کراچی: رواں صدی کا دوسرا عشرہ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود اس کے اہداف کے حصول کے بغیر چند روز میں ختم ہو جائے گا۔
سندھ میں ’’ایجوکیشن ایمرجنسی‘‘ کا نفاذ بھی صوبے میں تعلیمی معیار اوراس کے ماحول میں بہتری پر اثرانداز نہیں ہو سکا ہے اور اسکولوں و کالجوں کے ساتھ ساتھ جامعات،ایجوکیشن بورڈز،سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن اوردیگرتعلیمی انتظامی ادارے رواں صدی کے دوسرے عشرے میں تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود انتظامی واکیڈمک سطح پر بدترین زبوحال کا شکار رہے ہیں جبکہ چندروزبعدختم ہونے والی دہائی اس حوالے سے منفرد ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے تعلیم کے شعبے میں انتظامی سطح پران 10برسوں میں ناصرف بڑے بڑے فیصلے کیے گئے بلکہ ان پر بظاہرعملدرآمد بھی کیاگیا تاہم منصوبہ بندی کے فقدان اوربصیرت کے بغیرکیے گئے اقدامات نظام میں تبدیلی نہ لاسکے۔
رواں دہائی کے اس دوسرے عشرے کے چوتھے سال سن 2013میں سندھ حکومت ’’مفت اورلازمی تعلیم‘‘(فری اینڈکمپلسری ایجوکیشن)کاقانون لائی تاہم ایک بڑے قدم کے سواحکومت سندھ اس قانون کی منظوری سے تاحال ان 7برسوں میں لازمی تعلیم پرکوئی گراں قدرکام نہیں کرسکی البتہ مفت تعلیم کے سلسلے میں سندھ سرکاری نے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم نویں سے بارہویں جماعت کے طلبا وطالبات کی میٹرک اورانٹرمیڈیٹ کی انرولمنٹ اورامتحانی فیسیں ختم کردی جبکہ سرکاری کالجوں میں لی جانے والی داخلہ اورٹیوشن فیس اب نہیں لی جاتی، سندھ حکومت نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہاکہ تعلیمی بورڈزکوان فیسوں کے عوض ملنے والی رقم اب حکومت سندھ فراہم کرے گی۔
تاہم گزشتہ دومالی سال میں تعلیمی بورڈز مطلوبہ انرولمنٹ کے عوض سندھ حکومت سے ملنے والی انرولمنٹ اورامتحانی فیسوں کی پوری رقم حاصل نہیں کرسکے دوسری جانب اس قانون کے دوسرے حصے ’’لازمی تعلیم‘‘کے حوالے سے بھی حکومت سندھ کے اقدامات مصنوعی نظرآتے ہیں سندھ میں اسکول جانے والی عمر5 سے 16برس کے 6ملین سے زائد بچے اب بھی اسکولوں سے باہرہیں جبکہ پرائمری تعلیم کے بعد سیکنڈری اوربالخصوص آٹھویں جماعت کے بعد سرکاری اسکولوں سے طلبا کا’’ڈراپ آؤٹ ریشو‘‘اب بھی برقرارہے۔
رواں صدی کے اس دوسرے عشرے میں حکومت سندھ نے ستمبر2016 میں صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کااعلان کیاتھایہ اعلان خود موجودہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ دور حکومت میں بحیثیت چیف منسٹرسندھ کیاتھااوراس تعلیمی ایمرجنسی کی ایک بڑاہدف یہ بتایاگیاکہ سندھ میں اسکول جانے والی عمر5سے16برس کے تعلیم سے محروم لاکھوں بچوں کواسکول کی جانب لاناہے۔
تاہم خود محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ نے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کوگزشتہ برس کی ایک بریفننگ میں بتایاکہ کہ اب بھی کہ اس عمرکے 56فیصد بچے اسکولوں سے باہرہیں یادرہے کہ سندھ میں لگائی گئی اسی تعلیمی ایمرجنسی کے بعد سندھ میں برسہابرس سے قائم محکمہ اسکول ایجوکیشن کوبہترنظم ونسق کے لیے دوحصوں میں تقسیم کرکے محکمہ اسکول ایجوکیشن اورمحکمہ کالج ایجوکیشن قائم کردیاگیادونوں کے علیحدہ علیحدہ سیکریٹری تعینات کیے جاتے رہے اوراب بھی دونوں محکموں کے علیحدہ سیکریٹری کام کررہے ہیں۔
اسکول ایجوکیشن کامحکمہ علیحدہ کرنے کے ساتھ محکمہ کی جانب سے ایک اہم اوربڑاقدم یہ سامنے آیاکہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی حاضری کے لیے بائیومیٹرک سسٹم متعارف کرایاگیایہ نظام تاحال کام کررہاہے اورنظام کے تحت مانیٹرنگ کے سبب محکمے کے اعدادوشمارکے مطابق 75فیصد سے زائد غیرحاضراساتذہ اب اسکولوں میں موجودہیں۔
تاہم ان کی جانب سے کلاسز لینے یانہ لینے کامعاملہ علیحدہ ہے،تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود سرکاری اسکولوں میں ’’پانی ،بجلی ،بیت الخلا اورچار دیواری‘‘کی بنیادی سہولیات کی صورتحال اب بھی پیچیدہ ہے ریفارم سپورٹ یونٹ کے گزشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے 39فیصد سرکاری اسکولوں میں چار دیواری، 32فیصد میں بیت الخلاء،55فیصد میں بجلی جبکہ 43فیصد میں پینے کے صاف پانی کی سہولیات موجودنہیں ہیں۔
2010میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد جنوری 2011میں سندھ اسمبلی نے صوبے کے سرکاری تعلیمی بورڈزکاانتظامی کنٹرول گورنرسندھ سے وزیراعلیٰ سندھ کومنتقل کرنے کاقانون منظورکیا،رواں عشرے کے 10میں سے آخری 5سال ایسے ہیں جس میں تعلیمی بورڈزمیں مستقل سیکریٹری موجودہیں اورنہ ہی مستقل کنٹرولرہیں تقریباًتین ماہ قبل سندھ کے بیشترتعلیمی بورڈزکے چیئرمینزکی مدت ملازمت بھی پوری ہوچکی ہے چیئرمین تعلیمی بورڈزتاحکم ثانی کے ایک نوٹیفیکیشن کے تحت کام کررہے ہیں۔
تاہم حکومت سندھ کی جانب سے تعلیمی بورڈزاورسرکاری جامعات کوکنٹرول کرنے کے لیے قائم کیاگیامحکمہ ’’یونیورسٹیز اینڈ بورڈز‘‘تعلیمی بورڈزمیں اس ایڈہاک ازم کوختم کرنے میں بری طرح ناکام ہے یہی صورتحال سندھ کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی جامعہ کراچی سمیت کئی دیگر سرکاری جامعات کی ہے جہاں وائس چانسلرزبھی تاحکم ثانی کام کررہے ہیں اورمستقل وائس چانسلرزکی تقرری کے لیے اشتہارکے بعد امیدواروں کی درخواستیں موصول ہونے کے باوجودیہ محکمہ متعلقہ کسی بھی یونیورسٹی میں بروقت وائس چانسلرکی تقرری میں ناکام ہے عرصہ دراز کے بعد سندھ کی 17سرکاری جامعات کوتین سال کے لیے مستقل ڈائریکٹر فنانس فراہم کیے گئے ہیں۔
The post صدی کا دوسرا عشرہ سندھ میں تعلیمی اہداف کے حصول کے بغیر ختم appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2PXozyS
No comments:
Post a Comment
plz do not enter any spam link in the comment box