعر و نغمہ کی سرزمین میانوالی کے محلہ بلوخیل میں پیدا ہوئے والد خواجہ فیزوزالدین اس وقت میانوالی میں وکالت کرتے تھے۔

دادا خواجہ رحیم بخش ڈپٹی کمشنر تھے جب کہ نانا شیخ عطا محمد میانوالی میں سرجن تعینات تھے جو قومی شاعر سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کے سسر (کریم بی بی کے والد) تھے۔ اس طرح علامہ محمد اقبال ؒ خواجہ خورشید انور کے خالو تھے۔ خواجہ خورشید انور نے 1928میں سینٹرل ماڈل اسکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1929میں گورنمنٹ کالج کے شعبہ سائنس میں داخلہ لیا۔ تھرڈ ایئر میں پہنچے تو ان کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہوگئی جو اس زمانے میں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرکے کالج میں داخل ہو ئے تھے۔

دونوں آرٹس کے شعبے میں تھے ان دنوں ہندوستان میں سیاسی ہیجان کا عالم تھا ملکی سیاست میں تشدد داخل ہوچکا تھا۔ جلیاں والا باغ کے قتل عام اور خلافت تحریک کے بعد بھگت سنگھ کی تحریک زوروں پر تھی اور نوجوان اس طرف مائل ہو رہے تھے۔

خواجہ خورشید انور بھی اس تحریک کا حصہ ہو گئے اور اس طرح آگے بڑھے کہ کالج کی لیبارٹری میں دیسی ساخت کے بم بناتے ہوئے دیکھ لیے گئے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم والدین کے تعلقات اور خاندانی اثرورسوخ کی وجہ سے اگرچہ جلد رہا کردیے گئے مگر اس واقعے کے بعد ان کا دل اچاٹ ہو گیا اور والد خواجہ فیروز الدین کی بیٹھک میں انڈین کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی کے ریکارڈ سے اپنے ذوق کو تسکین پہچانے لگے۔ جہاں اس بیٹھک میں استاد توکل حسین خان ، استاد عبد الوحید خان، استاد عاشق علی خان اور چھوٹے استاد غلام علی خان آتے تھے میزبانی کے فرائض خواجہ خورشید انور اور فیض احمد فیض سرانجام دیتے۔

والد نے خواجہ خورشید انور کو استاد توکل حسین خان کی شاگردی میں دے دیا تو موسیقی سیکھنے کے ساتھ انہوں نے پڑھائی بھی جاری رکھی اور 1935میں پنجاب یونی ورسٹی میں ایم اے فلسفہ کے امتحان میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے۔ اس موقع پر پنجاب یونی ورسٹی کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد تھا انہیں طلائی تمغہ دیا جانا تھا۔ انگریز چانسلر اس وقت مہمان خصوصی تھے اور حیرت کی بات ہے کہ عین اسی وقت خواجہ صاحب لاہور میں ایک محفل موسیقی میں شرکت کر رہے تھے جس میں ہندوستان بھر کے ممتاز موسیقار اور کلاکار حصہ لے رہے تھے۔ کمپیئر نے جب طلائی تمغے کے لیے خواجہ صاحب کو بلایا تو وہ تو وہاں موجود نہ تھے۔ اس موقع پر انگریز چانسلر نے کہا کہ جس نے بھی یہ پوزیشن لی ہے وہ صحیح معنوں میں فلسفی ہے۔ دراصل انہیں کسی اور چیز سے زیادہ موسیقی سے شغف تھا اس کے باوجود انہوں نے ایم اے فلاسفی میں ہندوستان میں اول اور آئی سی ایس میں نمایاں ترین پوزیشن حاصل کی۔

خواجہ خورشید انور خان صاحب خواجہ توکل حسین خان سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد 1939میں آل انڈیا ریڈیو دہلی سے منسلک ہو گئے اور وہاں پر میوزک پروڈیوسر کے طور پر انجام دہی کرنے لگے۔ 1940میں اے آر کاردار ممبئی میں پنجابی فلم کڑھائی بنا رہے تھے تو ان کی نگاہ خواجہ صاحب پر پڑی، ان کو دعوت دی اور یہ پیش کش خواجہ صاحب نے قبول کرکے آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ حالاںکہ اس وقت مشہور زمانہ موسیقار آرسی بورال ماسٹر غلام حیدر، شیام سندر، برمن، نوشاد اور فیروز نظامی کا طوطی بول رہا تھا، لیکن خواجہ صاحب کی انفرادیت اور فن پر عبور نے جلد ہی انہیں ایک اہم مقام پر پہنچا دیا “کڑھائی” میں کام یابی کے بعد خواجہ صاحب نے اشارہ ، پرکھ، یتیم، پروانہ، پگڈنڈی، آج اور کل، نگار، نشانہ اور نیلم پری کی موسیقی ترتیب دے کر اپنی آمد کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ پھر 1946اور 1949میں سال کے بہترین موسیقار کا اعزاز حاصل کرکے دنیائے موسیقی میں ہلچل مچا دی۔

انہوں نے ان موسیقاروں کی تربیت بھی کی جنہوں نے بعدازاں خوب نام کمایا۔ ان میں کوسی رام چندرروشن، اوپی نیر اور مختیار قریشی نمایاں ہیں۔ 1950میں جب خواجہ صاحب پاکستان تشریف لائے تو یہاں ماسٹر غلام حیدر، بابا چشتی، فیروزنظامی اور رشید عطرے کا موسیقی میں ڈنکا بج رہا تھا، لیکن پانچ سال بعد فلم “انتظار” میں کہانی اور موسیقی ترتیب دے کر سب کو پیچھے چھوڑ دیا، کیوںکہ 1956میں یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے باکس آفس پر کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کردییے اور تینوں شعبوں میں سال کے بہترین فلم ، بہترین کہانی اور موسیقی کے صدارتی ایوارڈ بھی”انتظار” ہی نے حاصل کیے اور ان کے گانوں نے بھی پاک و ہند میں مقبولیت حاصل کی جن میں

“جس دن سے پیادل لے گئے”

“او جانے والے رے”

“آ بھی جا ”

وغیرہ شامل تھے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جھومر، ہیررانجھا، گھونگھٹ ، چنگاری، شیریں فرہاد، زہر عشق، ایاز، مرزا جٹ، حویلی، کوئل اور نیلم پری جیسی فلموں میں اتنی اچھی اور معیاری موسیقی ترتیب دی کہ اپنے 40 سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے صرف 31 فلموں کی موسیقی ترتیب دے کر 10فلموں میں انہوں نے سال کے بہترین موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا فلم ہیر رانجھا کا نغمہ

ـ” سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے”

بلاشبہہ خواجہ خورشید انور اور ملکہ ترنم نور جہاں کے گیتوں میں شاہکار کا درجہ حاصل کر گیا اسی طرح

” مجھ کو آواز دے کہاں ہے چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا دل رم جھم پڑے پھوار، او جانے والے رے ٹھہروذرا رک جاؤ” جیسے گیتوں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔

ماچس کی ڈبیا پر دھنیں تخلیق کرنے والے خواجہ خورشید انور کی فلم انتظار کو پاکستانی صدر سکندر مرزا ایران کے دورے پر ساتھ لے گئے تو وہاں شہنشاہ ایران نے ان کی موسیقی کی تعریف کی اور انہیں “کنگ آف میلوڈی” کا خطاب دیا۔ انڈیا کے دورے میں بھارتی صدر ڈاکٹر رادھا کشن نے بھی اس فلم کو بے حد پسند کیا۔ اسی فلم سے میڈم نورجہان کو ملکہ ترنم کا خطاب ملا۔ اس فلم کو تین ایوارڈ ملے۔

1958میں معرکۃ الآرا فلم زہر عشق ریلیز ہوئی تو خواجہ خورشید انور نے میانوالی سے تعلق رکھنے والے نام ور میوزک ڈائریکٹر ریڈیوپاکستان کے اسٹیشن ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی کی بیٹی ناہید نیازی کو بطور گلوکارہ متعارف کرایا جن کی جادو بھری آواز نے شائقین کے دلوں کو مسخر کرلیا۔

” چلی رے چلی رے بڑی آس لگا کے چلی رے” اپنے دور کا مشہور گانا ثابت ہوا۔ عظیم موسیقار خواجہ خورشیدانور کو برصغیر کے چوٹی کے موسیقاروں میں شمار کیا جاتا ہے وہ ایک صاحب طرز موسیقار تھے جنہوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر فلمی گانے کمپوز کیے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ فلم “جھومر” میں ناہید نیازی کے گائے ہوئے گیت” مو ہے پیا ملن کو جانے دے بیر نیا” کے بارے میں موسیقار اعظم نوشاد نے کہا تھا کہ خورشید انور یہ گانا میرے نام کر دیں تو میں اپنے نغمات ان کے نام کرنے کو تیار ہوں۔

خواجہ خورشید انور نے ایک نئے انداز سے موسیقی ترتیب دی اور متعارف کرائی جس میں ردھم کی روانی اور استائی اور انترہ کے مابین سازوں کی خوبصورت مگر مختصر کمپوزیشن یعنی” پیس” بنانے کی شروعات کیں اس طرح ایک نئے رجحان کا آغاز ہوا اور اس نئی روایت کے پیش نظر محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت محمود، آشا بھوسلے، وغیرہ کے لیے راستہ ہموار کیا جس کا سبب یہ ہوا کہ برصغیر کے فلمی موسیقی کا سنہرا دور ثابت ہوا اور خواجہ خورشید انور ہی کی موسیقی کی وجہ سے وہ گیت تیار ہوئے کہ جنہیں صدیوں تک سنا جاتا رہے گا۔ خواجہ صاحب علم موسیقی کے بے کراں سمندر تھے وہ نہ صرف موسیقی کے مختلف پہلوؤں کا عمیق جائزہ لیتے بلکہ گانے والے کی آواز کی کوالٹی بھی ہر طرح سے پرکھتے۔ خواجہ خورشید انور نے لاتعداد انعامات اور ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

1946ء، 1949ء، 1956ء، 1958ء، 1962ء، 1964ء، 1967ء، 1970ء، 1978اور 1982میں انہوں نے پروانہ، سنگھار، انتظار، زہرعشق، گھونگھٹ، ہمراز، چنگاری، ہیر رانجھا، حیدر علی اور مرزاجٹ پر سال کے بہترین موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل کیا جب کہ 1980میں انہیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔ فلمی موسیقی ترتیب دینے کے علاوہ انہوں نے آہنگ خسروی کے عنوان سے تیس لانگ پلے پر مشتمل البم تیار کی جواب کیسٹس اور سی ڈیز میں دست یاب ہے۔

ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون اور راگ مالا تخلیق کرنے والے خواجہ خورشید انور کو 1982میں انڈین فلم انڈسٹری کی جانب سے ” فانی انسان لا فانی گیت ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ خواجہ صاحب کو اس کے باوجود اپنی جنم بھومی سے بے حد پیار تھا۔ انہیں جب بھی فرصت ملتی تو میانوالی ضرور تشریف لاتے۔ بابائے تھل فاروق روکھڑی ( ہم تم ہوں گے بادل ہوگا۔۔۔کے شاعر) سے ان کے بہت اچھے مراسم تھے۔ ان کے کئی گیتوں کی دھنیں بھی خواجہ خورشید انور نے بنائیں۔ وہ جب بھی میانوالی آتے تو ان کے گھر کندیاں میں ضرور قیام کرتے۔

تنہائی پسند کم گو خوش گفتار، خوش مزاج، باوقار شخصیت کے مالک خواجہ خورشید انور نے 40 سالہ طویل فلمی سفر میں 14 سال انڈیامیں گزارے اور 11 فلموں کی موسیقی دی، 26 سال پاکستان میں کیریر جاری رکھا اور20 فلموں کو اپنی موسیقی سے سجایا، یوں انہوں نے کُل 31 فلموں میں موسیقی دینے کے علاوہ 250گیتوں کی لازوال دھنیں تخلیق کیں۔

برصغیر میں موسیقی کے بے تاج بادشاہ خواجہ خورشید انور طویل علالت کے بعد 30اکتوبر 1984بروز منگل بوقت دو پہر 2 بجے اس جہان فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوچ کرگئے۔ انہیں لاہورکے میانی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

موسیقی کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی یا تخلیق کی جائے گی برصغیر کے عظیم و نامور موسیقار خواجہ خورشید انور کے نام کے ساتھ میانوالی میں پیدا ہونے کی وجہ سے میانوالی کا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

The post خواجہ خورشید انور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2GpNju4

وزیراعظم عمران خان کل ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچیں گے

اسلام آباد: کامیاب جوان پروگرام کے تحت سندھ میں قرض کی تقسیم کے آغاز کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کل ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچیں گے۔

وزیراعظم کامیاب جوان پروگرام کے تحت نوجوانوں میں قرض کی تقسیم کا سندھ میں آغاز ہوگیا۔ وزیراعظم عمران خان کل ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچیں گےاور سندھ بھر سے منتخب نوجوانوں میں رقم کے چیک تقسیم کریں گے۔

نوجوانوں میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب گورنر ہاؤس کراچی میں منعقد ہوگی، تقریب کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ وزیراعظم تقریب سے خطاب کریں گے جب کہ وفاقی وزراء اور نوجوانوں کی بڑی تعداد تقریب میں شریک ہوگی۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈارکا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے نوجوانوں کے لئے ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ بجٹ مختص کیا ہے، سندھ کے لاکھوں نوجوان کامیاب جوان پروگرام کے بینر تلے آ چکے ہیں۔ کامیاب جوان پروگرام سے روزگار میں اضافہ اور غربت میں کمی آئے گی۔

معاون خصوصی نے مزید کہا حکومتی سرپرستی میں نوجوانوں کو بہترین رہنمائی اور تربیت دیں گے، نوجوانوں کو جلد روزگار کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

The post وزیراعظم عمران خان کل ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2t1J7h2

’سوات‘ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ

ان دنوں سرد موسم اور برف باری کی وجہ سے ملک کے شمالی علاقوں نے سفید چادر اوڑھ لی ہے، بعض علاقوں میں تو درجۂ حرارت منفی بارہ سے بھی نیچے گرگیا ہے۔

بہت سے علاقوں میں راستے بند ہیں، مقامی افراد اپنے گھر وں میں محصور ہوگئے ہیں اور منچلے سیاح راستوں میں پھنس گئے ہیں۔ کم و بیش یہی حالت ملک کے جنوب میں واقع بلوچستان کے بعض علاقوں کی بھی ہے۔

کراچی میں بھی بہت سردی ہے، سوئیٹر، مفلر، جیکٹ اور شالیں نکل آئی ہیں، لوگ گلی محلوں میں آگ جلاکر ہاتھ تاپتے، چائے کافی پیتے نظر آتے ہیں اور بعض منچلے سرد موسم میں آئس کریم سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

ایسے سرد موسم میں ذہن کے دریچوں میں سوات کی یادوں کے البم کھل جاتے ہیں اور دل تڑپنے لگتا ہے، جس کی پرکشش وادیوں، خوب صورت پہاڑوں، دل کش اور حسین فطری مناظر، دل فریب آبشاروں، بل کھاتے اور شور مچاتے دریاؤں اور بے شمار پرکشش تفریحی مقامات نے دیگر سیاحوں کی طرح مجھے ہمیشہ اپنا دیوانہ بنائے رکھا۔ اسی خوب صورتی کی وجہ سے سوات کو پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔

سوات کئی مرتبہ جانا ہوا اور ہر مرتبہ یہی حسرت لے کر واپس لوٹے کہ ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے، کیوںکہ اس کو جتنا دیکھو، دل ہی نہیں بھرتا اور دل سے یہی صدا آتی ہے کہ کچھ دن اور ان فطری مناظر کو دیکھ لیں، کچھ دن اور اس جنت نظیر خطے میں گزار لیں۔ اپنے ربّ کی صناعی اور بہترین تخلیق کو دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے اور کبھی سجدۂ شکر بجالا تا ہے۔

مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے، وہ لوگ خوش اخلاق، مہمان نواز اور محنتی ہیں۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ ہے۔

سوات صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہے اور یہ سابق ریاست تھی، جسے 1970میں ضلع کی حیثیت دی گئی ۔ پوری وادی پانچ ہزار 337 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے شمال میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ اور مغرب میں ضلع دیر واقع ہیں۔ سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، بالائی سوات، زیریں سوات اور کوہستان۔

سوات وسط ایشیا کی تاریخ میں علم بشریات اور آثارقدیمہ کے لیے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہر ت حاصل تھی اور اسے اودیانہ یعنی باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس کا شمار دنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتا ہے۔ یہ اسلام آباد سے 254 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے، جب کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے 170کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے ضلعی صدر مقام سیدوشریف میں ایک چھوٹا سا ایئرپورٹ ہے، فضائی راستے کے علاوہ سڑک کے راستے بھی لوگ سوات جاتے ہیں۔

سچ پوچھیں تو سٹرک کے راستے سفر کرنے کا اپنا مزا ہے۔ پنڈی میں پیرودھائی کے بس اڈے سے سوات جانے والی بس میں بیٹھیں تو واہ کینٹ، ایبٹ آباد اور مردان سے ہوتی ہوئی مالاکنڈ کے علاقے میں داخل ہوتی ہے اور پھر سوات کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے، جہاں مینگورہ پہنچ کر اس کا سفر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر آگے جانا ہوتو دوسری بس میں سفر کرنا ہوگا۔ چوںکہ تھکن بہت تھی، اس لیے مینگورہ کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ مینگورہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، وہاں فضاگیٹ پارک اپنی مثال آپ ہے۔

ہم لوگ مینگورہ سے نکل کر مالم جبہ پہنچے، جہاں کے نظارے ہی منفرد اور دل کش تھے۔ یہاں سردیوں کے موسم میں بھی گئے، جہاں سیم سن اسکی ریزورٹ سردیوں میں آباد ہوتا ہے۔ بہت سے متوالے اسکی انگ کرنے ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں اور غیرملکی سیاح بھی۔ وہاں کئی اعلیٰ اور آرام دہ ہوٹل ہیں، اس کے علاوہ چیئرلفٹ بھی ہیں، جن میں بیٹھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔

سوات میں مجھے بحرین پسندآیا، جہاں دریا کا بلند آہنگ شور بہت مزا دیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے ہوٹل کا انتخاب کیا، جو بالکل دریا کے کنارے پر واقع تھا۔ اس کا نام بحرین اس لیے ہے کہ یہ دریائے سوات اور دریائے درال کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کے اطراف میں درخت اور سبزہ زار دیکھنے والوں پر سحر کی سی کیفیت طاری کردیتے ہیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے کہ سوات میںکون سا مقام سب سے زیادہ خوب صورت ہے۔

ایک صبح ہمارا رخ کالام کی طرف تھا، دریا کے کنارے پر واقع یہ دل کش قصبہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک طرف دریا، اس کے اطراف سبزہ زار اور تھوڑے ہی سے فاصلے پر کئی آبشار۔ دریائے سوات کے کنارے پر ایک جھونپڑا ہوٹل پر بیٹھے اور چائے کاآڈر دیا، سخت سردی اور دہکتے ہوئے کوئلوں کا دھواں اور چائے کی کیتلی سے بلند ہوتی ہوئی بھاپ ایک عجب سماں پیدا کررہی تھی۔ کالام میں پہلے پی ٹی ڈی سی کا موٹیل تھا، لیکن اب ایک خوب صورت فائیو اسٹار ہوٹل اور دوسرے بہت سے ہوٹل بھی ہیں، لیکن دریا کنارے واقع چھوٹے ہوٹلوں میں قیام سے سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اگلی دوپہر کالام میں ٹراؤٹ مچھلی کھانے کا اتفاق ہوا، ٹراؤٹ اُس علاقے کی خاص سوغات ہے، جس کا سوندھا مزا اور لذت برسوں یاد رہتی ہے۔ کالام ہی میں سیف اللہ جھیل ہے، ایک جانب تو اس کا فطری حسن سیاحوں کو مبہوت کردیتا ہے اور دوسری جانب اسی جھیل میںمزے دار ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔

کالام سے گیارہ کلومیٹر آگے کی طرف سفر کریں تو مٹلتان کا علاقہ آتا ہے۔ جو اپنے گھنے جنگلوں، برفپوش پہاڑی چوٹیوں اور بڑے بڑے گلیشیئرز کی وجہ سے مشہور ہے۔ کالام ہی سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر”  اپر اوشو” کی وادی میں مہوڈنڈ جھیل واقع ہے، جو اپنی خوب صورتی میں بے مثال ہے۔ کالام سے انیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور خوب صورت جھیل ہے، جسے کنڈول کہتے ہیں، جب کہ کالام میں گھنے اور بے پناہ خوب صورت جنگلات بھی ہیں۔ یہ جنگلات فطرت کو دریافت کرنے کی بہت سے لوگوں کی خواہش کو پورا کرتے ہیں اور وہاں مہم جوئی کے شوق بھی پوری ہوجاتے ہیں۔

یہ علاقے تو بہت سے سیاحوں نے دیکھے ہیں لیکن بحرین، مدین اور کالام کی ذیلی وادیوں، سرسبز چراگاہوں، خوب صورت جھیلوں اور پہاڑی راستوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اسپن خوار جھیل، اترور وادی کے مشر ق میں پہاڑوں کے درمیان چھپی ہوئی ہے۔ کھپیرو جھیل نیلے پانی کی دل کش جھیل ہے اور سطح سمندر سے تیرہ ہزار چار سو فٹ بلند ہے۔ اسی طرح سوات کی سعید گئی جھیل بھی اپنے حسن میں لاجواب ہے۔ سوات ہی میں کوہ ہندوکش کا خوب صورت سلسلہ سیاحوں کو ہائیکنگ اور مہم جوئی کی دعوت دیتا ہے۔

سفید محل سیدوشریف سے تیرہ کلومیٹر دور مرغزار کے چھوٹے سے قصبے میں سفید محل واقع ہے، جسے 1940میں تعمیر کیا گیا اور اب اسے ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مانکیال گاؤں، میدیان، کالاکوٹ اور دیگر گاؤں کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

مینگورہ کے شمال میں بیس کلومیٹر کا سفر طے کریں تو شنگرائی کی خوب صورت آبشار آتی ہے۔ سوات کے شاہی باغ کے کیا کہنے، جس کا سبزہ زار آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ مینگورہ سے 56کلومیٹر دور میاندم کا حسین قصبہ ہے۔ سطح سمند ر سے ایک ہزار آٹھ سو میٹر بلند ہونے کی وجہ سے یہاں گرمیوں میں بھی سخت سردی پڑتی ہے۔ سوات کی جروگو آبشار ملک کی بلندترین آبشار ہے۔ اسی علاقے میں دریائے گبرال بھی ہے، جو بے پناہ حسین فطری نظاروں سے بھرپور ہے۔

بہر حال سوات کے حسن کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے، بل کھاتا شور مچاتا دریائے سوات، دل کش آبشاریں، سرسبز چراگاہیں اور لمبے لمبے درخت، آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والا سبزہ زار، شفاف پانی کے چشمے اور سردیوں میں برف باری اور برف سے ڈھکے علاقوں کی خوب صورتی دیکھنے کے لیے آپ کو سوات جانا ہوگا۔

The post ’سوات‘ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2RpTMLK

ووٹ کو عزت دی گئی

ہم بھی کتنے بھولے ہیں، اتنے بھولے کہ ہر بات کا غلط مفہوم اخذ کرلیتے ہیں جو ہم سے بھی زیادہ بھولا ہوتا ہے۔ ہمارے بھولپن کی انتہا دیکھیے کہ بچپن میں نغمہ سُنا ’’تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے‘‘ اور یقین کرلیا، خیر اس میں ہمارا کیا قصور، اس نغمے کی اثرآفرینی کا کمال ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی غیرملکی بھی ہمارے ملک کو اپنا سمجھنے لگے، یہی وجہ ہے کہ امریکا کے ڈرونز ’’یہی تو ہے وہ اپناپن‘‘ کہتے ہماری سرزمین پر آن وارد ہوئے اور چینی جو چین میں بھی کسی ٹریفک سارجنٹ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے، ہمارے ہاں ٹریفک پولیس اہل کار کی بڑی اپنائیت سے دُھنائی کردیتے ہیں، اتنی ہی اپنائیت سے وہ پاکستان میں سَگائی اور اے ٹی ایم مشینوں کی صفائی بھی کرتے رہے ہیں۔

یہ نغمہ تو چلیے اثرانگیزی کے باعث قابل یقین تھا مگر ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم نے ایس ایم ایس کے ذریعے ایزی لوڈ مانگنے والی ’’صبا‘‘ کو  کبھی مایوس نہیں کیا، کئی بار ان سے کہہ چکے ہیں کہ بی بی! بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے لیے خواہ مخواہ ہمارا نام نکل آیا ہے، یہ لو ان کا میسیج آیا ہے، جاؤ ہماری طرف سے تم ماہانہ رقم وصول کرو۔۔۔مگر یہ خاتون اتنی خوددار ہیں کہ ہر ہفتے اسپتال میں ہونے کے باوجود ایزی لوڈ کے سوا کچھ لینے کو تیار نہیں ہوتیں۔

اب چوں کہ نعرے تو بڑے زور سے لگائے جاتے ہیں اس لیے ہم ان پر پورے صدق دل سے ایمان لے آتے ہیں۔ کبھی جلسوں میں ’’دیکھو دیکھو کون آیا۔۔۔شیرآیا شیرآیا‘‘ کا نعرہ لگتا تھا تو فوراً بھاگ کر کسی کھمبے پر چڑھ جایا کرتے تھے، اور ’’خود ہی‘‘ کو اتنا بلند کرنے کے بعد حیرانی سے سوچا کرتے تھے کہ یہ کیسا شیر ہے جس کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے، پھر جب نیچے دیکھتے تو اسٹیج پر محترم نوازشریف کو ہاتھ ہلاتا پاکر ہمارا خوف اور غلط فہمی دور ہوجاتی، آخرکار یہ نعرہ لگانے والوں کی غلط فہمی بھی دور ہو ہی گئی۔

اسی طرح ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ سُن کر ہم سنجیدہ ہوگئے۔ ووٹ کی عزت کا سودا یوں سر میں سمایا کہ صرف ووٹ کہنا ہمارے نزدیک گستاخی قرار پایا۔ جب بھی ذکر کیا ’’ووٹ شریف‘‘ اور ’’ووٹ صاحب ‘‘ سے کم کچھ نہ کہا۔ دل میں ووٹ کی عزت عقیدت بن کر اس طرح براجمان ہوئی کہ بعض اوقات تو ’’جوشِِ عزت‘‘ میں ’’حضرت ووٹ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ تک کہہ گئے۔ انتخابات والے دن صبح اُٹھ کر غسل کیا، صاف ستھرے کپڑے پہنے، عطر سے خود کو معطر کیا، سر پر ٹوپی پہنی، پھر بیگم سے کہا جلدی سے ایک چھوٹا سا غلاف سی دو، استفسار ہوا ’’کتنا چھوٹا‘‘، عرض کیا ’’ووٹ کی قامت کا‘‘، وہ ہمیں حیرت سے دیکھنے لگیں تو وضاحت کی،’’بھئی ووٹ شریف کو عزت سے سپردِڈبا کرنا ہے، کوئی نیکی تو ہے نہیں کہ کی اور دریا میں ڈال دی۔‘‘ یہ سب اہتمام کرکے پولنگ اسٹیشن پہنچے۔

طویل قطار میں ہاتھ باندھ کر مؤدب کھڑے ہوگئے۔ سر پر ٹوپی اور منہ پر طاری رقت دیکھ کر کئی لوگوں نے کہا،’’بھائی صاب! آپ غلط جگہ آگئے ہیں، جنازہ دو گلی چھوڑ کر اٹھنا ہے۔‘‘ اب ہم انھیں کیا بتاتے کہ یہاں بھی جنازہ ہی اُٹھ رہا ہے۔ دل میں آیا کہیں کہ بدبختو! میت چار کندھوں پر اٹھتی ہے تو ووٹ پانچ انگلیوں سے اٹھا کر ڈبے میں ’’اُتارا‘‘ جاتا ہے۔۔۔مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوگئے کہ تشبیحات کا سلسلہ دراز ہوگیا تو بات کفن چوری کے تذکرے تک جاپہنچے گی۔

خیر، بڑے احترام سے سر جھکاکر ووٹ کی پرچی وصول کی، اسے چوما، آنکھوں سے لگایا، کچھ دیر سر پر رکھا۔ ووٹ کو اتنی عزت دینا وہاں ’’تعینات ایک صاحب‘‘ کو گوارا نہ ہوا، تُنک کر بولے ’’اوئے! ووٹ کو اتنی عزت کیوں دے رہا، عزت سے ووٹ دے اور نکل۔‘‘ اب ہماری عزت خطرے میں تھی، اس لیے جھٹ پولنگ بوتھ میں جاگھسے۔ وہاں رکھی مُہر پر سیاہی لگائی، پھر محبت کے پہلے بوسے اور ہونٹوں پر گرم سموسے کی طرح بڑی آہستگی سے پرچی پر مہر ثبت کی، پیار کے پہلے خط کی طرح پرچی کو تہہ کیا، ایک بار پھر لبوں اور پلکوں سے لگاکر غلاف میں سمایا اور ’’تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں‘‘ کی منظرکشی کرتے ہوئے اسے ڈبے میں سرکادیا۔ پھر اُلٹے قدموں چلتے پولنگ بوتھ سے باہر نکل آئے۔

ایک ہم ہی نہیں جو ووٹ کی عزت کرتے ہوں، اس ملک میں ہم سے کہیں زیادہ ووٹ کو عزت دینے والے پائے جاتے ہیں۔ یہ حضرات ہماری طرح خالی خولی عزت نہیں دیتے بلکہ ووٹ کو نوٹ دے کر اس کی عزت بڑھاتے ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن میں ملنے والی یہ عزت کروڑوں روپے سے تجاوز کرجاتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ کسی ووٹ کو تو صرف بریانی کی عزت پر ٹرخادیا جاتا ہے اور کسی ووٹ کے دونوں ہاتھ گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے۔ ارے بھئی، ووٹ ووٹ کا فرق بھی تو سمجھیے۔ جسے صرف بریانی کے لائق سمجھاجاتا ہے وہ ہے عام انتخابات کا ووٹ، اورجس پر ’’یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو۔۔۔‘‘ کی نوازشات ہوتی ہیں وہ خاص انتخاب کا ووٹ ہوتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے عام انتخابات عام ہوتے ہیں، بلکہ عامیانہ ہوتے ہیں، چناں چہ ان کے ووٹ کے لیے شامیانہ لگادینا بھی عزت افزائی ہے۔

یہ ووٹ اتنا عام ہوتا ہے کہ مُردے بھی ڈال جاتے ہیں۔ خاص انتخاب وہ ہے جو سینیٹ کے لیے ہو یا سینیٹ میں ہو، اس سے بھی خاص یعنی خاص الخاص انتخاب ایکٹینشن یا تحریک عدم اعتماد جیسی کسی ٹینشن سے نمٹنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ہوتا ہے وہ انتخاب جس میں صحیح معنی میں ووٹ کو عزت دی جاتی ہے۔ ایسے مواقع پر ووٹ کی بزرگی کا احترام کرتے ہوئے شورشرابے اور بحث مباحثے سے مکمل اجتناب کیا جاتا ہے۔ تاخیر سے گریز اور عجلت سے کام لیا جاتا ہے، ایسے ہی جیسے شریف گھرانوں میں بیٹی کی رخصتی اور متقی خاندانوں میں کفن دفن میں جلدی کی جاتی ہے۔ اس سے آپ ووٹ کی عزت اور تقدیس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ براہ مہربانی یہاں ’’شریف‘‘ اور ’’خاندان‘‘ کا کوئی اور مطلب لینے سے گریز کریں۔

یہ دیگر ووٹوں کے مقابلے میں کہیں معزز ووٹ ہوتا ہے، کیوں کہ یہ قومی مفاد میں مکمل یک جہتی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ جو ووٹ کی عزت کے معاملے میں ہم سے بھی زیادہ مغالبے سے کام لیتے ہیں، کہتے ہیں کہ دراصل یہ ووٹ کی قدرومنزلت ہے کہ اس کی خاطر یک جہتی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔۔۔۔اور۔۔۔قومی مفاد بھی۔

The post ووٹ کو عزت دی گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/38FUkD3

فارن فنڈنگ کیس؛ وزیر اعظم کی ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف درخواست دائر

 اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر کی رکنیت سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کی حیثیت سے سپریم کورٹ میں اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت کے حوالے سے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کردی ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ حنیف عباسی بنام عمران خان کیس میں سپریم کورٹ نے قوائد طے کر دیئے تھے کہ قانون کی نظر میں الیکشن کمیشن کوئی عدالت یا ٹریبونل نہیں، اکبر ایس بابر کا 2011 سے تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ، انہیں شو کاز نوٹس جاری کئے گئے، انہیں پی ٹی آئی سے نکالا گیا، اکبر بابر نے پی ٹی آئی چھوڑنے کی ای میل کی جو ریکارڈ پر موجود ہے، الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ میں اکبر ایس بابر کی درخواستیں بدنیتی پر مبنی ہیں۔

عمران خان کی جانب سے درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کی فنڈنگ کے کیس میں متاثرہ فریق نہیں، اس لیے الیکشن کمیشن کو کیس سننے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس انکوائری کمیٹی کے پاس زیر التوا ہے، ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کا اختیار استعمال کرتے ہوئے متنازع حقائق پر فیصلہ نہیں دے سکتی۔

درخواست کا پس منظر

پاکستان تحریک انصاف کے سابق نائب صدر اکبر ایس بابر نے سیاسی فنڈنگ سے متعلق قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے خلاف 2014 سے درخواست دائر کررکھی ہے۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست گزار کی مسلمہ حیثیت کو چیلنج کیا تھا کہ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا تاہم ہائی کورٹ نے درخواست مسترد کردی تھی جس کے خلاف پی ٹی آئی نے اپیل دائر کی تھی۔ جس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست پر اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اکبر ایس بابر کی پی ٹی آئی کی ممبر شپ کے حوالے سے فیصلہ کرے۔

The post فارن فنڈنگ کیس؛ وزیر اعظم کی ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف درخواست دائر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2RMvxGF

پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوسرا ٹی ٹوئنٹی آج ہوگا

 لاہور: پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ کا جوڑ آج پڑے گا۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور میں آج پھر کرکٹ کا میدان سجے گا اور مختصر طرف کے اس کھیل میں چوکے چھکوں کا طوفان آئے گا۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو 5 وکٹ سے شکست دیکر سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کرلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے پہلے ٹی ٹوئنٹی میں بنگلادیش کو شکست دیدی

قومی ٹیم نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک 142 رنز کا ہدف آخری اوور میں پورا کر لیا۔ شعیب ملک نصف سنچری بناکر مین آف دی میچ قرار پائے۔

The post پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوسرا ٹی ٹوئنٹی آج ہوگا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/37riK30

رحیم یارخان میں 14 سالہ لڑکے سے دو سگے بھائیوں کی اجتماعی زیادتی

رحیم یار خان:  اوباش بھائیوں نے 14 سالہ لڑکے کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل...