یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کیلیے پی ڈی ایم کے بڑوں کی اہم بیٹھک

 اسلام آباد: پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے لئے مولانا فضل الرحمان، شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویز اشرف نے ملاقات کی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے لئے پی ڈی ایم متحرک ہوگئی ہے، دیگر جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی کے علاوہ آپس میں ملاقاتوں کے سلسلے تیز ہوگئےہیں، اسی حوالے سے  سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اہم ملاقات کی ہے، جس میں فیصل کرہم کنڈی، مولانا لطف الرحمان، مفتی ابرار احمد سمیت دیگر موجود تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں سینٹ انتخابات میں سیٹ ایڈجسمنٹ سے متعلق مشاورت کی گئی، اور اسلام آباد سے پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی سے متعلق حکمت عملی طے کرلی گئی ہے، جب کہ ملاقات میں لانگ مارچ کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔

 

The post یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کیلیے پی ڈی ایم کے بڑوں کی اہم بیٹھک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3dSA86G

سینیٹ انتخابات؛ سندھ میں تحریک انصاف شدید مشکلات کا شکار

 کراچی: سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں سندھ سے پاکستان تحریک انصاف کو شدید مشکلات کا سامنا کرںا پڑ رہا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنما مولوی محمود نے پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کے اعزاز میں ظہرانہ دیا تھا۔ جس میں اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی اور رہنماؤں کو ظہرانے میں مدعو کیا تھا۔

ایک رکن اسمبلی کی عدم شرکت

ظہرانے میں گھوٹکی سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی شہریار شر نے شرکت نہیں کی، ان کا تحریک انصاف کے کسی رہنما یا رکن سے بھی رابطہ نہیں۔

ہم حلف کس بات کا اٹھائیں؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ ظہرانے کے دوران ایک رکن اسمبلی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم حلف کس بات کا اٹھائیں، ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جارہاہے، اگر یہ شک والا معاملہ رہا تو ووٹ نہیں دوں گا۔

ایم کیو ایم کی بھی شرکت سے معذرت

اس ظہرانے کی دعوت ایم کیو ایم پاکستان کو بھی دی گئی تھی۔ ایم کیو ایم کے وفد نے ظہرانے میں شرکت کی حامی بھری تھی۔ اسد عمر اور تحریک انصاف کی مقامی قیادت ایم کیو ایم کے ارکان کا انتظار کرتی رہ گئی لیکن وہ نہ آئے۔ بعد میں ان کی جانب سے ظہرانے میں شرکت سے معذرت کرلی گئی۔

ایم کیو ایم کی عدم شرکت پر وفاقی وزیر علی زیدی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی ایم کیو ایم سے ملاقات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان لوگوں کی کچھ مصروفیت تھیں اس لیے وہ لوگ نہیں آسکے۔

ایم کیو ایم کو ہارس ٹریڈنگ کا خطرہ  

دوسری جانب ایم کیو ایم نے ہارس ٹریڈنگ کے خطرے کے پیش نظر اراکین اسمبلی کو اپنی نقل و حرکت سینیٹ انتخابات تک محدود کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے انہیں کراچی بلا لیا ہے، اراکین اسمبلی کو 3 روز تک کراچی میں مخصوص مقامات پر ٹھہرایا جائے گا، تمام اراکین اسمبلی ووٹ ڈالنے ایک ساتھ اسمبلی پہنچیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بھی آج طلب کرلیا گیا ہے، ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پیپلز پارٹی سے بھی مثبت بات چیت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سندھ میں پیپلزپارٹی کے وفد نے ایم کیو ایم کے عارضی مرکز میں متحدہ رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کی 2 نشستوں کے لئے اپنے امیدوار دستبردار کرانے کو تیار ہیں لیکن متحدہ کو بھی یوسف رضا گیلانی والی نشست پر مدد کرنا ہوگی۔

The post سینیٹ انتخابات؛ سندھ میں تحریک انصاف شدید مشکلات کا شکار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3sz8H5Z

سندھ میں طلبا کی 50 فیصد حاضری کی پالیسی جاری رکھنے کا فیصلہ

 کراچی: سندھ حکومت نے کورونا کے مکمل خاتمے تک تعلیمی اداروں میں 50 فیصد حاضری کے تحت تدریسی عمل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران سعید غنی نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھولنے کا فیصلہ کیا گیا، نجی اسکولوں میں بچوں کے درمیان فاصلہ رکھنا لازمی ہے ، وفاقی وزیر تعلیم نے یکم مارچ سے سو فیصد بچوں کو ایک ساتھ اسکول جانے کا اعلان کیا ، وفاقی وزیر تعلیم کے ٹویٹ پر مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ جب 100 فیصد بچوں کو ایک ساتھ بلایا جائے گا تو فاصلہ کیسے برقرار رکھا جائے گا۔

وزیر تعلیم سندھ کا کہنا تھا کہ کوویڈ ابھی ختم نہیں ہوا کیسز کم ہوئے ہیں، ہم سندھ میں اپنا فیصلہ برقرار رکھیں گے، ہم سو فیصد بچوں کو بلانے کی اجازت نہیں دیں گے ، کوویڈ کے اختتام پر ہی 100 فیصد بچوں کو ایک ساتھ  آنے کی اجازت دی جائے گی ، پہلے سے طے شدہ فیصلوں کے مطابق بچوں کی 50فیصد حاضری ہوگی۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے چند روز قبل اپنی ٹوئٹ میں سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں ملک بھر کے تعلیمی ادارے یکم مارچ سے ہفتے میں 5 روز کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ فیصلے کا اطلاق ان تمام شہروں پر ہو گا جہاں پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

The post سندھ میں طلبا کی 50 فیصد حاضری کی پالیسی جاری رکھنے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3b1g0gT

نوجوانوں کو روزگار دینا سب سے بڑا مسئلہ ہے، وزیر اعظم

جہلم: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو روزگار دینا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

جہلم کے قلعہ نندنہ کے تاریخی البیرونی مقام پر ہیریٹج ٹریل کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آنے والی نسلوں کو اپنی تاریخ کاعلم ہونا چاہیے، دنیا بھر کی اقوام اپنے تاریخی مقامات کو محفوظ رکھتی ہیں، تاریخی مقامات کی حفاظت سے آنے والی نسلوں کو آگہی ہوتی ہے، ہمارے آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس سلسلے میں کام نہیں کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ البیرونی نے پہلی دفعہ اس مقام پر دنیا کی پیمائش کی، نندنہ قلعے کو ترقی دیں گے تو یہ علاقہ بھی دنیا کے نقشے پر آجائے گا، نوجوانوں کو روزگار دینا سب سے بڑا مسئلہ ہے، سیاحت کو فروغ دے کر ہم بے روزگاری ختم کرسکتےہیں، سیاحت کو مقامی لوگ کامیاب کرتے ہیں، مقامی لوگ سیاحوں کا خیال رکھیں تو ان کو وسائل ملیں گے۔

The post نوجوانوں کو روزگار دینا سب سے بڑا مسئلہ ہے، وزیر اعظم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3sDrz3J

حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کا امکان، رائع

 اسلام آباد: حکومت کی جانب سے آئندہ 15 روز کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا امکان ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اوگرا نے آئندہ 15 روز کے لیے پیٹرول کی قیمت میں 20 روپے 7 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 19 روپے 61 پیسے اضافے کی سمری وزارت پیٹرولیم کو بھجوا رکھی ہے تاہم حتمی فیصلہ وزیر اعظم کی منظوری سے مشروط ہے۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عوامی سطح پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 15 فروری کو بھی اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری کو مسترد کیا جاچکا ہے۔

The post حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کا امکان، رائع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3kDmBl2

حمزہ شہباز کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں، شاہد خاقان عباسی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں، اللہ کرے اسٹیبلشمنٹ کا رول ملکی سیاست سے ختم ہونے کی بات درست ہو۔ 

شکر گڑھ میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال کا کہنا تھا کہ  ایٹمی ملک کے عوام کو عمران خان نیازی نے 2 وقت کی روٹی سے محروم کر دیا، ایٹمی طاقت کا سب سے بڑا مسئلہ غربت اور بے روزگاری ہے،   یہ پاکستان کی بدنامی اور بے عزتی ہے جو حالات حکومت نے پیدا کر دیئے ہیں۔

لیگی رہنما نے کہا کہ پاکستان کی معیشت درست راہ پر گامزن تھی، سی پیک بن رہا تھا، لیکن یکدم ترقی کرتے ملک کو غربت و بے روز گاری کے حالات سے دوچار کر دیا گیا،  وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو نئی بنیاد پر کھڑا کیا جائے،  تمام ادارے اپنے دائرے میں رہ کر اپنا اپنا کام کریں،  بیورو کریٹ ملک کو اچھی طرح چلائیں تو ملک جنت بن سکتا ہے،

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں سودے بازی اور پیسوں کی گن گرج ہے، بلوچستان میں 70 کروڑ روپے میں سینٹ کا ٹکٹ بیچا گیا، پی ٹی آئی کے لوگ چیخ رہے ہیں کہ  ٹکٹ بیچے گئے، ثابت ہو گیا پی ٹی آئی کرپشن اور مافیاز کی جماعت ہے، پی ڈی ایم کی جاری کردہ سینٹ ٹکٹوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان نے کہا کہ حمزہ شہباز کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں، ہماری جنگ اقتدار کی نہیں نظام کی درستگی کی ہے، احتساب کے نام پر انتقام نظام کی ناکامی ہے، ڈسکہ انتخاب پر الیکشن کمیشن نے درست فیصلہ کیا۔

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا رول سب کے سامنے ہے، یوسف گیلانی نے کہا اب تک اسٹیبلشمنٹ کا کردار نطر نہیں آیا،  سینٹ الیکشن میں کیا ہوتا ہے سب دیکھ لیں گے، اللہ کرے اسٹیبلشمنٹ کا رول ملکی سیاست سے ختم ہونے کی بات درست ہو، یوسف رضا گیلانی بھاری اکثریت سے سینٹر منتخب ہو جائیں گے۔

 

The post حمزہ شہباز کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں، شاہد خاقان عباسی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/37X0YHf

سینیٹ الیکشن؛ آصف زرداری کا ووٹ کاسٹ کرنے اسلام آباد روانگی کا امکان

 اسلام آباد: آصف علی زرداری ناسازی طبیعت کےسبب کافی عرصے سے سفر نہیں کررہےتھے، تاہم اب سینیٹ الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے اسلام آباد روانہ ہوں گے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری  کورونا وائرس اور ناسازی طبیعت کےسبب کافی عرصے سفر نہیں کررہےتھے، تاہم اب ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری  3 مارچ کو سینیٹ الیکشن میں اپناووٹ کاسٹ کریں گے، اور اس کے لئے ان کی آج اسلام آباد روانگی کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق   قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی ارکان کے اعزاز میں یکم مارچ کو عشائیے کا اہتمام کیا گیا ہے، جب کہ  آصف علی زرداری 2 مارچ کو بلاول ہاؤس اسلام آباد میں اتحادی جماعتوں کےاعزاز میں منعقدہ عشائیے میں بھی شریک ہوں گے۔

The post سینیٹ الیکشن؛ آصف زرداری کا ووٹ کاسٹ کرنے اسلام آباد روانگی کا امکان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2MzKT2I

پاکستان کا بھارتی یاتریوں کو کرتارپورصاحب آنے سے روکنے کا معاملہ اٹھانے کا فیصلہ

 لاہور: پاکستان نے بھارتی سکھ یاتریوں کو کرتارپورصاحب آنے سے روکنے کا معاملہ اعلیٰ سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے. 

گوردوارہ دربارصاحب کرتارپورگورننگ کونسل نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ بھارت سے سکھ یاتریوں کو کرتارپورراہداری کے راستے پاکستان آنے سے روکے جانے سے متعلق بات کی جائے ،اس کے علاوہ گورننگ کونسل نے گوردوارہ کرتارپورصاحب کے لئے گائیڈڈ ٹوور متعارف کروانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

کرتارپور گورننک کونسل کے حکام نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گائیڈڈ ٹوورکے قیام کے مقصد مقامی سیاحوں کو گوردوارہ دربارصاحب کرتارپورصاحب کے مذہبی تقدس کا خیال رکھنا ہے۔ گوردوارہ دربارصاحب کرتارپورسکھوں کا انتہائی مقدس مقام ہے۔ یہاں سکھ مذہب کے بانی باباگورونانک دیوجی نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہاں گزارے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں آنے والے سیاح اس جگہ کے مذہبی تقدس کا خیال رکھیں۔ گوردوارہ صاحب کے مرکزی کمپلیکس سے منسلک 7 ایکڑ اراضی پر پارک اور ہوٹل بنانے کی بھی تجویز ہے تاکہ سیاحوں کے ساتھ آنے والے بچے اور فیملیز یہاں تفریح اور آرام کرسکیں۔

حکام کے مطابق کرتارپورصاحب میں دن رات کام کرنے والے ملازمین کی مستقل رہائش گاہیں بنانے کی بھی تجویزدی گئی ہے ،یہ ملازمین ابھی تک یہاں لگائے گئے شامیانوں میں آرام کرتے ہیں۔ وزارات مذہبی امورکے زیرانتطام گزشتہ اجلاس میں یہ درخواست بھی کی گئی کہ حکومت بھارت سرکار سے سکھ یاتریوں کو گوردوارہ دربارصاحب آنے سے روکے جانے بارے بات کرے۔ حکومت نے سکھ یاتریوں کو کرتارپورصاحب آنے سے روکے جانے کامعاملہ اعلی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان نے فروری میں 600 سے زائد سکھ یاتریوں کوساکا ننکانہ صاحب کی 100 سالہ تقریبات میں شرکت کے لئے ویزے جاری کئے تھے لیکن بھارتی وزارت داخلہ نے سکھ یاتریوں کو پاکستان نہیں آنے دیا تھا۔

The post پاکستان کا بھارتی یاتریوں کو کرتارپورصاحب آنے سے روکنے کا معاملہ اٹھانے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3aYPhl4

خیبرپختونخوا کے ہیلتھ ورکرز کی کورونا ویکسی نیشن میں تیزی

 پشاور: خیبرپختونخوا میں فرنٹ لائن ورکرز کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن میں تیزی آنے لگی ہے اور صوبے میں اب تک مجموعی طور پر 16595 طبی اہلکاروں کو ویکسین دی جا چکی ہے۔

وزیر صحت خیبر پختونخوا تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق صوبے کے تمام اضلاع میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن شروع کر دی گئی ہے،صحت کے شعبے سے منسلک عملے کی ویکسی نیشن کے لیے صوبے میں 100 سے زائد سینٹرز فعال ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 2855 ہیلتھ ورکرز کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین دی گئی ہے۔ اس طرح صوبے میں اب تک مجموعی طور پر 16 ہزار 595 طبی اہلکاروں کو ویکسین دی جا چکی ہے۔ جن فرنٹ لائن ورکرز کو کورونا سے بچاؤ کی پہلی ڈوز لگائی گئی تھی اب بیس روز کے بعد دوسری ڈوز شروع کردی گئی ہے۔

صوبائی دارالحکومت پشاور میں اب تک مجموعی طور پر 4848 ورکرز کو ویکسین دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایبٹ آباد میں 1522، سوات 861، لوئر دیر 727 ، کوہاٹ میں 463، شانگلہ میں 357، باجوڑ میں 248 اور چترال میں 227 ہیلتھ ورکرز کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لے چکے ہیں۔

صوبائی وزیر صحت کا کہنا ہے صوبے میں 65 سال سے زائد العمر افراد کی ویکسی نیشن مارچ کے دوسرے ہفتے میں شروع کی جائے گی، جس کے لئے محکمہ صحت نے تمام تر تیاری مکمل کرلی ہے۔ صوبے میں عام افراد کے لئے یکم جولائی سے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین دستیاب ہوگی۔

The post خیبرپختونخوا کے ہیلتھ ورکرز کی کورونا ویکسی نیشن میں تیزی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3dPDoQp

اپوزیشن ملکی مفادات کے مخالف ایجنڈے پر چل رہی ہے، عثمان بزدار

 لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ملکی مفادات کے مخالف ایجنڈے پر چل رہی ہے۔

لاہور سے جاری اپنے بیان عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ معیشت درست ٹریک پر آچکی ہے، عمران خان کی قیادت میں پاکستان ترقی کے سفر کے لیے ٹیک آف کرچکا ہے۔ کورونا کے باوجودکاروباری سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے۔ موجودہ حالات میں افراتفری کی سیاست کی رتی بھر بھی گنجائش نہیں۔

عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ عوام ترقی وخوشحالی چاہتے ہیں افراتفری نہیں لیکن اپوزیشن عناصر انتشار پھیلا کر ترقی کو روکنے کے درپے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اپوزیشن ملکی مفادات کے مخالف ایجنڈے پر چل رہی ہے۔ پی ڈی ایم کو ملکی ترقی عزیز نہیں بلکہ ذاتی مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔

دوسری جانب وزیراعلٰی پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ کرپٹ شاہی خاندان کی جانشینی کے امیدوار کی کرپشن کیسز میں ضمانت پر جشن، بھنگڑے لمحہ فکریہ ہے، غنڈہ گردی اور کرپشن کا بے تاج بادشاہ اپنے سیاہ کرتوتوں کا جواب دینے کی بجائے لاہور کی سڑکوں پر بھٹکتا اور آہ و بکا کرتا رہا۔ دراصل اُس این آر او کا سوال کررہا تھا جو نہ تو اس کے بڑوں کو ملا نہ اسے ملے گا۔

The post اپوزیشن ملکی مفادات کے مخالف ایجنڈے پر چل رہی ہے، عثمان بزدار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3uDJTvs

سائیں! کراچی والوں پر یہ ٹیکس لگائیں

خبر پڑھی حکومتِ سندھ نے کراچی سے مزید ٹیکس جمع کرنے کے منصوبے پر غور کرنا شروع کردیا ہے، جس کے لیے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔

ناصر حسین شاہ کمیٹی کے سربراہ ہیں، اس لیے سب سے زیادہ غور انھیں ہی کرنا پڑ رہا ہوگا اور وہ دن رات غور میں مشغول ہوں گے، اتنے کہ آ آکر لوگ پوچھتے ہوں گے:

ساری بستی سوگئی ناصر

تو کیوں اب تک جاگ رہا ہے

وہ مسکرا کر جواب دیتے ہوں گے ’’نئے ٹیکسوں پر غور کر رہا ہوں، بس ایک بار غور ختم ہونے دو، پھر دیکھنا، ناصر سوئے گا اور ساری بستی جاگے گی۔‘‘

امید ہے اب تک بہ شمول ناصر صاحب پوری کمیٹی غور کرنا شروع کرچکی ہوگی، اور پورا یقین ہے کہ یہ غور کراچی والوں کو غیر سمجھ کر کیا جارہا ہوگا۔ ہم کمیٹی کے سربراہ ناصرحسین شاہ صاحب کو پہلے ہی آگاہ کردیں کہ آپ اس دُھن میں ہیں کہ ’’کس پر ٹیکس لگائیں ناصر کون پرایا ہے‘‘ مگر نئے ٹیکس لگنے کا اعلان سُن کر کراچی والے واویلا کریں گے اور آپ سے عرض کریں گے:

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

’’گرانی‘‘ بال کھولے سو رہی ہے

لیکن آپ اس واویلے پر ذرا غور مت کیجیے گا، بلکہ جواب دیجیے گا،’’ہم ایک زور کا ٹیکس لگاکر اس منہگائی کو جگادیتے ہیں، اب خوش!‘‘

یہ خبر پڑھ کر کہ کراچی پر نئے ٹیکس لگانے کے لیے پوری کی پوری کمیٹی بہ شمول ناصر حسین شاہ غور کر رہی ہے، ہم نے سوچا اتنے فعال وزیر اور اتنے سارے لوگوں کو غور پر لگادیا گیا ہے، حالاں کہ کراچی والوں پر ٹیکس لگانے، انھیں چونا لگانے، تڑی لگانے، دھکا لگانے اور دیوار سے لگانے کے لیے کسی غور کی کیا ضرورت ہے۔ بلاوجہ اتنے سارے افراد کو غور کرنے پر لگادیا۔ ہم ناصر صاحب اور ان کی کمیٹی سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ غور کرکے خود کو نہ تھکائیں، یہ کام ہم کیے دیتے ہیں اور تجویز کردیتے ہیں کہ کراچی والوں پر کون کون سے نئے ٹیکس عاید کیے جائیں۔

 

کراچی والے سڑکوں پر پڑنے والے گڑھوں پر سفر کرکے کھانا ہضم کرتے ہیں اور اس سہولت کا ایک روپیہ بھی نہیں دیتے۔ حکومت فی الفور شہریوں پر گڑھا ٹیکس لگاکر وصولی شروع کردے۔ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ گڑھوں کی سہولت کے باعث حادثات ہوتے، لوگ زخمی اور گاڑیاں خراب ہوتی ہیں، جس سے لامحالہ ڈاکٹروں اور میکینکوں کا فائدہ ہوتا ہے، چناں چہ ڈاکٹروں اور میکینکوں پر الگ سے ’’گڑھا کمائی ٹیکس‘‘ بھی عاید کیا جائے۔

کھڑا پانی ٹیکس:

کراچی والے بھی عجیب ہیں، روتے رہتے ہیں کہ پانی آ نہیں رہا، اور جب پانی’’لو میں آگیا، کیا حکم ہے میرے آقا‘‘ کہتا سڑکوں پر گلیوں میں آکر کھڑا ہوجائے، تو روتے ہیں کہ پانی جا نہیں رہا۔ پانی طلب کرکے اسے استعمال نہ کرنا بلکہ الٹا شاکی ہوجانا اہل کراچی کا وہ جرم ہے جس کی انھیں سزا ملنی چاہیے، یہ تو حکومت کی مہربانی ہے کہ وہ اس جرم کی سزا دینے کے بجائے ہر بار طلبِ آب پر رسدِآب کا اہتمام کردیتی ہے۔ آخر شہریوں کی حکومت سے یہ زیادتی کب تک۔۔۔۔صوبائی حکومت کھڑے پانی اتنا بڑا ٹیکس لگائے کہ لوگوں کے دل بیٹھ جائیں۔

کوڑا ٹیکس:

صوبائی حکومت نے کسرنفسی سے کام لیتے ہوئے یہ راز کسی کو نہیں بتایا کہ گلی گلی کوڑا جمع کرنا درحقیقت ٹیکس جمع کرنے کی مشق ہے، جس سے یہ دکھانا بھی مقصود ہے کہ جو حکومت کچھ نہ کرکے اتنا کوڑا جمع کرسکتی ہے، وہ کچھ کرکے کتنا سارا ٹیکس جمع کرلے گی! کوڑے کے ان ڈھیروں سے شہری مستفید بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ پتا بتانے کے کام آتے ہیں، اب کراچی میں پتے یوں سمجھائے جاتے ہیں،’’وہ جو کوڑے کی پہاڑی ہے نا، اس سے تیسری گلی میں چوتھا مکان ہے‘‘،’’سڑک سے الٹی طرف مڑو، دائیں ہاتھ پر کوڑے سے بھرا پلاٹ ہے، بس اس کی ساتھ والی گلی میں رہتا ہے آپ کا بھائی۔‘‘ پھر ان ڈھیروں کو دیکھ کر شہری حکومت کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ ہتک عزت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر حکومت مدعی بن کر شہریوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرلے تو اس مد میں اربوں روپے وصول کرسکتی ہے۔ چلیے یوں نہیں تو یوں سہی۔ حکومت شہریوں سے کوڑا ٹیکس وصول کرے، کچرے کو قابل استعمال بنانے کا اس سے اچھا نسخہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

کُھلا گٹر ٹیکس:

حکومت سندھ ’’جب سب چھپاتے ہیں وہ ہم دکھاتے ہیں‘‘ کے نعرے پر یقین رکھتی ہے، پورے فخر سے اپنی نمائش کرتا کوڑا اور حکومت کی اس شفاف پالیسی پر حیرت سے منہ کھولے گٹر اسی سرکاری کُھلے پَن کے آئینہ دار ہیں۔ اس شفاف پالیسی کے علاوہ گٹر کھلے ہونے کا سبب کراچی والوں سے حکومت کی محبت بھی ہے۔ حکم راں سوچتے ہیں کہ کراچی میں نہ کوئی دریا بہتا ہے نہ چشمے نہ کوئی نہر، کم ازکم یہاں گٹر ہی بہتے رہیں، شہری کچھ تو بہتا دیکھیں۔ حکومت کی جانب سے گلی گلی مہیا کی جانے والی اس تفریح پر ٹیکس لگنا چاہیے۔  بعض شہری گٹر میں گر کر اس بہاؤ کو روکنے کا سبب بن جاتے ہیں، اس لیے حکومت گٹر میں گرنے پر بھاری ٹیکس لگائے۔

 بھٹو ٹیکس:

یہ بات تو طے ہے کہ بھٹو زندہ ہے۔ زندہ ہے تو اس کے کھانے پینے، لباس، رہائش، کار، موبائل فون، انٹرنیٹ، ٹی وی کیبل وغیرہ کے اخراجات بھی ہوتے ہوں گے۔ تو پھر یہ خرچہ کس کی ذمے داری ہوئی، ظاہر ہے کراچی والوں کیکیوں؟ اس لیے کہ مردم شماری کے اعدادوشمار نے ثابت کیا ہے کہ شہر میں جو ایک کروڑ کے قریب ’’زندہ‘‘ تھے، وہ یکایک عالم ارواح کو پرواز کرگئے۔ سو ان کی مد میں ہونے والے خرچے کی بچت ہوئی۔ لہٰذا یہ بچت شہریوں کے کام کیوں آئے، اس لیے بھٹوٹیکس لگا کر شہریوں سے بھٹو کے خرچوں کی وصول کی جائے۔

بلدیہ ٹیکس:

کراچی میں بلدیہ عظمیٰ سے نچلی سطح تک کئی بلدیاتی ادارے ہیں۔ اس بلدیہ کو صوبائی حکومت نے اختیارات نچوڑنے کے لیے اتنے بَل دیے ہیں کہ اس کے سارے کَس بل نکل گئے ہیں۔ حکومت سندھ صرف اس خیال سے کہ شہریوں کو تسلی رہے کہ ان کے پاس ایک بلدیہ ہے، اس ادارے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ بھئی حکومت یہ بوجھ کیوں اٹھائے، تو فی الفور شہریوں پر بلدیہ ٹیکس عاید کردیا جائے۔ شہری چاہے اس پر کتنے ہی بل کھائیں، اور ان کے ماتھے پر بَل پڑتے ہیں تو پڑتے رہیں، لیکن ٹیکس لگاکر بلدیہ کو انھی کے بل پر چلایا جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی والوں کے لیے اتنے ٹیکس کافی ہوں گے۔ یہ تو ہم اکیلے کے غورکردہ محصولات ہیں، سوچیے جب پوری کی پوری کمیٹی غور کرے گی تو کتنے مزید ٹیکس سامنے آئیں گے، جنھیں دیکھ کر کراچی کے شہری کہیں جاچھپیں گے، اور شہر کو ویران دیکھ کر سائیں ناصر حسین شاہ کہہ اٹھیں گے ’’شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے۔‘‘

The post سائیں! کراچی والوں پر یہ ٹیکس لگائیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3bIYCNf

بُک شیلف

کچھ ’خاکے‘ کچھ شکاروشکاری اور ’تذکرۂ ملکہ الزبتھ!‘
راشد اشرف نے ’زندہ کتابیں‘ سلسلے کے تحت جم کاربٹ کی تین کتب ’’میرا ہندوستان، جنگل کہانی اور ٹری ٹوپس‘‘ یک جا کی ہیں۔۔۔ تینوں کتب کے موضوعات ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ ہیں۔ یہ کتابیں 1950ء کی دہائی میں شایع ہوئیں۔ ’میرا ہندوستان‘ کے مترجم منصور قیصرانی ہیں، اسے پڑھیے، تو اس میں لکھے گئے مضامین پر بالکل اردو کے خاکوں کا سا گماں گزرتا ہے، اب جانے اس میں کتنا مترجم کا کمال ہے اور کتنا لیکھک کا۔۔۔ تاہم کتاب میں سماج کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کرداروں کو نہایت گہرائی اور گیرائی کے ساتھ اس طرح قلم بند کیا گیا ہے کہ قاری کے تخیل میں ان کی مجسم صورت واضح ہونے لگتی ہے۔ بالخصوص ’بھائی‘، ’بدھو‘، ’لالہ جی‘، اور ’چماری‘ جیسے عنوانات ایسے ہی کچھ کرداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

مصنف نے خود سے جُڑنے والے عام لوگوں کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔۔۔ اور باوجود خود ان سے مختلف ہونے کے، نہایت خوب صورتی سے انھیں لفظوں کا روپ دینے کی ایک کام یاب کوشش کی ہے۔۔۔ اِسے پڑھتے ہوئے بعض اوقات آپ ششدر رہ جاتے ہیں، تو کبھی آپ کی پلکیں ڈَبڈَبا جاتی ہیں۔۔۔ بالخصوص برصغیر کے روایتی نظام میں پھنسے ہوئے نچلے طبقے کے لوگوں کی زندگی کے کشٹ اور ان کے مسائل کا خوب بیان ہوتا ہے، یہ کتاب اس جلد کے ابتدائی 155 صفحات تک دراز ہے۔

دوسری کتاب ’جنگل کہانی‘ اگلے 125 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔۔۔ بغیر عنوان درجن بھر ابواب پر استوار یہ کتاب جنگل کی ایک ایسی کہانی ہے، جس میں فقط شکار، شکاری اور جنگل نہیں، بلکہ ایک سفرنامے کے طرز پر لکھنے والے کی جانب سے قاری کو مختلف واقعات سے روشناس کرایا گیا ہے، جس میں جم کوربٹ کی عادت کے مطابق جانوروں کی عادات واطوار سے لے کر ان کی آوازوں کے مطالب تک سمجھنے کا ذکر خصوصی طور پر شامل ہے۔

اس جلد میں شامل تیسری کتاب ’ٹری ٹوپس ‘ ہے، جس کے مترجم سمیع محمد خان ہیں، جو تقریباً 24 صفحات تک وسیع ہے۔۔۔ پانچ ابواب کی اس مختصر سی کتاب میں بھی ہمیں جانور اور شکار کے حوالے ملتے ہیں، اس کتاب کے تعارف میں سر میلکم لکھتے ہیں کہ اگر یہ کتاب نہ ہوتی تو، اس وقت کی شاہ زادی اور آج کی ملکہ الزبتھ کے اس سفر کی روداد سنانے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ 312 صفحاتی ’سہ جہتی جلد‘ کی قیمت 500 روپے اور ناشر فضلی سنز (0335-3252374) ہے۔

کلاسیکی ’ادب اطفال‘ کی یادگار ترتیب
’دل پسند کہانیاں‘ محمدی بیگم کی جمع کی گئی وہ مخصوص کہانیاں ہیں، جو دلی کے گھرانوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنائی جاتی تھیں۔۔۔ اس لیے اس میں اگر آپ کہانی کے لغوی معنی کے تحت ’کہانی پن‘ کھوجیں، تو شاید کہیں کچھ مایوسی ہو، بلکہ شاید یہاں ایسا کہنا ہی مبنی برانصاف نہ ہوگا، کیوں کہ دراصل یہ تو اردو کا وہ تاریخی ’زبانی ادب‘ اور ثقافتی ورثہ ہے، جن کا لکھنے والا یا انھیں بُننے والے نہ جانے کس زمانے کے افراد، مائیں یا آیائیں رہی ہوں گی۔۔۔ اس لیے فقط یہ تو تجسس کو راہ دینے والے وہ ’مکالمے‘ ہیں، جو ننھے ذہنوں کے تخیل کو ایک پروازِبلند عطا کرتے ہیں۔۔۔

ان کے ذہن کے کورے کاغذ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں بناتے ہیں، ان کے ذخیرۂ الفاظ کی بڑھوتری اور خیالات کو مہمیز کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر جب یہ اردو کا غیر تحریری ادب ہے، تو پھر اس میں ہم سنانے والیوں کے منفرد لب ولہجے کو تو کسی طرح منضبط اور محفوظ کر ہی نہیں سکتے ناں۔۔۔ اپنے بچپن میں سکون سے لیٹ کر یا نیم دراز ہو کر کہانیاں سننے والے شاید آج اس کا کچھ تصور کر سکتے ہوں کہ ان لفظوں کا طرزِ بیان اپنے میں کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔۔۔

ورنہ گفتار کا سپاٹ پَن ننھے ذہنوں کو بھلا اتنی آسانی سے کہاں تسخیر کر سکتا ہے۔۔۔ تبھی تو بچے کہا کرتے تھے، فلاں سے کہانی سننے میں لطف آتا ہے اور فلاں سے نہیں۔۔۔ اس کتاب میں شامل پودنے کی کہانی، چڑیا کی کہانی اور شیخ چلی کی کہانیوں کے عنوان اس قدر عام ہوئے کہ بعد میں لاتعداد کہانیاں انھی عنوان تلے لکھی جاتی رہیں۔

یہ کتاب 1906ء میں پہلی بار شایع ہوئی، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج اس کتاب کے ذریعے ہم نے اپنے دادا، دادی اور نانا، نانی یا ان کے بھی بزرگوں کے بچپن اور ان سے پہلے کے زمانے کو بازیافت کیا۔۔۔ زبان وبیان کو دیکھیے تو دلّی کی خاص بولی کا جلوہ نمایاں ہے اور ’’اِتّے میں‘‘ اور ’’اُن نے‘‘ جیسی منفرد تراکیب ملتی ہیں۔۔۔ کہیں کہیں فارسی آمیز زبان بھی پائی جاتی ہے، جو یقیناً اس زمانے کے بچوں کے لیے کافی سہل رہی ہوگی۔۔۔ لیکن آج کے اردو پڑھنے والے کے لیے شاید آسان نہیں رہی، بقول ناشر انھوں نے ’محمدی بیگم‘ کی اس محنت کو مزید ایک صدی کے لیے محفوظ کر لیا ہے، اور اب اس سے اگلے 100 برس کی فکر، آنے والے جانیں۔۔۔ اس کتاب کی قیمت 390 روپے ہے، یہ پیش کش ’اٹلانٹس‘ پبلی کیشنز (021-32581720, 0300-2472238) کی ہے۔

ترقی پسندی اور ’ممنوعہ کتاب‘
ترقی پسند ادب اور بمبئی (پروفیسر صاحب علی) 2010ء میں شایع ہوئی، جب کہ دوسری کتاب انگارے۔ ایک جائزہ‘ (شبانہ محمود) 1988ء میں منصۂ شہود پر آئی۔۔۔ جسے راشد اشرف نے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت ایک جلد میں شایع کرایا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں شمار ہونے والے بمبئی کو ہم شمالی اور جنوبی ہند کے مابین ایک پل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

اس لیے ہم اس کتاب میں دیکھتے ہیں کہ ہمیں اس میں اردو کے ساتھ مراٹھی، گجراتی، کنڑی، ملیالم اور تیلگو وغیرہ کی بازگشت بھی برابر ملتی ہے۔۔۔ اور اس کے مندرجات میں سجاد ظہیر، رفعت سروش، پروفیسر عبدالستار دلوی، پروفیسر یونس اگاسکر، ڈاکٹر خورشید نعمانی، کیفی اعظمی، سلطانہ جعفری، جاوید اختر، شبانہ اعظمی اور دیگر کے مضامین شامل ہیں۔۔۔ دوسری کتاب ’انگارے‘ کا جائزہ ہے، جو 1932ء میں لکھنئو سے شایع ہوئی، یہ سجاد ظہیر کی پانچ، احمد علی اور رشید جہاں کی دو، دو اور محمود الظفر کی ایک کہانی پر مشتمل تھی۔

جس میں بیرونی سامراج کے ساتھ اپنے سماج کے زوال پذیر اقدار پر کھل کر تنقید کی گئی، جس کے سبب برطانوی حکومت نے ہندوستان میں فوراً اس کتاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ’انگارے ایک جائزہ‘ میں چاروں مصنف کے کام پر الگ الگ ابواب باندھے گئے ہیں اور ساتھ حوالوں کا اہتمام بھی ہے۔ ’انگارے‘ کی اشاعت سے پیدا ہونے والی صورت حال، فتوے اور نقادوں کے محاذ کے ساتھ کہانیوں کے مندرجات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔۔۔ اور ساتھ لکھنے والوں کے حالات زندگی اور نظریات وغیرہ کا بھی ضبطِ تحریر کیے گئے ہیں۔ دونوں کتب کی ایک جلد ضخامت 304 صفحات اور قیمت 600 روپے ہے۔ اشاعت کا اہتمام ’بزمِ تخلیق ادب‘ (0321-8291908) کی جانب سے کیا گیا ہے۔

اسمِ ’پاکستان‘ کے بانی سے تعارف کی ایک کوشش
’’چوہدری رحمت علی ایک تاریخ ساز شخصیت‘‘ محمد شریف بقا کے مختلف مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔۔۔ 188 صفحاتی کتاب میں چوہدری رحمت علی کے مختلف سیاسی اور مذہبی نظریات اور کچھ پیش گوئیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

مختلف مضامین کے کتابی صورت میں یک جا ہونے کے باعث قاری کو اس میں تکرار کا احساس بار بار ہوتا ہے۔۔۔ جیسے مسلم قومیت کی جداگانیت، ہندوستان کو ’ہندوستان‘ کہنے کا مطلب ہندوئوں کا ملک لینا، (اسے وہ ’انڈیا‘ کے جواب میں ’دینیہ‘ قرار دیا کرتے تھے، یعنی بہت سے ’ادیان‘ کا خطہ۔۔۔) اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذرا سی تدوین کے ذریعے کتاب کو مزید جامع اور مختصر کیا جا سکتا تھا۔ اس کتاب میں اُس زمانے کی تُرک صحافی خالدہ ادیب خانم کے چوہدری رحمت علی کے انٹرویو کی بازگشت بھی ملتی ہے اور اُن کا مشہور زمانہ پمفلٹ ’اب یا کبھی نہیں‘ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔

پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی نے ابتداً ہندوستان میں ’پاکستان‘ سمیت سات مسلم ریاستوں کا تصور پیش کیا تھا اور بارہا ہندوستان میں ’مسلم اقلیت پرستی‘ کو ایک المیے سے تعبیر کیا، لیکن جب انھی کے 1933ء کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے بٹوارے کے ہنگام میں ہندوستان کی مسلمان اقلیت کا ایک بہت بڑا حصہ وہیں رہ گیا، تو اس حوالے سے ان کا موقف کیا تھا، اس کی تشنگی ہمیں یہاں بھی محسوس ہوتی ہے، جب کہ وہ اپنے تجویز کردہ ’پاکستان‘ کے ’ک‘ یعنی کشمیر کو اس ریاست میں نہ لینے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی تاریخ کے طالب علموں میں ایک تشنگی کا سا احساس ہوتا ہے کہ آخر انھوں نے اپنی پچھلی تجویز کردہ سات مختلف ریاستوں پاکستان (موجودہ پاکستان مع کشمیر)، عثمانستان (دکن میں)، صدیقستان (بندھیل کھنڈ اور مالوہ میں)، فاروقستان (بہار اور اڑیسہ میں)، حیدرستان (آگرہ، اوَدھ اور یوپی وغیرہ میں)، معینستان (راجستھان میں) اور ماپلستان (مدراس میں) شامل تھا، سے کیوں کر علاحدگی اختیار کی، یا اُن کا موقف صرف ’پاکستان‘ تک کیوں محدود ہوگیا۔۔۔؟ جب کہ وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ علامہ اقبال کے 1930ء کے ’تصورِ ریاست‘ کے حامی نہیں۔ کتاب میں کئی جگہوں پر چوہدری رحمت علی کے (متحدہ ہندوستان میں) مسلمانوں کے اقلیت کے طور پر حالات کے استدلال میں ہندوستان کے مسلمانوں کے موجودہ حالات کی مثال دی گئی ہے، جو کہ ظاہر ہے ’غیرمنقسم ہندوستان‘ کا نہیں، بلکہ بٹوارے کے بعد کا منظرنامہ اور ایک مختلف صورت حال ہے، جب کہ چوہدری رحمت علی متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کے خدشات مذکور کر رہے ہیں۔ اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے، جب کہ اس کی اشاعت کا اہتمام مکتبہ جمال (0322-4786128)لاہور سے کیا گیا ہے۔

اشتیاق احمد کے تین ناول
اردو میں بچوں کے عہد ساز ادیب اشتیاق احمد کو دنیا سے گزرے ہوئے پانچ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن ان کے نئے ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔۔۔ بقول ناشر اشتیاق احمد کے نئے ناولوں کے ذخیرے میں سے ہر سال ایک دو ناول شایع کیے جاتے رہیں گے۔

حال ہی میں ان کے نئے ناول ’’نواب پور کا محل‘‘ سمیت تین ناول شایع کیے گئے ہیں۔۔۔ جس میں سے دو ناول ’احمق کہیں کا‘ اور ’مصنف کہیں کا‘ یہ ناول 30 برس قبل ’جیبی سائز‘ میں شایع ہوئے ہیں اور اب دست یاب نہیں۔ نئے ناول ’نواب پور کا محل‘ میں اشتیاق احمد کی ’دوباتیں‘ پرانی دی گئی ہیں یا اس ناول کے لیے لکھی گئی ہیں، یہ واضح نہیں، البتہ اس میں انھوں نے بوڑھے ہونے اور زندگی کے عجیب ہونے کا تذکرہ بھی خوب کیا ہے۔183 صفحاتی اس ناول کی قیمت 350 روپے ہے۔ اس ناول میں جدید ذرایع موبائل فون اور ایس ایم ایس کے تذکرے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

یہ ایک پراسرار حویلی تسخیر کرنے کا ماجرا ہے۔۔۔ جس کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور تھیں اور پھر انسپکٹر جمشید اینڈ کمپنی کے پہنچنے کے بعد حسب دستور اس فسوں خیز قصے کا اَنت ہوتا ہے۔۔۔ تقریباً 50 صفحات پر مشتمل ’احمق کہیں کا‘ میں انسپکٹر جمشید اور دیگر کرداروں کی اشتیاق احمد سے ’ملاقات‘ کا واقعہ ہے۔۔۔ یہ بچوں کے رسالے ’چاند ستارے‘ کے کہانی نمبر کے ساتھ مفت پیش کیا گیا تھا۔۔۔ تاہم اب اس کی دوبارہ اشاعت کی گئی ہے۔

مکرر شایع ہونے والے دوسرے ناول ’مصنف کہیں کا‘ میں بھی اشتیاق احمد بہ نفس نفیس خود ایک کردار کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں، ایسا اگرچہ ان کے ناولوں کی عام رِِیت نہیں ہے، لیکن اس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اِن دونوں پرانے ناولوں کے ’پسِ ورق‘ پر اشاعت اول کے سرورق کی اشاعت کی گئی ہے۔۔۔ تینوں ناول ’انسپکٹر جمشید سیریز‘ کے ہیں، ناشر ’اٹلانٹس‘ پبلشر (021-32581720, 0300-2472238) کراچی ہے، قیمت فی ناول 140 روپے ہے۔

غالب کو کھوجنے کی ایک اور کوشش۔۔۔
’’قومی زبان‘‘کا غالب نمبر
غالب کا صرف شاعر ہونا تو کہیں بہت پیچھے رہ گیا، اب تو وہ اردو تہذیب وثقافت کا ایک اساطیری کردار بن چکا ہے، ایک دیومالا۔۔۔جو لاشعور میں رچ بس جاتی ہے، محاوروں میں ابھرتی ہے، روزمرہ کا حصہ بنتی ہے، ثقافتی مظاہر میں نمایاں ترین جگہ پاتی ہے، حیران کیے رکھتی ہے ششدر کیے جاتی ہے۔

عبدالرحمٰن بجنوری کا ’’دیوان غالب‘‘ کو ہندوستان کی الہامی کتاب کہنا خود ایک الہامی پیش گوئی محسوس ہوتا ہے۔ اپنے دور کے دواوین کے مقابل اختصار میں ’’کتابچے‘‘ کی حیثیت رکھنے والے اس مجموعے کے ظہور کو لگ بھگ دو صدیاں گزر گئیں مگر اس کے شعروں کی پرتیں ہیں کہ ختم ہونے ہی کو نہیں آتیں۔ اور پھر خود صاحب دیوان۔۔۔۔جس کے ’’بلی ماراں‘‘ سے ’’ڈومنی‘‘ تک اور پینشن کے مسائل سے رنجشوں اور مناقشوں تک تمام سروکار بحث، تحقیق اور گفتگو کا موضوع بنتے ہیں، لیکن اس کی جہتیں اور زندگی کے گوشے جاننے اور سمجھنے کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ ماہ نامہ ’’قومی زبان‘‘ کا فروری 2021 کا شمارہ اردو کی پہچان بن جانے والے اس سخن ور کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ غالب کو مزید کھوجنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

’’قومی زبان‘‘ کی غالب پر 262 صفحات پر مشتمل اس خصوصی اشاعت کی خاص بات اس کا تنوع ہے۔ شمارے میں محبان غالب کے لیے مرزا اسد اللہ کے کلام اور زندگی مختلف پہلوؤں کو احاطۂ تحریر میں لیے مضامین شامل ہیں، جن میں سے تقریباً ہر نگارش مختصر، تازگی لیے ہوئے اور دل چسپ ہے۔ خصوصی شمارے کا اپنی طرف کھینچتا دیدہ زیب سرورق غالب کے شایان شان ہے، جس پر صاحب شمارہ کا لفظوں سے بنا خاکہ غالب کی صحیح تصویر کشی کررہا ہے۔

یہ شمارہ قومی زبان کی مدیر ڈاکٹر ثروت رضوی اور نائب مدیر ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے جس لگن، محنت اور محبت سے مرتب کیا ہر ورق اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کا اداریہ ڈاکٹریاسمین سلطانہ فاروقی کے قلم سے نکلا ہے۔ اس مختصر تبصرے میں زیادہ کہنے کی گنجائش نہیں، چناں چہ ہم شمارے میں شامل مضامین کی فہرست پیش کیے دیتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس میں غالب کے گوناگوں پہلوؤں کا کس طرح احاطہ کیا گیا ہے:

غالب اور معارضۂ کلکتہ(پروفیسر ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی)، مطالعاتِ غالبؔ میں ایک قیمتی اضافہ (پروفیسر حکیم سیّد ظل الرحمن)، غالبؔ کا معذرت نامہ… ایک تجزیہ(ڈاکٹر یونس حسنی)، غالبؔ کی تمثیل نگاری: ایک نیا مطالعاتی زاویہ(ڈاکٹر معین الدین عقیل)، غالبؔ کے ایک محقق و نکتہ چیں…ڈاکٹر سید عبداللطیف (پروفیسر ڈاکٹر مظفر علی شہ میری)، غالبؔ کی فارسی نعت میں اسمِ محمدؐ کی تجلیات (ڈاکٹر شبیر احمد قادری)، ہماری قومی یک جہتی اور غالبؔ (ڈاکٹر رضا حیدر)، غالبؔ کی شاعری پر مابعدالطبیعیاتی نظر (محمود شام)، تنقیدی تھیوری اور تفہیم غالبؔ (جلیل عالی)، غالبؔ…ہر عصر کا شاعر (ڈاکٹر انواراحمد)، کلامِ غالبؔ میں حروفِ ظرف کی معنویت (ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط)، مشاہدۂ حق کا شاہد…غالبؔ (کرامت اللہ غوری)، غالبؔ کے اہم ممدوح الیہ…دیوان محمد علی: آثار و کوائف (ڈاکٹر صغیر افراہیم)، غالبؔ کی شاعری اور فن کے عناصرِ ترکیبی (ڈاکٹر نجیب جمال)، کلامِ غالبؔ کا نعتیہ رنگ (اکرم کنجاہی)، اردو غزل کا ہندوستانی مجدد… غالب ؔ(ڈاکٹر ابوبکرعباد)،

غالبؔ کی چار غیرمردّف غزلیں(ڈاکٹر رئیسہ بیگم ناز)، شیوۂ غالبؔ (مبین مرزا)، غالبؔ اور دل عدوے فراغ (فاروق عادل)،نابغۂ روزگار شاعر اور ادیب…مرزاغالبؔ (نسیم انجم)، اردو اور مقامِ غالبؔ (نجمہ عالم)، غالبؔ اور راجستھان: ایک تحقیق (معین الدین شاہین)، غالبؔ کے خطوط میں بیانیے کا عمل (غضنفر اقبال)، ہماری مشترکہ تہذیب اور غالب (محضر رضا)، غالبؔ کا تصورِانسان دوستی: ایک مطالعہ (نزاکت حسین)، غالبؔ کی شاعری میں حسن و جمال کا تذکرہ (ڈاکٹر روبینہ شاہین/ڈاکٹر انتل ضیا)، گنجینۂ معنی کا طلسم اور غالبؔ کی معنٰی آفرینی(خالد معین)، غالبؔ کے خطوط میں تاریخی مصوری(ڈاکٹر صالحہ صدیقی)، ڈراما ’’اس شکل سے گزری غالبؔ‘‘ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ (ابراہیم افسر)، غالب کا نفسیاتی مطالعہ (خالد محمود سامٹیہ)، مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے خطوط کی انفرادیت (عروسہ نعیم قریشی)، غالبؔ کی بازگشت…حسرتؔ موہانی (احسان الحق)، غالب کے عہد کا عکّاس…غالب انسٹی ٹیوٹ کا ’’غالب میوزیم‘‘ (محمد تسلیم)۔

(تبصرہ نگار: محمد عثمان جامعی)

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3e1fzVE

ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں ؛ ایک نابغۂ روزگار شخصیت

 حیدرآباد: حیدر آباد شہر کو ہر دور میں علمی، ادبی اور مذہبی حوالے سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ ہر زمانے میں اس خطۂ ارضی میں ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنی علمی و ادبی، سیاسی اور تحقیقی کاوشوں سے لازوال خدمات انجام دیں۔

ایسے ہی نابغۂ روزگار پاکستان کی ممتاز روحانی شخصیت، محقق، ماہرلسانیات، عالم دین، مترجم، ماہر تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں تھے ، جنہوں نے اپنی تمام زندگی تعلیم اور دین اسلام کے فروغ کے لیے وقف کردی۔ خوشبو، رنگ ، روشنی، نور، علم، آگہی، حکمت، بصیرت، ہدایت، انکسار، مسکراہٹ ، زہد، تقویٰ، عبادت، حلم، ریاضت ان سب صفات کو خمیر سیرت سے ہم آہنگ کیا جائے تو ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کی شخصیت وجود میں آتی ہے۔

ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں جبل پور (سی پی) بھارت میں دو شنبہ، 10 شوال المکرم 1330 ھ مطابق یکم جولائی 1912ء پیر کے دن فجر کے وقت پیدا ہوئے۔ پہلے آپ کا نام ’’محمد مصطفٰے خاں‘‘ رکھا گیا مگر بعد میں آپ کی والدہ نے آپ کا نام ’’غلام مصطفٰے خاں‘‘ رکھا۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1917ء میں ضلع جبل پور سے کیا۔ جب آپ کی عمر 5 برس تھی تو یہاں چھیپا محلہ کے اسکول میں داخل کرایا گیا، اور اسی سال کے آخر میں اہل خانہ جبل پور منتقل ہوگئے۔ پہلے کھائی محلہ میں قیام کیا بعد میں محلہ بھان تلیا میں آگئے۔

یہاں آپ کے والد گلاب خان صاحب نے 1919ء میں ایک مکان ایک سو سترہ (117) روپے میں خرید لیا، ڈاکٹر صاحب کا داخلہ دلہائی محلہ کے اسکول میں کرایاگیا۔ یہاں آپ نے چار جماعت تک تعلیم حاصل کی پھر کٹھک محلہ کے اسکول میں داخل ہوئے۔

1923ء میں پرائمری کے امتحان میں پورے شہر میں اوّل آئے اور چار سال تک کے لیے آپ کو چار روپے ماہانہ وظیفہ ملتا رہا۔ آپ کی دینی تعلیم کا آغاز گھر ہی سے ہوا۔ بڑے بھائی نذیر احمد خاں نے پہلے پارے کے چند رکوع بہت سمجھاکر پڑھا دیے تھے پھر مکمل قرآن پاک ڈاکٹر صاحب نے خود ہی پڑھا۔ 1923ء میں پرائمری پاس کرنے کے بعد ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کو ’’انجمن اسلامیہ ہائی اسکول‘‘ میں داخل کرایا گیا۔ آپ نے 1928ء میں نویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور دسویں جماعت کے لیے علی گڑھ کالج چلے گئے۔

علی گڑھ اس وقت ہندوستان میں علم و ادب کا مرکز تسلیم کیا جاتا تھا ۔ علی گڑھ میں قیام ڈاکٹر صاحب کی تعلیم و تربیت کا اہم ترین اور زریں دور ہے۔ 1929ء میں میٹرک پاس کیا۔ اپریل 1931ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔1931ء ہی میں یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اس دوران علی گڑھ یونیورسٹی میں ضیاء احمد بدایونی سے فارسی نثر و نظم ، تاریخ پروفیسر عبدالرشید اور انگریزی مختار حامد علی سے پڑھی اور تاریخ اسلام کے لیے مولانا ابوبکر محمد شیث صاحب اور مولانا سید سلیمان اشرف صاحب جیسے بزرگوں سے بھی استفادہ کیا۔

اپریل 1933ء میں بی اے فائنل کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد 1933ء ہی میں آپ نے ایم اے (فارسی) میں داخلہ لیا۔ اپریل 1935ء میں ایم اے فارسی فائنل کا امتحان پاس کیا، اور آپ کی ایم اے فارسی میں تھرڈ ڈویژن آئی، اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے ناگ پور یونیورسٹی سے 1937ء میں فارسی ہی میں دوبارہ ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ایم اے فارسی کے بعد آپ نے اپنے دوست رضا علی خاں کے مشورے پر ایم اے (اردو) میں داخلہ لے لیا۔

رشید احمد صدیقی صدر شعبۂ اردو تھے۔ اپریل 1936ء میں ایم اے اردو اور ایل ایل بی کے امتحانات ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب میں حصولِ تعلیم کا شوق اور حصول علم کا ذوق اس بات سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس سال آپ نے ایم اے (اردو) سال اول سال آخر کے ساتھ ایل ایل بی کے بھی تمام پرچوں کا امتحان دیا اور کام یاب ہوگئے۔ ایم اے اردو کے Viva میں رشید احمد صدیقی اور احسن مارہروی کے علاوہ ایک ممتحن باہر سے بھی تشریف لائے تھے۔

15مئی1936ء کو آپ اپنے وطن جبل پور روانہ ہوئے۔ 3جون 1936ء کو ایم اے (اردو) اور ایل ایل بی کا نتیجہ ظاہر ہوا۔ جبل پور میں آپ کو نتیجہ معلوم ہوا کہ دونوں امتحانات میں آپ سیکنڈ کلاس میں پاس ہوئے ہیں۔ یوں 1936ء میں آپ علی گڑھ کی تعلیم سے فارغ ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں علی گڑھ مرکزی اہمیت کا حامل رہا۔ یہاں انہوں نے تقریباً 8 برس تعلیم حاصل کی۔

جس وقت آپ یہاں آئے تھے، آپ کی عمر16سال تھی اور واپسی پر 24 سال کے تھے۔ یعنی نوجوانی کا یہ دور آپ نے وہاں گزارا۔ لہٰذا علی گڑھ آپ کے لیے دوسرا وطن تھا۔ اس اہم دور میں آپ کی تربیت کے ساتھ ان کی ذہنی تدریجی ترقی کا علم بھی ہوتا ہے۔

فارسی سے دل چسپی، فارسی ادب میں ان کا مطالعہ، فارسی میں شعر گوئی کا آغاز، تفریح طبع کی خاطر ایک نظم، انگریزی میں مہارت، اس زبان میں پانچ کتابیں، ایک مضمون اور ایک منظوم خیال کے ساتھ اقبال کے فارسی کلام کے انگریزی ترجمے کو محفوظ کرنا، معروف فارسی تذکرے کا انگریزی میں ترجمہ، تاریخ گوئی کا آغاز، دینی تعلیم کے حصول میں کام یابی وغیرہ، یہ سب کارہائے نمایاں ہمیں اسی دور میں ملتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جب بی اے میں زیرتعلیم تھے تو تجوید و قرأت سبعہ کی تکمیل کے لیے استاد الہند ضیاء الدین احمد الہ آبادی کے درس میں بعد از مغرب شامل ہونے لگے۔

علم تجوید و قرأت سبعہ کی تحصیل میں ڈاکٹر صاحب کا سلسلہ اس طرح دیکھا جاسکتا ہے، ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کے اساتذہ میں قاری ضیاء الدین احمد الہ آبادی، مولانا حضرت عبدالرحمٰن صاحب مکی، حضرت عبداﷲ صاحب مکی اور حضرت ابراہیم مصری شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے قاری ضیاء الدین احمد الہ آبادی سے بڑا علمی اور روحانی فیض حاصل کیا ہے۔ یعنی آپ نے قاری صاحب سے تجوید و قرأت اور عربی صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی نیز ڈاکٹر صاحب مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے وہ طالب علم تھے جنہیں سب سے پہلے علم تجوید بہ روایت حضرت سیدنا امام حفص ؒ سے حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور پہلی سند آپ کو عطاء کی گئی۔

اس کے علاوہ آپ ہی وہ پہلے طالب علم تھے جنہیں یونیورسٹی کی طرف سے دو سال تک سات (7) روپے مہینہ وظیفہ بھی حاصل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے دیگر اساتذہ میں نمایاں نام سید سلیمان ندوی، ضیاء احمد بدایونی، رشید احمد صدیقی، احسن مارہروی، مولانا ابوبکر شیث جون پوری اور مولانا سلیمان اشرف وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ محسنین میں صدر یار جنگ، نواب حبیب الرحمٰن شیروانی، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، پرنسپل علامہ محمد شفیع بہت اہم ہیں۔ حاجی حمید الدین شعبۂ فارسی میں ڈاکٹر صاحب کے استاد تھے۔

مولانا عبدالخالق ایل ایل بی کلاس میں ڈاکٹر صاحب کے استاد تھے۔ مولانا سلیمان اشرف سے ڈاکٹر صاحب نے تفسیر پڑھی اور شرف تلمذ حاصل ہوا۔ قرآن پا کی تفسیر کے ساتھ مولانا سلیمان اشرف ہفتے میں 2سے3 دن مغرب کے بعد بخاری شریف بھی پڑھاتے تھے۔1936ء میں ڈاکٹر صاحب علی گڑھ سے فارغ ہوئے اور اسی سال 15مئی کو آپ علی گڑھ سے جبل پور کے لیے روانہ ہوئے۔ جبل پور پہنچ کر پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں غور کیا۔ چوں کہ آپ نے ایل ایل بی کیا تھا لہٰذا عزیزوں کا مشورہ تھا کہ وکالت شروع کی جائے لیکن ڈاکٹر صاحب کی مرضی اس طرف نہیں تھی، گھر کے حالات ایسے تھے کہ بڑے بھائی نے اب تک تمام خرچ اٹھایا تھا، ڈاکٹر صاحب روزگار کے سلسلے میں متفکر تھے۔

اسی دوران پبلک سروس کمیشن نے کنگ ایڈورڈ کالج امراؤتی (برار) کے لیے اردو کے ایک استاد کی جگہ کے لیے اشتہار دیا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے کاغذات تیار کیے اور کمیشن کے دفتر روانہ کردیے۔ پبلک سروس کمیشن کی طرف سے اردو کے ایک استاد کے لیے آپ کو انٹرویو لیٹر موصول ہوا۔ یہ انٹرویو 5 جولائی 1937ء کو ناگ پور میں ہوا اور انٹرویو میں آپ کو منتخب کرلیا گیا۔15جولائی1937ء کو آپ نے اپنے فرائض منصبی سنبھال لیے۔ آپ اردو کے لیکچرار ہونے کے ساتھ شعبۂ اردو کے صدر بھی تھے۔

جب سی پی انڈیا میں اردو کا کوئی استاد نہیں تھا اس وجہ سے باقاعدہ شعبۂ اردو بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سی پی میں شعبۂ اردو کی بنیاد رکھی اور پہلی مرتبہ ایم اے اردو کے لیے باقاعدہ نصاب مرتب کیا۔ جس وقت آپ نے انٹرویو دیا اس وقت آپ کی عمر  24سال چند ماہ تھی۔1937ء میں آپ نے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کیا اور پہلی بار اپنے استاد ضیاء احمد بدایونی سے موضوع پر مشورہ چاہا تھا۔ 30 اگست 1937ء کو ضیاء احمد بدایونی نے آپ کے تحقیقی ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے 10عنوانات تجویز کیے تھے۔ ان کے مشورے سے آپ نے 1940ء میں حسن غزنوی پر ناگ پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے کام شروع کیا تھا۔ حسن غزنوی فارسی کے مشہور شاعر تھے۔

اس مقالے کی تیاری میں آپ کو اپنے اساتذہ میں سے مولانا ضیاء احمد بدایونی، پرنسپل محمد شفیع اور حبیب الرحمٰن شیروانی کا تعاون ہمہ وقت حاصل رہا۔ یہ مقالہ 1946ء میں مکمل ہوا۔ 4 اپریل 1947ء کو آپ نے پی ایچ ڈی کرلیا تھا۔ مراؤتی کالج کے بعد آپ کا تبادلہ ناگ پور یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے ہوگیا۔ یہاں بھی شعبۂ اردو آپ ہی نے قائم کیا اور اس کے لیے نصاب مرتب کیا۔ 1947ء میں آپ کا تبادلہ مارکس کالج میں ہوگیا مگر یہاں زیادہ وقت نہیں گزارا کہ 14اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ ستمبر1947ء میں ڈاکٹر صاحب کے دونوں بڑے بھائی حاجی نذیر احمد خاں اور حاجی عبدالرحمٰن خاں والدہ صاحبہ محفوظ النساء بیگم کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے بچے سراج احمد خاں اور بیٹی ہاجرہ کو لے کر پاکستان آگئے۔

ادھر مارکس کالج سے پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کو خط لکھا کہ آپ واپس آجائیں اور مارچ تک کام کرکے اپریل سے تعطیل ہونے پر چلے جائیں۔ چناں چہ آپ دسمبر میں ہوائی جہاز سے بمبئی پہنچے وہاں سے ریل میں ناگ پور پہنچے۔ ناگ پور میں کل 20-25 دن کام کیا لیکن پھر بڑے بھائی صاحب نذیر احمد خاں نے کراچی سے تار کیا کہ سراج احمد خاں ڈاکٹر صاحب کے بیٹے کو موتی جھرا نکل آیا ہے لہٰذا آپ نے مستقل طور پر پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا اور گیارہ سالہ گزیٹیڈ پوسٹ ترک کرکے 22 جنوری 1948ء کو ہمیشہ کے لیے پاکستان آگئے۔

جس وقت آپ نے اس ملازمت کو چھوڑا آپ کی تنخواہ 330 روپے ماہانہ تھی۔ پاکستان آنے کے بعد آپ بغدادی محلہ چاکی واڑا کراچی میں رہے پھر پیرالٰہی بخش کالونی میں مکان خرید لیا۔ آپ کی پہلی شادی آپ کے ماموں عبدالمجید خاں کی صاحبزادی کنیز آمنہ بی سے 14اکتوبر 1936ء کو بھان تلیاں جبل پور میں ہوئی۔

اس وقت ڈاکٹر صاحب کی عمر 23سال 6 ماہ اور زوجہ کنیز آمنہ بی کی عمر تقریباً 15 برس تھی۔ آپ حافظ قرآن تھیں۔ ان سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ پہلے فرزند کی پیدائش کے ساتھ ہی وفات ہوگئی، دوسرے نمبر پر جبل پور میں کنیز فاطمہ (ہاجرہ) پیدا ہوئیں ، تیسرے نمبر پر جبل پور میں سراج احمد خاں کی ولادت ہوئی۔ (انہوں نے شعبۂ اسلامیات سندھ یونیورسٹی سے ’’مکتوبات امام ربانی کی دینی اور معاشرتی اہمیت‘‘ پر 1974 میں پی ایچ ڈی کیا) چوتھے نمبر پر جبل پور میں فرزند ظفر احمد خاں پیدا ہوئے (یہ مجذوب الحال ہیں) پانچویں نمبر پر سیونی میں بیتی صابرہ کی پیدائش ہوئی اور جبل پور میں انتقال ہوگیا۔ چھٹے نمبر پر جبل پور میں عزیز احمد خاں کی پیدائش ہوئی لیکن ان کی بھی کراچی میں وفات ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب کی پہلی اہلیہ کا انتقال 1947ء میں ہوا۔

پہلی اہلیہ کے انتقال کے تقریباً دو سال بعد قمر بیگم صاحبہ سے 30 اگست 1949ء کو آپ کا دوسرا عقد ثانی ہوا، قمر بیگم سے تین بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ آپ کی دوسری اہلیہ کا انتقال 7 فروری 1991ء میں ہوا۔ پاکستان میں آپ کا پہلا تقرر اسلامیہ کالج کراچی میں ہوا۔ کالج نیا قائم ہوا تھا چناں چہ آپ ہی شعبۂ اردو کے صدر منتخب ہوئے۔ یہاں بھی آپ نے نصاب مرتب کیا۔ یہاں تقریباً دو برس کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر صاحب کا پہلا مضمون 1948ء میں اورینٹل کالج میگزین لاہور میں شائع ہوا جو ان کے مقالے ’’حسن غزنوی‘‘ کی پہلی قسط تھی پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان اقساط کے علاوہ پاکستان میں پہلا مضمون اسلامیہ کالج کے پہلے میگزین 1949ء میں ’’چند علمی نکات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔

ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے کہنے پر 1950ء میں آپ اردو کالج کراچی میں شعبۂ اردو کے صدر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ آپ اردو کالج میں تقریباً 6برس سروس مکمل کرکے 1956ء میں مستقل طور پر کراچی سے حیدرآباد آگئے۔ سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر علامہ آئی آئی قاضی کے اصرار پر ڈاکٹر صاحب نے 14جولائی 1956ء کو سندھ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے چارج لیا۔

ڈاکٹر صاحب کا تقرر سوا آٹھ سو روپے ماہوار پر ہوا۔ 1972ء میں ڈاکٹر صاحب کی عمر 60 سال ہوگئی، چناں چہ آپ ریٹائرڈ ہوگئے لیکن سندھ یونیورسٹی نے ملازمت میں ایک سال کی توسیع کردی یہ توسیع چار مرتبہ ایک ایک سال کے لیے ہوتی رہی، یوں آپ نے 20 سال سندھ یونیورسٹی میں گزارے اور 1985ء میں جامعۂ سندھ نے آپ کی علمی و تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا۔ جون1959ء میں آپ نے ناگ پور یونیورسٹی سے ڈی لٹ بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا معتبر ترین حوالہ آپ کی تحقیقی خدمات ہیں۔ آپ نے مفید مشوروں پر مشتمل ایک مضمون 1961ء میں ’’فن تحقیق‘‘ لکھا۔

بہ طور ماہرلسانیات بھی تھے آپ کا نمایاں اور قابل ذکر کام ’’ فارسی پر اردو کا اثر‘‘ ہے جس میں ایسے بہت سے الفاظ دیے گئے ہیں جو اردو کی وساطت سے فارسی میں داخل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک اہم کارنامہ ان کا تحقیقی مضمون ’’اردو املا کی تاریخ‘‘ ہے۔ اس میں قدیم اردو کے نمونے پیش کیے گئے ہیں اور حرف پر تنقید علاقائی حروف کی اشکال کی مدد سے کی گئی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی لغت نویسی ان کی شبانہ روز محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سلسلے میں ان کا اولین باقاعدہ اور باضابطہ کام ’’سندھی اردو لغت‘‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اردو صرف و نحو پر کتاب لکھی جس کا عنوان ’’اردو صرف و نحو‘‘ ہے۔ اس میں اردو نحو کے قواعد اور اصولوں کو مثالوں کے ذریعے واضح کیاگیا ہے۔ آپ نے ایسے الفاظ کی تفصیل فراہم کی جن کا املا غلط رائج ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ’’ہمارا تلفظ ‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر کتابچہ تحریر کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے نصاب کو مرتب کیا بلکہ بچوں کا نصاب بھی ترتیب دیا۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے آپ کا ایک مضمون ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے عنوان سے انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں شامل ہے۔

پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے بھی اس مضمون کی جامعیت، اختصار اور افادیت کے پیش نظر اپنے نصاب میں شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کی علمی، ادبی اور تدریسی خدمات کا اعتراف ملکی سطح پر متعدد بار ہوچکا ہے۔ آپ کو ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز کے علاوہ بہت سے اعزازات و انعامات حکومت اور دیگر اداروں کی طرف سے پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کی ادبی و تعلیمی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ اقبال ایوارڈ، جامعۂ سندھ کی طرف سے ماہر تعلیم کا طلائی تمغا، انجمن ترقی اردو کراچی کی جانب سے نشان سپاس، پاکستان نیشنل اکیڈمی کی طرف سے نشان سپاس، قائداعظم ایوارڈ ، بلدیہ اعلٰی حیدرآباد کی جانب سے تاج پوشی اور نشان بلدیہ پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر اعزازات و انعامات شامل ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں 100سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں، جن میں علمی نقوش ، حالی کا ذہنی ارتقا، ادبی جائزے، تحقیقی جائزے، جامع القواعد حصہ نحو، سرگذشت کابل، حسن غزنوی حیات اور ادبی کارنامے، تاریخ بہرام شاہ غزنوی (انگریزی) اقبال اور قرآن، ہمارا علم و ادب اور دیگر کتب شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بے شمار شاگرد ہیں۔ آپ کے کچھ نام ور شاگردوں کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ابن انشاء، ڈاکٹر نجم الاسلام، ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمی، ڈاکٹر سید معین الرحمٰن، فخر علی عباسی، پروفیسر انوار احمد زئی اور دیگر۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں 25  ستمبر 2005 کو 93 برس میں انتقال کرگئے۔ آپ احاطہ مسجد غفوریہ ٹول پلازہ سپرہائی وے بائی پاس حیدرآباد میں آسودۂ خاک ہیں۔

The post ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں ؛ ایک نابغۂ روزگار شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2PlElFV

توشۂ خاص

کشتہ شمع رسالتؐ حضرت حفیظ تائب
تائب مری آنکھوں میں ہے تنویر پیمبرؐ

تفاخر محمود گوندل

اس باب میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیںکہ حضور سید المرسلین آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا سب سے بڑا ثناء خوان خود رب کائنات ہے۔ از روئے قرآن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے ہمہ وقت اپنے محبوب مکرم پر نہ صرف خود درودوسلام کی بارش کر رہے ہیں بلکہ اہل ایمان کو بھی یہ تلقین نہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اس روایت و سنت کو بیدار و زندہ رکھتے ہوئے صاحب یٰسین و طہٰ پر کثرت سے درودو سلام بھیجیں۔

اس کا صاف مطلب ہے کہ حکم خداوندی سے انحراف صریحاً تکفیر کے زمرے میں آتا ہے یہی وجہ ہے حضور سرور کائنات ؐ پر درود بھیجنا مستقلاً نماز کا حصہ بنا دیا گیا جو اس بات کا اظہار ہے کہ توصیف و ثنائے خدائے لم یزل اور مدح محمد عربی ؐ لازم و ملزوم ہیں ۔ جس رب ذولمنن کے سحاب کرم نے خود اپنے محبوب کو ورفعنا لک ذکرک کی نوید جاں فزا عطا کی ہو اور مالک کوثر و تسنیم بنا دیا ہو اس کی رفعت و عظمت کی گہرائی و گیرائی کو وہی جانتا ہے۔

اس عظیم سعادت یعنی حضور ﷺ کی مدحت و توصیف کا آغاز حضور ؐ کے زمانہ اقدس میں ہی ہو گیا تھا ۔ آپ ؐ کے مداحین و ثناء گستران کی فہرست بہت طویل ہے ان میں صدیق اکبرؓ، علی المرتضیٰ ؓ، کعب بن زوہیرؓ، عبداللہ بن رواحہؓ، حسان بن ثابت ؓ کے علاوہ امام شرف الدین بصیری، نظامی، جامی، قآنی جیسی رفیع الشان ہستیاں شامل ہیں اور اپنے خوش مقدر ہونے پر ناز کر رہی ہیں کہ انھیں بارگاہ ربوبیت سے یہ شرف و توقیر بخشی گئی۔

حضور ؐ کی توصیف ثناء کا دوسرا نام علم بیان و ادب میں نعت ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بڑی بڑی مہتمم بالشان ہستیوں نے سرزمین حجاز کے ثناء خوانوں کی روایت کو تابندگی عطا کرتے ہوئے علم نعت بلند رکھا۔ تقسیم پاکستان کے بعد یوں تو ثناء خوانان مصطفیؐ کی فہرست میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر اس میدان میں جو عزت و نام وری، عظمت و شہرت اور ارتقا و ارتفاع جاں سپارِ مصطفیؐکشتہ شمع رسالتؐ حضرت حفیظ تائب کے حصے میں آیا بلامبالغہ وہ کسی اور کو نہیں مل سکا۔ میں گذشتہ چار سال کے دوران قومی اخبارات میں نعت گوئی کے ضوابط و لازم اور مبادیات پر کئی مضامین تحریر کر چکا ہوں۔ یہ جتنی بڑی سعادت ہے اتنا ہی مشکل کام بھی ہے۔ ایک جانب مقام معبود دوسری جانب عظمت و مرتبہ عبد ان دونوں انتہائوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس سنت خداوندی و ملائکہ کو زندہ و تابندہ رکھنا بے حد احتیاط کا متقاضی ہے۔ شاید اسی مشکل و تذبذب کے پیش نظر عرفی جیسے صاحب فصاحت و بلاغت کو بھی یہ کہنا پڑا

عرفی مشتاب، ایں رہ نعت است نہ صحرا است آہستہ ، کہ رہ بردم تیغ است قدم را
مداح رسول ؐ جناب حفیظ تائب کی نعت گوئی کا بہ نظر عمیق جائزہ لیا جائے تو اہل دل و نظر اور اہل فن پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب کے اس بے ریا اور پیکرعجزوانکسار ثناء گو کو فن نعت گوئی کے تمام لوازم و موشگافیوں کی پہچان سے کم حقہ اور بدرجہ اتم نواز رکھا تھا۔ جناب تائب کی کلک گوہر بار نے تشبیہات و استعارات اور بدائع وکنایات کو جس ضبط احتیاط کے ساتھ صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے اس کی داد میرے امکان میں نہیں۔ اس ضمن میں، میں انھیں نعت گویان مصطفیؐ کا سالار اور مزاج شناس نعت کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا۔ جب ان کا قلم جنبش میں آتا ہے تو کارکنان قضا و قدر الفاظ و معانی کا معدن و مخزن طشتری عقیدت میں سجا کر ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور پھر جناب تائب اپنی منشاء سے ان موتیوں کو قرطاس پر اس طرح بکھیر دیتے ہیں جس طرح ظلمت شب مین چرخ نیلی فام پر نجوم و کہکشاں پوری رعنائی و زیبائی سے فروکش نظر آتے ہیں۔

جنا ب تائب مغفور نے نہ صرف اس سعادت کے تسلسل میں حد ادب و احترام کو کاملاً ملحوظ خاطر رکھا ہے بلکہ نعت گوئی کے دائرہ تفکر کو اس قدر وسعت دی کہ اس میں ملت اسلامیہ کی بے سروسامانی ، بے کسی و بے بسی اس کے سیرت و کردار میں موجود جمود و تعطل اور تواتر سے زوال و انحطاط، شمشیر اغیار کی برق پاشیاں، امت کی زبوں حالی و بے مائیگی اور غیرت و حمیت کے فقدان کو کمال حسن تدبر سے نمایاں کیا ہے مگر جناب تائب نے صریحاً اس تباہی کا ذمے دار خود امت کی بداعمالیوں اور بے تدبیریوں کو ٹھہرایا ہے مثلاً آپ کا یہ شعر تو ضرب المثل کی حد تک زباں زد خاص و عام ہو چکا ہے
؎ کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے، حشر میں آپ کو منہ دکھائیں گے کیا، ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبیؐ

جناب تائب نے اس شعر میں علامہ محمد اقبال کے تخیل کو راہ نما بنایا ہے کہ ہمارے اسلاف نے علمی و تحقیقی میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہم نے ان سے گریزپائی اختیار کی مگر اہل یورپ نے انہی سے استفادہ کر کے ستاروں پر کمندیں ڈال دیں۔ حضورؐ کا ایک ایسا عاشق صادق جسے دربار رسالت ؐ میں حاضری کی سعادت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ثروت شعروسخن کے ملکے سے بھی متصف کیا گیا ہو اس کے تخیل کی اڑان اسے ہم دوش کوکب فروزاں کردیتی ہے۔ حضرت حفیظ تائب جس بے عدیل خلوص و عقیدت بے پایاں تصور محبت کے ساتھ دربار رسالت ؐ میں حاضری دیتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک قارئین کی نذر کرتا ہوں آپ فرماتے ہیں :

؎ پلکوں پہ تھا لرزاں دل دربار رسالت ؐ میں، آساں ہوئی ہر مشکل درباررسالت ؐ میں
ذرا میدان نعت گوئی کے اس بانکے شہسوار کے ذوق تصور کی اڑان ملاحظہ فرمائیں کہ آپ رحمت للعالمین ؐ کے دربار میں حاضری کے لوازم سے کس قدر شنا سا ہیں بندش الفاظ کی موسیقیت اپنی جگہ مگر ذہن بے تاب کی کیفیت کس وجد آفرین انداز میں رقم کی ہے ذار پہلے مصرعے میں پائی جانے والی نزاکت کا جائزہ لیں بار بار اس احساس جمال کی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے کہ شاعر کا دل حاضری کے وقت پلکوں پہ لرز رہا ہے اور اس غایت عقیدت و محبت کا کمال یہ ہے کہ جناب تائب کی ہر مشکل آسان ہوتی نظر آتی ہے اور پھر وہ مکمل طور پر طمانیت و تسکین کی دولت سے بہرہ یاب معلوم ہوتے ہیں۔ اس نعت کا ایک اور شعر گنبد خضریٰ میں پائی جانے والے انوار و تجلیات کی برسات کا تذکرہ کس جاذبیت سے کر رہا ہے اور ان سے چشم حفیظ تائب کس طرح مستفیض ہو رہی ہے۔ اس حیات بخش کیفیت کا نقشہ وہ اس انداز میں کھینچ رہے ہیں
؎ فانوس فروزاں تھے آنکھیں بھی منور تھیں، ہر لحظہ تھی کیا جھلمل دربار رسالت ؐ میں حضور ؐ کی بارگاہ میں آپ کا ہر نذرانہ عقیدت بہ احتیاط محبت و بچشم نم رقم کیا گیا ہے جس کی طلاطم خیز موجیں ایک خلوص مند قاری کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔
؎ حشر تک اس کی لحد اس نور سے روشن رہے، ہیں درخشاں ماہ و انجم جس کی تابانی کے ساتھ

۔۔۔

کورونا اور نمونیا میں گزارے ہوئے دردناک لمحات اور ان کا مقابلہ
امریکا میں مقیم پاکستانی صحافی کووڈ 19میں گزارے دنوں کا حال سناتے ہیں

فرحت شیر خان(ڈیکالب، امریکا)

گزشتہ دنوں مجھے اور میری پوری فیملی کو کورونا کی بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ ایک تکلیف دہ وقت تھا جو کہ دوستوں اور رشتے داروں کی دعاؤں سے عافیت کے ساتھ گزر گیا۔ اس بیماری سے گھر میں سب سے زیادہ متاثر میں ہوا۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ بیماری کے ان پندرہ، سولہ دنوں کو قارئین کے ساتھ شیئر کروں۔

ہم لوگ گزشتہ اکیس سال سے امریکا میں مقیم ہیں۔ میرے دو بیٹے شادی شدہ ہیں اور وہ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ الگ رہتے ہیں جب کہ میں اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ الگ رہتا ہوں۔ میرا چھوٹا بیٹا جوکہ ڈینٹل اسکول کا طالب علم ہے، اس کے دو بچے ہیں جن کی دیکھ بھال اسکول کے وقت میں میری بیگم کرتی ہیں۔ بیٹا پیر کو اسکول سے آیا تو اس کی طبیعت کچھ نڈھال تھی۔ اس کی بیوی بھی اس کی کلاس فیلو ہے۔ دونوں نے اپنے بچوں کو لیا اور گھر چلے گئے، جہاں رات کو اسے بخار، گلے میں خراش اور کھانسی ہوگئی۔

صبح اس نے ڈاکٹر کو فون کیا تو ڈاکٹر نے کورونا ٹیسٹ تجویز کردیا۔ میاں بیوی دونوں نے ٹیسٹ کروایا تو بیٹے کا مثبت اور بہو کا منفی آیا۔ شام تک دونوں بچے بھی کورونا سے متاثر ہوگئے۔ اس کے دو دن بعد جمعرات کو میری چھوٹی بیٹی کو بخار ہو گیا اس کے اگلے دن بڑی بیٹی اور بیگم کو بھی بخار نے آ لیا۔ دونوں بیٹیوں کا کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا۔ بیگم نے ٹیسٹ کرانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جب سب کو ہو گیا ہے تو فضول میں ٹیسٹ کیا کروانا۔ میں کیوںکہ صبح صبح جاب پر چلا جاتا تھا اور رات کو لیٹ آتا تھا اس لیے ابھی تک بچا ہوا تھا مگر ہفتے کو میرے گلے میں بھی خراش شروع ہوگئی اور کھانسی اور ہلکا ہلکا بلغم آنے لگا۔ میں نے گرین ٹی بنائی اور اپنے کمرے میں منتقل ہوگیا۔ واضح رہے کہ سب لوگ الگ الگ کمروں میں قرنطینہ کر رہے تھے۔

اتوار کی رات 3 بجے کے قریب مجھے سخت سردی لگنی شروع ہوگئی اور ایک چادر ایک لحاف اور ایک کمبل اوڑھنا پڑ گیا۔ صبح 4 بجے تک بخار 102 ہو گیا اور پھر بڑھ کر 104 تک جا پہنچا۔ گھر میں دیگر تمام لوگوں کو 100یا 101 سے زیادہ بخار نہیں ہوا۔ میرے بخار میں تیزی آتے ہی گلہ بند ہونے لگا اور سینے میں درد محسوس ہونے لگا۔ جیسے تیسے کرکے صبح ہوئی ڈاکٹر سے رابطہ کیا گیا۔ ڈاکٹر نے کورونا ٹیسٹ کروایا جو مثبت آیا۔ انھوں نے فوری طور پر کچھ دوائیاں تجویز کیں جن کا استعمال شروع کردیا گیا۔

دوائوں کے ساتھ میں نے ایک دیسی نسخہ بھی استعمال کیا۔ یعنی دو کپ پانی چولہے پر رکھ کر اس میں ادرک، ایک انچ، دار چینی دو انچ، سونف ایک چمچا، ہلدی آدھا چمچا، کلونجی ایک چوتھائی چمچا، سفید زیرہ ایک چوتھائی چمچا، اجوائن ایک چوتھائی چمچا اور چھوٹی الائچی چار دانے ڈال کر اتنا ابالا کہ پانی صرف ایک کپ رہ گیا۔ پھر چائے کے کپ میں جوشاندہ، لیموں اور شہد ڈال کر اس میں گرین ٹی ملا دی اور اس کو دن میں دو مرتبہ استعمال کیا۔ صبح انڈے کے ساتھ ناشتہ کیا اور دوپہر کے کھانے میں صرف خشک میوہ جات کھائے۔ دن میں تقریباً تین مرتبہ پانچ عدد لونگ کے ساتھ بھپارہ لیا۔

تین دن تک میری یہی حالت رہی۔ سردی لگ کر بخار چڑھتا مگر بعد میں کبھی 101 سے اوپر نہیں گیا۔ گلا بہت دُکھتا اور سینے میں بھی درد محسوس ہوتا رہتا۔ کبھی سخت سردی لگتی اور کبھی پورا جسم پسینے میں شرابور ہو جاتا تھا۔ منہ کا ذائقہ بالکل ختم ہو چکا تھا۔ ساری رات ہر آدھے گھنٹے بعد یا تو پیاس لگتی تھی یا پیشاب آتا تھا۔ نہ نیند آرہی تھی اور نہ کچھ کھانے کو دل چاہ رہا تھا۔ گلے کا درد بڑھتا جا رہا تھا۔ مرغی کی یخنی پینے سے گلے کو تھوڑا آرام آجاتا تھا۔

کورونا کے پانچویں دن بیگم نے گاجر، چقندر اور کینو کا رس مکس کرکے دیا جوکہ منہ کڑوا ہونے کے باوجود اچھا لگا۔ آج کی رات بھی سردی کھانسی اور بخار کی نظر ہوگئی۔ دیسی اور انگریزی علاج دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ چھٹے دن رات کو اتنا پسینہ آیا کہ پورے کپڑے شرابور ہوگئے اور آدھی رات کو کپڑے بدلنے پڑے۔ میری بیماری کے ساتویں دن گھر کے تمام افراد کورونا سے صحت یاب ہوچکے تھے۔

اسی دوران ایک معجزہ بھی دیکھنے کو ملا کہ میرا بیٹا جوکہ سب سے پہلے کورونا کا شکار ہوا تھا اور اس کے دونوں بچے بھی مگر معجزاتی طور پر اس کی بیوی اس بیماری سے محفوظ رہی اور ایک ہی کمرے میں رہنے کے باوجود ایک ہفتہ بعد بھی اس کا ٹیسٹ منفی آیا۔ میرے کورونا کے آٹھویں دن بھی طبیعت میں کوئی بہتری محسوس نہیں ہوئی بلکہ نویں دن تو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے سانس اکھڑ رہی ہے سینے میں درد شروع ہو گیا۔ دل گھبرانے لگا فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کیا گیا۔

جنھوں نے بلاتاخیر اسپتال کے ایمرجینسی روم جانے کی ہدایت کردی۔ چھوٹا بیٹا جو کہ ہمارے گھر سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر رہتا ہے، اسے فوری طور پر بلایا گیا جو مجھے اسپتال کی ایمرجنسی میں لے گیا، جہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے، جس کی وجہ سے ایمرجینسی اسٹاف نے مجھے وہیل چیئر پر بٹھا کر بیٹے کو گھر جانے کی ہدایت کردی۔ تقریباً پندرہ منٹ میں ای سی جی اور ایکسرے سمیت تمام ٹیسٹ شروع ہوگئے۔ اس وقت تک کوئی دوا شروع نہیں کی گئی، بلکہ صرف آکسیجن لگا دی گئی۔

ایمرجینسی روم میں تقریباً تین چار گھنٹے گزارنے کے بعد ایک ڈاکٹر نے آکر بتایا کہ تمہیں کورونا کے ساتھ نمونیا بھی ہے اور تمہیں پانچ دن کے لیے اسپتال میں داخل کیا جاتا ہے۔ بہرحال رات تین بجے کے قریب کمرہ نمبر 2023 میں منتقل کردیا گیا۔ کمرے میں جاتے ہی دوبارہ ہر قسم کے ٹیسٹ شروع کردیے گئے نیند بھی آ رہی تھی مگر سو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنے مرحوم ماں باپ کو یاد کرتا رہا۔ تکلیف اپنی جگہ تھی مگر نرسیں مستقل طور پر فون پر ڈاکٹر سے رابطے پر تھیں۔ کورونا کی وجہ سے یہ ایک بند وارڈ تھا جس میں میرے ایک دوست ڈاکٹر شکیل احمد سمیت کسی کو بھی آنے کی اجازت نہ تھی۔ بہرحال ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نرس یا عملہ آ کر کچھ نہ کچھ چیک کرتا رہا اور یہ سلسلہ صبح سات بجے ڈاکٹر کی آمد تک جاری رہا۔ ڈاکٹر شرما نے آتے ہی بہت اچھے طریقے سے بات کی اور اردو میں اس مرض کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔

ڈاکٹر کے جانے کے بعد کچھ سکون محسوس ہوا اور آنکھ لگ گئی۔ صبح دس بجے آنکھ کھلی۔ طبیعت میں بہتری اور ناشتے کی طلب محسوس ہوئی۔ نرس کو بلا کر اس بارے میں بتایا نرس نے کہا کہ فون کے ساتھ ہی کینٹین کا مینو پڑا ہے، انھیں کال کرکے اپنا آرڈر دو، وہ کھانا ہمیں لا کر دیں گے اور ایک نرس وہ کھانا لے کر کورونا کے مخصوص لباس میں ہمیں پہنچائے گی۔ اسپتال میں ہندو اور مسلمان ڈاکٹر اور مریض بھی ہوتے ہیں اور کچھ امریکی بھی۔ صرف ویجی ٹیرین ہوتے ہیں۔ اس لیے ناشتے سمیت ہر کھانے میں ایک دو ڈشز یعنی ویجی ٹیرین اور گلوٹین فری ہوتی ہیں۔

ناشتہ کرتے ہی پھر نرسوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دوائیاں اور انجکشن لگنا شروع ہوگئے۔ دوپہر بارہ بجے کے قریب پھیپھڑوں کے امراض کے مسلمان ماہر ڈاکٹر حسین آگئے مکمل چیک اپ کے بعد کہنے لگے کہ گھبرانا نہیں ہے، صحیح وقت پر اسپتال آگئے اللہ خیر کرے گا۔ ان کے جانے کے بعد تقریباً دو بجے وائرل انفیکشن ڈیزیز کی ماہر انڈین نژاد ڈاکٹر ماہل آگئیں جنھوں نے مکمل چیک اپ کے بعد بتایا کہ کیوںکہ آپ کو کورونا کے ساتھ ساتھ نمونیا بھی ہو گیا ہے اس لیے آپ کو کسی اور وائرل سے بچنے کے لیے روزانہ ایک ویکسین لگوانا ہوگی۔

ڈاکٹر ماہل کے جانے کے بعد کینٹین سے سلاد منگوا کر کھائی۔ اسپتال میں دیگر دوائوں اور انجکشنوں کے علاوہ صبح شام پیٹ میں بھی ایک انجکشن لگایا جاتا تھا تاکہ بستر پر پڑے پڑے جسم کے کسی حصے میں کہیں خون نہ جم جائے جوکہ ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ اسپتال کے بیڈ آٹومیٹک تھے جس کی وجہ سے نیند نہیں آتی تھی کیوںکہ آپ نے کچھ کھایا پیا یا باتھ روم گئے تو آکے لیٹے یا کروٹ بھی لی تو آپ کے وزن میں اونچ نیچ اور جسم کا اینگل صحیح کرنے کے لیے پورا بیڈ ہر جگہ سے خود ہی حرکت کرتا تھا اور آپ کے جسم کو ایک کمفرٹ زون میں پہنچا کر رک جاتا تھا۔

اسپتال جاتے ہوئے میری بیٹی بختاور خان نے میرا لیپ ٹاپ اور فون وغیرہ ایک بیگ میں ڈال کر میرے ساتھ کردیا تھا جس کی وجہ سے دوسرے ہی دن فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے دوستوں کو میری بیماری کی اطلاع ہوگئی جس میں سے زیادہ تر دوستوں کا تعلق میڈیا اور کراچی پریس کلب کے ارکان سے تھا۔ میں دعائیں کرنے والے تمام لوگوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اسپتال میں داخلے کے چوتھے دن میری آکسیجن ہٹا لی گئی اور چار گھنٹے تک بغیر آکسیجن کے رکھ کر بتایا گیا کہ میں خود سے 92 فیصد تک آکسیجن لے رہا ہوں، لہٰذا اب میری حالت خطرے سے باہر ہے۔

پانچویں دن کی سہ پہر تمام ڈاکٹروں نے مل کر فیصلہ کیا کہ مجھے ڈسچارج کرکے گھر بھیج دیا جائے۔ فوری طور پر اللہ کا شکر ادا کیا اور گھر پہنچ کر غسل کے بعد نماز شکرانہ ادا کی۔ ابھی کم زوری بہت ہے مگر ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ نمونیا کے جانے میں کچھ وقت لگے گا۔ الحمد للہ تمام دوستوں کی دعاؤں کی بدولت آج اس بیماری کے دوران گزارے ہوئے وقت کو ڈائری کی شکل میں تحریر کر رہا ہوں۔ شاید اس کو پڑھ کر کسی کو کورونا اور نمونیا کی صورت حال، احتیاطی تدابیر اور اقدامات کے بارے میں آگاہی ہو سکے اور سب سے بڑھ کر گھبرانا نہیں ہے اور ہمت سے مقابلہ کرنا ہے۔

The post توشۂ خاص appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3bPGGjQ

جنرل الارڈ کا گم نام مقبرہ یا کڑی باغ

یہ قصہ شروع ہوتا ہے 1815 سے جب موجودہ یورپی ملک بیلجیئم میں واقع ’’واٹرلو‘‘ کے مقام پر نپولین بوناپارٹ کی قیادت میں لڑنے والی فرانسیسی افواج کو برطانوی افواج نے شکست دی اور وہ تتر بتر ہوگئیں۔

نپولین کو تو سینٹ ہیلینا میں قید کر دیا گیا لیکن اس کے بہت سے بہترین جنرل بے روزگاری سے تنگ آ کر نوکری کی غرض سے مراکش، مصر، فارس و روم سمیت مختلف خطوں میں پھیل گئے، جن میں سے ایک جنرل فرانسس الارڈ بھی تھا۔

جنرل فرانسس الارڈ (Jean Francois Allard)1785 میں فرانس کے شہر سینٹ ٹروپز (Saint Tropez) میں پیدا ہوا۔ وہ نپولین کے دور میں اٹلی اور اسپین کی جنگوں میں بھی لڑا۔ سیاسی جلاوطنی سے ڈر کر وہ فرانس سے فارس (موجودہ ایران) جا پہنچا جہاں اسے جنرل ونتورا کا ساتھ ملا جو خود فرانس سے یہاں آیا تھا۔ یہاں فارسی سیکھنے کے ساتھ ساتھ دونوں جنرل شاہی دربار سے منسلک ہوگئے، لیکن برطانیہ نے شاہ فارس کو بھاری امداد کے بدلے فرانسیسی سپاہیوں کو گرفتار کرنے کا کہا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلے (ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں کی باہمی دشمنی سے تنگ آ کر دونوں فارس چھوڑگئے)۔

1822 میں یہ کابل پہنچے اور وہاں سے درہ خیبر پار کر کہ پشاور کے راستے پنجاب بھاگ نکلے اور مہاراجا رنجیت سنگھ کے دربار میں پیش ہوئے۔

مہاراجا پہلے پہل تو انہیں دیکھ کہ برطانوی جاسوس سمجھا اور اس نے انہیں دو تین ماہ سخت نگرانی میں رکھا۔ چوںکہ رنجیت سنگھ کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے شدید خطرات لاحق تھے، اس لیے وہ اپنی افواج کو ان کے ہم پلہ کرنا چاہتا تھا، چناں چہ ان جنرلوں کی طرف سے تسلی کرلینے کے بعد رنجیت سنگھ نے انہیں اپنی افواجِ خاص کی یورپی طرز پر بہترین ٹریننگ کا کام سونپا۔ جنرل الارڈ کو گھڑسوار فوج جب کہ جنرل ونتورا کو پیدل فوج کا سربراہ بنایا گیا۔ اس فوج کی وردی بالکل نپولین کی فرانسیسی افواج کی طرز پر بنائی گئی تھی۔ بہترین لوگوں کو بھرتی کیا گیا اور فوج کے لیے شان دار گھوڑوں کا بھی انتظام کیا گیا۔ خالصہ فوج کی اتنی بہترین ٹریننگ کی گئی کہ انڈیا کا برطانوی جنرل، ایڈورڈ بھی اسے ’’ایشیا کی بہترین لڑاکا فوج‘‘ کہنے پہ مجبور ہو گیا۔ شاید اسی وجہ سے پنجاب وہ آخری خطہ تھا جو برطانیہ کے زیرِتسلط آیا۔

الارڈ نے ہر طریقے سے مہاراجا کا وفادار رہ کر پنجاب کی سرحدوں کی نگرانی کی پھر چاہے وہ 1825 میں پشاور اور ڈیرہ جات میں مسلم قبائل کو ہرانا ہو یا 1827 اور 30 میں سید احمد شہید بریلوی کے جہاد کو دبانا۔ یہ سب کچھ انہیں مہاراجا کے اور قریب لے آیا۔

رنجیت سنگھ کے دور میں جنرل الارڈ کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ مختلف جاگیریں بھی عطا کی گئیں۔ الارڈ اور ونتورا نے لوئر مال پر بہترین قیام گاہیں بنوائیں اور اپنا صدر دفتر بھی وہیں بنایا۔ 1847 میں اسی دفتر پر انگریز افسر ’’ہینری لارنس‘‘ نے قبضہ کرلیا اور آج یہ پنجاب کے چیف سیکرٹری کا دفتر ہے، جسے ہم سول سیکرٹریٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس سیکرٹریٹ کی کئی عمارتیں فرانسیسیوں کی بنائی گئی ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل الارڈ نے مہاراجا کی بھتیجی ”بانو” سے شادی کی (مقبرے کے باہر لگی تختی کے مطابق الارڈ کی بیوی چمبہ کے شاہی خاندان کی شہزادی تھی) اور سیکرٹریٹ بلڈنگ کے باہر منتقل ہوگئے، یہی علاقہ آگے چل کر چھاؤنی بنا اور پھر چھاؤنی کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔

اس جگہ جنرل الارڈ نے ایک بڑا باغ تعمیر کروایا جس کے بیچ میں اس کی رہائش گاہ بھی تھی۔ 1827 میں جنرل کی ایک بیٹی میری شارلٹ (Marie Charlotte) کم عمری میں ہی مرگئی اور اس نے اسے وہیں باغ میں دفنانے کا فیصلہ کیا۔ تب سے اس جگہ کا نام مقامی زبان میں ”کڑی آلا باغ” رکھ دیا گیا جو پھر کُڑی باغ یا Daughter’s_garden# کہلایا۔

1834 میں جنرل الارڈ لمبی چھٹی پر فرانس واپس گیا جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ فرانسیسی حکومت نے جنرل کی اہلیت کو دیکھتے ہوئے اسے پنجاب کی سکھ حکومت میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور 1836 میں جنرل اپنے خاندان کو فرانس چھوڑ کہ مہاراجا کی خدمت میں پیش ہوا۔ مہاراجا نے اسے جنرل ونتورا کی مدد کرنے قبائلی علاقوں میں بھیجا۔ تاہم وہ وہاں جاتے ہی بیمار ہو گیا اور 1839 میں پشاور میں اس کا آخری وقت آن پہنچا۔ اس کے تابوت کو پشاور سے لاہور مکمل فوجی اعزاز سے لایا گیا اور راستے میں ہر بڑے شہر میں سلامی دی گئی۔

جنرل الارڈ کو اپنی بیٹی کے ساتھ کڑی باغ میں ہی دفن کیا گیا جہاں مہاراجا نے سکھ طرزتعمیر کا ایک خوب صورت مقبرہ بنانے کا حکم دیا۔یہ باغ پرانی انارکلی میں ایف بی آر کے دفتر کے پاس واقع ہے جہاں ایک زمانے میں ’’کپورتھلہ ہاؤس‘‘ ہوا کرتا تھا (بعد میں جس کی جگہ فلیٹس و دفاتر کھڑے کر دیے گئے) ماضی میں کڑی باغ کے نام سے مشہور یہ جگہ اب صرف جنرل الارڈ اور اس کی بیٹی کا مقبرہ ہے۔

آج کڑی باغ انارکلی کی بلند و بالا عمارتوں کے ہجوم میں سہما اور سمٹا ہوا ایک چھوٹا سا گھاس کا قطعہ ہے جس کے وسط میں سرخ اینٹوں کا ایک بڑا سا چبوترہ موجود ہے۔ اس چبوترے پر سرخ اینٹوں کا ہی ایک اور ایک ہشت پہلو چبوترہ ہے جس پر خوب صورت سفید گنبد والا مقبرہ بنا ہے۔ اس پر آٹھ چوکور درمیانے سائز کے مینار بھی ہیں۔

مقبرے کے اندر دو سنگ مرمر کی قبریں ہیں جن کے پیچھے دیوار کے بیچ ایک کُتبہ لگا ہوا ہے۔اس کتبے پر فرانسیسی کے یہ الفاظ درج ہیں؛

“Cette tombe a ete construite en 1827 sur l’ordre du chevalier general Allard sahib bahadur pour sa fille Marie Charlotte que dieu lui aporte sa benediction an paradis.”

”یہ قبر 1827 میں جنرل الارڈ صاحب بہادر کے حکم پر ان کی بیٹی میری شارلٹ کے لیے بنائی گئی۔ خدا اسے جنت میں میں جگہ دے۔”

ہماری ازلی بے حسی کی بدولت یہ جگہ بھی ابتری کا شکار تھی لیکن فرانسیسی حکومت کی مہربانی اور فرانسیسی قونصل خانے کے فنڈز سے اس کی بحالی پایۂ تکمیل کو پہنچی اور یہ تاریخی جگہ آج ہمارے سامنے بہترین حالت میں موجود ہے۔

تحریر کے اختتام پر میں محکمہ آثارِقدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر مقصود احمد صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جن کی بدولت یہ مقبرہ اندر سے دیکھنا نصیب ہوا کیوںکہ آج کل یہ زیادہ تر مقفل رہتا ہے۔

The post جنرل الارڈ کا گم نام مقبرہ یا کڑی باغ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3aYO4Kw

اے این پی رہنما کے اغوا کے بعد قتل کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہڑتال

 کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے رہنما اسد خان اچکزئی کے اغوا اور قتل کے خلاف صوبے کے مختلف علاقوں میں مکمل ہڑتال کی گئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے رہنما اسد خان اچکزئی کے اغوا کے بعد قتل کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سوگ کا سماں ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت چمن، پشین، ژوب، لورالائی، زیارت، موسیٰ خیل، قلعہ سیف اللہ، ہرنائی، دکی، سنجاوی اور قلعہ عبداللہ میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ہے۔

بڑے شہروں اور قصبات میں احتجاجاً بازار، مارکیٹیں اور تجارتی مراکز بند ہیں جب کہ سڑکوں پر ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر ہے ، جس کے باعث شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ اسد خان اچکزئی ناصرف ایک سیاسی رہنما تھے بلکہ وہ اچکزئی قبیلے میں بھی اہم مقام رکھتے تھے، انہیں 5 ماہ قبل کوئٹہ کے ایئرپورٹ روڈ سے اغوا کیا گیا تھا۔پولیس نے گزشتہ روز ان کی لاش ایک گرفتار ملزم کی نشاندہی پر نوحصار سے برآمد کی تھی۔

The post اے این پی رہنما کے اغوا کے بعد قتل کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہڑتال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3aYbNL1

ہنزہ حسن آباد میں گلیشیائی جھیل کے پھٹنے کا خطرہ

اسلام آباد: ہنزہ حسن آباد میں بننے والی گلیشیائی جھیل کے کسی بھی وقت پھٹنے کا محکمہ موسمیات نے عندیہ دیدیا جب کہ جھیل پھٹنے سیسیلابی صورتحال اختیار کرنے، بڑے پیمانے پر مقامی آبادی متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کردیا گیا ہے۔

محکمہ موسمیات نے صورتحال کا جائزہ لینے کیلیے آٹومیٹک ویدر سٹیشن و واٹر لیول و واٹر ڈسچارچ مانیٹرنگ سٹیشن نصب کرنے کی سفارش کردی، ٹیکنیکل ٹیم مارچ کے پہلے ہفتے میں جھیل پر آٹو میٹک ویدر سٹیشن نصب کرے گی۔

محکمہ موسمیات نے گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو واٹر لیول گیچ فراہم کرنے کی درخواست کردی ہے۔ پاکستان محکمہ موسمیات کی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن کی گلیشئر مانیٹرنگ گروپ نے گلاف الرٹ جاری کردیا۔

الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ششپر گلیشئرکے سرکنے اور پانی کا بہاؤ رکنے سے جھیل کے پھٹنے کا خدشہ ہے، گلیشیائی جھیل آمد موسم گرما میں درجہ حرارت میں اضافہ کے ساتھ پھٹنے کا امکان ہے، آئندہ 3 سے 4ہفتے بہت اہم ہیں۔

گلاف پراجیکٹ ٹو کے ذریعے تجویز کردہ ہائیڈرو میٹریالوجیکل آلات کی آمد تک ششپر گلیشئر پرواٹر لیول و واٹر ڈسچارچ مانیٹرنگ سٹیشن نصب کرے جبکہ گلیشیائی جھیل سے پانی کے اخراج کو یقینی بنانے کیلیے فوری اقدامات کئے جائیں۔

رپورٹ کے مطابق گلیشیائی جھیل کے پھٹنے سے سیلابی صورتحال اختیار کرنے کا خدشہ ہے جس سے یکدم جھیل میں موجود لاکھوں کیوبک میٹرپانی خارج ہوگا ۔ بارہ کلو میٹر پر محیط ششپر گلیشئرنے سال 2016 میں نیچے دریا کی طرف سرکنا شروع کیا تھا۔

The post ہنزہ حسن آباد میں گلیشیائی جھیل کے پھٹنے کا خطرہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3ssZKLw

سندھ معدنی ذخائر سے مالا مال مگر اعداد و شمار دستیاب نہیں

کراچی: صوبہ سندھ قدرتی وسائل سے مالامال ہے جب کہ باضابطہ اسٹڈی نہ ہونے باعث حکومت سندھ کے متعلقہ حکام کے پاس اکثر معدنی ذخائر کاصحیح تخمینہ دستیاب نہیں ہے۔

ممحکمہ مائنز اینڈ منرل ڈیولپمنٹ سندھ کے اعدادوشمار کے مطابق صوبہ سندھ میں مختلف اقسام کی 27 معدنیات پائی جاتی ہیں تاہم ابھی تک صرف 8 قسم کی معدنیات کے ذخائر کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ بقیہ تمام معدنی ذخائر کی مقدار سے متعلق کوئی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔

اکثر معدنی ذخائر کے صحیح اعداد وشمار نہ ہونے کے باعث ایک طرف معدنی وسائل سے متعلق منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی تو دوسری جانب اس سے انویسٹمنٹ کے مواقع بھی نہیں بڑھ پاتے، یہی وجہ ہے کہ محکمہ مائنز اینڈ منرل ڈیولپمنٹ نے حکومت سندھ کو سفارش کی ہے کہ صوبے میں موجود معدنی ذخائر سے متعلق تفصیلی اسٹڈی کرائی جائے۔

ڈائریکٹر ایکسپلوریشن گل شیر منگی نے ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کو بتایا کہ اسٹڈی شروع ہونے کے بعد 2 سال کے اندر محکمے کے پاس تمام معدنی ذخائر کے اعداد وشمار دستیاب ہوجائیں گے، انھوں نے کہا کہ درکار اعداد و شمار کی دستیابی کے بعد صوبے میں معدنی وسائل کے حوالے سے انویسٹمنٹ کے مواقع بڑھیں گے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں مختلف معدنیات پائی جاتی ہے لیکن تھرپارکر، جامشورو اور ٹھٹھہ کا معدنی وسائل کے حوالے سے زرخیز اضلاع میں شمار ہوتا ہے، ضلع تھرپارکر میں کوئلے کے ساتھ ساتھ بہترین کوالٹی کا گرینائٹ بھی پایا جاتا ہے، جامشورو میں ماربل اور لائم اسٹون سمیت مختلف اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہیں، جبکہ ضلع ٹھٹھہ میں سلیکا، شیل کلے اور کوئلے سمیت مختلف معدنی ذخائر موجود ہیں۔

 

The post سندھ معدنی ذخائر سے مالا مال مگر اعداد و شمار دستیاب نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2Pn0rrL

جے یو آئی ( ف) کے مقامی رہنما بیٹے اور شاگرد سمیت قتل

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں تھانہ بھارہ کہو کی حدود پرنس روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جمعیت علماء اسلام( ف ) کے مقامی رہنمااورمسجد صدیق اکبرکے امام مفتی اکرام بیٹے اورشاگرد سمیت جاں بحق ہوگئے۔

پولیس کے مطابق ہفتہ کی رات پرنس روڈ پر مارکیٹ میں مفتی اکرام اپنے تیرہ سالہ بیٹے اورشاگردکے ساتھ موجود تھے کہ ان پر نامعلوم افراد نے اندھادھند فائرنگ کردی جس سے تینوں جاں بحق ہوگئے،اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس فوری جائے وقوعہ پرپہنچ گئی اورتینوں لاشوں کوپوسٹمارٹم کیلیے اسپتال منتقل کردیا۔

ایس پی سٹی عمرخان کا کہناہے واقعہ کی تفتیش جاری ہے جبکہ متعلقہ ایس ایچ اوحبیب الرحمن نے ایکسپریس سے گفتگومیں بتایاکہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ معلوم ہوتا ہے جس کی ہر پہلو سے تفتیش کی جارہی ہے جلد ملزمان سے تک پہنچ جائیں گے، واقعہ پر ڈی آئی جی آپریشنزافضال احمدکوثرنے تحقیقات کیلئے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں دوٹیمیں تشکیل دیدی ہیں۔

ڈی آئی جی نے ایس ایس پی تفتیشی ونگ کو ہدایت کی ہے کہ تفتیشی ٹیمیں سرزد وقوعہ کے ہر پہلو پر تحقیقات کریں اورحقائق پرمبنی رپورٹ 24 گھنٹے کے اندرپیش کریں۔

 

The post جے یو آئی ( ف) کے مقامی رہنما بیٹے اور شاگرد سمیت قتل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3b0Jmfv

پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے وفود کی ادارہ نور حق آمد

کراچی: پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے وفود نے ادارہ نور حق میں جماعت اسلامی  کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور سینیٹ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنے کیلیے درخواست کی ہے۔

پی ٹی آئی کے  دورکنی وفد جس میں سینیٹ میں امیدوار سیف اللہ ابڑو کے علاوہ فداحسین نیازی شامل تھے نے  ہفتے کوادارہ نورحق میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور 3مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں جماعت اسلامی کی جانب سے پی ٹی آئی کے امید وار کو ووٹ دینے کی درخواست کی۔

جماعت اسلامی نے وفد کو بتایا کہ مرکز سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا،تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن،نائب امرا راجہ عارف سلطان،مسلم پرویز،سکریٹری کراچی منعم ظفر خان سے ملاقات کی اور سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے درخواست کی۔

ملاقات میں کراچی سمیت اندرون سندھ کے عوام کے مسائل بالخصوص شہر قائد کی ابتر صورتحال اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سمیت باہمی دلچسپی امور اور سیاسی حالات پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔

علاوہ ازیں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA)کے رہنما پیرپیر صدر الدین شاہ راشدی اور سردار رحیم نے بھی ادارہ نور حق میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن، نائب امیر مسلم پرویز سے ملاقات کی اور سینیٹ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنے کی درخواست کی۔

ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال، کراچی و اندورن ِ سندھ کے حالات اور عوام کی حالت ِ زار پر گفتگو کی گئی،حافظ نعیم الرحمن نے وفد کو بتایا کہ مرکزی قیادت سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ سینیٹ انتخابات میں کس کی حمایت کی جائے۔

 

The post پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے وفود کی ادارہ نور حق آمد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3syXG4S

جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کا سخت بیان بازی سے گریز کا فیصلہ

اسلام آباد: کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سخت بیان بازی سے گریزکا فیصلہ کیاہے۔

ایک سرکاری عہدیدارنے گزشتہ روز انکشاف کیا کہ پاکستان اور بھارت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سخت بیان بازی سے گریزکا فیصلہ کیاہے جب کہ مزیداقدامات کیلئے دونوں ہمسائے بہتراورخوشگوارماحول کے خواہاں ہیں، ایک دوسرے کا اعتمادبحال کرنے کیلئے دواطراف سے سخت بیان بازی سے گریزکیاجارہاہے، ذرائع کے مطابق یہ تجویزپہلے بھارت کی طرف سے آئی ہے۔

بھارت نے وزیراعظم عمران خاں کیطرف سے مختلف مواقع پراپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم  نریندرامودی کو ہدف بنانے اور ہٹلرسے تشبیہ دینے پرکچھ تحفظات کااظہارکرنے کے باوجود دونوں ملکوں  نے’’خاموش ڈپلومیسی ‘‘پرزوردیاجس کا نتیجہ کنٹرول لائن پر خوشگوارماحول پیداکرنے اور کشیدگی کم کرنے کیلئے سیزفائر معاہدے کی صورت میں نکلا ۔

بھارتی ذرائع کے مطابق بھارت نے پاکستان کو درخواست کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان  کومودی کیخلاف ذاتی بیان بازی کو روکناہوگا۔پاکستان کو بتایاگیاتھاکہ بھارت اسلام آبادکیساتھ کشیدگی کم کرنے اوردوبارہ مذاکرات  اس شرط پرکرنے کیلئے  تیارہے اگروزیراعظم عمران خاں مودی پر حملے بندکردیں تو، جس پر پاکستان نے بھارتی  درخواست قبول کرلی اورعمران خان نے مودی کو تنقیدکانشانہ بنانے سے ہاتھ روک لیا۔

17جنوری کو آخری باروزیراعظم عمران خاں نے مودی کیخلاف کوئی تنقیدی بیان جاری کیاتھا۔اس کے بعد عمران خان نے مودی پر ٹویٹس اوربیانات کی صورت میں مودی پر ذاتی حملوں اورلفظی گولہ باری سے گریزکرناشروع کیا۔کئی مواقع جیسے یوم یکجہتی کشمیر اورآپریشن سوئفٹ ریٹورٹ کے دوسال مکمل ہونے پروزیراعظم عمران خاں کو کچھ بیانات دینا پڑے۔

ماضی سے ہٹ کر عمران خان  نے دونوں مواقع پر دبنگ آوازمیں بھارت کومسئلہ کشمیرپرمذاکرات کی دعوت دی ہے ۔ہفتے کو جاری ٹویٹس کے باوجودوزیراعظم عمران خان نے دوسال قبل بھارتی لڑاکاطیارہ مارگرانے کے حوالے تقریب پر پاک فضائیہ اورقوم کو مبارکباددی ہے اورجنگ بندی معاہدہ کاخیرمقدم کیاہے۔

انہوں نے بھارت سے کہاہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب ایشوزکے حل کیلئے مذاکرات کی میزپر بیٹھے ۔پاکستان کی  بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیطرف سے 5اگست 2019 کے غیرقانونی اقدام واپس لینے کے حوالے سے کچھ شرائط  ہیں۔

مبصرین کویقین ہے کہ مودی حکومت کیلئے 5اگست کا غیرقانونی اقدام واپس لینے فیصلہ بڑامشکل ہوگا۔لیکن انکا خیال ہے  کہ بھارتی سپریم کورٹ ہی اس کا کوئی حل نکال سکتی ہے  اوربھارتی سپریم کورٹ میں بھارتی آئین کے آرٹیکل370کے خاتمے کے حوالے سے ایک پٹیشن التوابھی ہے کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ ہی مودی کو آسان راستہ دیتے ہوئے خصوصی حیثیت بحال کرسکتی ہے۔

ماہرین نے پاکستان کو خبردارکیاہے کہ  بھارت کے رویے میں تبدیلی کو لداخ سے بھی  جوڑاجاسکتاہے ۔اگرچہ چین اوربھارت  کا حال ہی میں اہم مقام  لداخ ریجن پر تصادم ہواہے جوکہ ابھی تک کشیدگی برقرارہے۔

بھارتی اسٹریٹجک کمیونٹی کا خیال ہے کہ  پاکستان کے بڑھتے ہوئے فوکس کے باعث بھارت کوپاکستان کو مصروف کرناہوگا۔دونوں ملک کوشش سے پانچ اگست سے پہلی والے سفارتی تعلقات کو بحال کرسکتے ہیں حالانکہ پانچ اگست کے اقدام کے بعدپاکستان اور  بھارت اپنے اپنے سفارکاروں کو واپس لے چکے ہیں۔بھارت پاکستان کی میزبانی میں ہونیوالی  سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کرچکاجو کہ 16 نومبرکو اسلام آبادمیں ہوئی تھی۔

 

The post جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کا سخت بیان بازی سے گریز کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3uGEd47

کورونا وبا نے ملک میں مزید 23 افراد کی جان لے لی

 اسلام آباد: پاکستان میں کورونا کے مزید ایک ہزار 176 کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ 23 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔

این سی او سی کے مطابق ملک بھر میں 24 گھنٹوں کے دوران 38 ہزار 920 کورونا ٹیسٹ کیے گئے، اس طرح اب تک ملک میں اس وبا کی تشخیص کے لیے کئے گئے ٹیسٹس کی مجموعی تعداد 89 لاکھ 51 ہزار 838 تک جاپہنچی ہے۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر سے کورونا کے مزید ایک ہزار 176 مریض سامنے آئے ہیں ، اس طرح اب تک اس وبا کا شکار افراد کی مصدقہ تعداد 5 لاکھ 79 ہزار 973 ہوگئی ہے۔ سندھ میں 2 لاکھ 58 ہزار 4، پنجاب میں ایک لاکھ 71 ہزار349، خیبر پختونخوا میں 72 ہزار162، بلوچستان 19 ہزار45، آزاد کشمیر10 ہزار 198، گلگت بلتستان میں 4 ہزار 956 افراد اور اسلام آباد میں مصدقہ کورونا کیسز کی تعداد 44 ہزار 259 ہے۔

سرکاری اعداو و شمار کے مطابق گزشتہ24 گھنٹے کے دوران ملک بھر میں کورونا سے مزید 23 افراد جاں بحق ہوئے ہیں ، اس طرح اس وبا کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 12 ہزار 860 ہوگئی ہے۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا کے 871 مصدقہ مریض صحت یاب ہوئے، جس کے بعد اس وبا کو شکست دینے والوں کی مجموعی تعداد 5 لاکھ 45 ہزار 277ہوگئی ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق اس وقت ملک میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد 21 ہزار 836 ہے جن میں سے ایک ہزار 562 کی حالت تشویشناک ہے۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post کورونا وبا نے ملک میں مزید 23 افراد کی جان لے لی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2MuHrpU

ہنزہ میں بننے والی گلیشیائی جھیل کسی بھی وقت پھٹنے کا خدشہ، الرٹ جاری

 اسلام آباد: محکمہ موسمیات نے ہنزہ کے علاقے حسن آباد میں بننے والی گلیشیائی جھیل کے کسی بھی وقت پھٹنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے الرٹ جاری کردیا۔

محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ششپر گلیشیئر کے سرکنے اور پانی کا بہاؤ رکنے سے حسن آباد ہنزہ میں بننے والی جھیل کے پھٹنے کا خدشہ ہے، گلیشیائی جھیل رواں برس موسم گرما میں درجہ حرارت میں اضافہ کے ساتھ پھٹنے کا امکان ہے، اس حوالے سے آئندہ 3 سے 4 ہفتے بہت اہم ہیں، اس دوران اس کی مسلسل نگرانی ضروری ہے تاکہ کسی ناگہانی صورتحال سے متعلق معلومات حاصل ہوتا رہے۔

محکمہ موسمیات نے گلاف الرٹ میں سفارش کی ہے کہ حسن آباد ہنزہ میں آٹومیٹک ویدر اسٹیشن نصب کیا جائے۔ گلاف پراجیکٹ 2 کے ذریعے تجویز کردہ ہائیڈرو میٹیریالوجیکل آلات کی آمد تک ششپر گلیشیئر پر واٹر لیول اور واٹر ڈسچارچ مانیٹرنگ اسٹیشن نصب کیا جائے، اس کے علاوہ گلیشیائی جھیل سے پانی کے اخراج کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات بھی کئے جائیں جس کے لئے ہائیڈرالک سائفن تیکنیک استعمال کی جائے تاکہ پانی کے اخراج کے ذریعے ممکنہ خطرے کو کم سے کم کیا جاسکے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق محکمہ موسمیات کی ٹیکنیکل ٹیم مارچ کے پہلے ہفتے میں ہنزہ جائے گی، جو جھیل پر آٹو میٹک ویدر اسٹیشن نصب کرے گی، اس سلسلے میں محکمہ موسمیات نے گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو واٹر لیول گیج فراہم کرنے کی درخواست کردی ہے۔

The post ہنزہ میں بننے والی گلیشیائی جھیل کسی بھی وقت پھٹنے کا خدشہ، الرٹ جاری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2O8UPAs

خیبرپختونخوا میں اپوزیشن نے سینیٹ انتخابات کیلئے ٹوٹتے اتحاد کو بچالیا

 پشاور: خیبرپختونخوا میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے بگڑے معاملات کو پھر سنبھال لیا جسے مزید مضبوط کرنے کے لیے جماعت اسلامی بھی پی ڈی ایم جماعتوں کے ساتھ مل گئی۔

پانچ جماعتیں مشترکہ طور پر 5امیدوار میدان میں اتاریں گی، سینیٹ الیکشن کے حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں معاملات بگڑ گئے تھے اور ہر ایک جماعت نے اپنے طور پر لابنگ کا سلسلہ بھی شروع کردیاتھاتاہم مذکورہ جماعتوں کے قائدین نے آپس میں رابطے کرتے ہوئے معاملات کو پھر سنبھال لیا۔

پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر انجینئر ہمایوں خان کی رہائش گاہ پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی ،مسلم لیگ(ن)اورجمعیت علماءاسلام کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں جماعت اسلامی کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ،پانچوں جماعتوں نے مشاورت کے بعد مشترکہ طور پر سینیٹ الیکشن کے لیے میدان میں اترنے کافیصلہ کرلیا۔

اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے عباس آفریدی اور میاں عالمگیر شاہ ،پیپلز پارٹی کی طرف سے فرحت اللہ بابر، محمد علی شاہ باچہ ، احمد کریم کنڈی ، جے یو آئی کی طرف سے مولانا لطف الرحمٰن اور محمود احمد بیٹنی ،عوام نیشنل پارٹی کی طرف سے حاجی ہدایت اللہ خان اور سردار حسین بابک ، جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے عنایت اللہ خان شریک ہوئے۔

پانچ جماعتوں کی جانب سے پانچ امیدوار میدان میں اتارے جائیں گے جن میں پاکستان مسلم لیگ(ن)،جمعیت علماءاسلام اور عوامی نیشنل پارٹی جنرل نشستوں کے لیے اپنے امیدوار میدان میں اتارے گی۔ جے یوآئی کے مولانا عطاءالرحمٰن ،اے این پی کے حاجی ہدایت اللہ خان اور مسلم لیگ(ن)کی جانب سے عباس آفریدی امیدوار ہونگے۔

پیپلزپارٹی کو ٹیکنوکریٹ نشست دی گئی ہے جس پر فرحت اللہ بابر امیدوار ہونگے جبکہ جماعت اسلامی خواتین کی نشست پر قسمت آزمائی کرے گی جس کے لیے عنایت بیگم ان کی امیدوار ہونگی۔

جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان نے ایکسپریس کے رابطے پر تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پانچ اپوزیشن جماعتوں کا الیکشن کے لیے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کافیصلہ ہوگیا ہے جس کے تحت اضافی امیدوار ریٹائرہوجائیں گے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے تین آزاد ارکان احتشام جاوید اکبر،فیصل زمان اور میر کلام وزیر کے ساتھ بھی رابطہ کرنے کافیصلہ کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ طور پر صوبائی اسمبلی میں ارکان کی تعداد43بنتی ہے جبکہ آزاد ارکان کی حمایت سے اس میں اضافہ ہوجائے گا۔

The post خیبرپختونخوا میں اپوزیشن نے سینیٹ انتخابات کیلئے ٹوٹتے اتحاد کو بچالیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3uEnQ88

خیبر پختونخوا حکومت نے شعبہ توانائی میں سنگ میل عبور کرلیا

 پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے توانائی کے شعبے میں ایک اور سنگ میل عبور کرلیا۔

خیبر پختونخوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ کمپنی کو لائسنس مل گیا۔ نیپرا اتھارٹی نے سیکشن 18 اے تحت لائسنس کی منظوری دے دی ۔

وزیراعلی محمود خان نے بڑی کامیابی پر صوبے کے عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلی صوبائی کمپنی کو لائسنس ملنا بڑی کامیابی ہے، صوبے میں پیدا ہونے والی سستی بجلی عوام اور صنعتوں کو دینے کیلئے لائسنس درکار تھا۔

وزیراعلی نے بتایا کہ کمپنی کے ذریعے سستی بجلی کے معاہدے ہوسکیں گے، صوبائی حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور صنعتی ترقی کیلئے کوشاں ہے۔

The post خیبر پختونخوا حکومت نے شعبہ توانائی میں سنگ میل عبور کرلیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3ss5zZy

میونسل کارپوریشن لاڑکانہ کرپشن؛ ڈپٹی کمشنر سمیت 11 ملزمان کو 7،7 سال قید

سکھر: احتساب عدالت نے ڈپٹی کمشنر جاوید جاگیرانی سمیت 11 ملزمان کو سات سات سال قید کی سزا سنادی۔

احتساب عدالت سکھر کے جج فرید انور قاضی نے میونسپل کارپوریشن لاڑکانہ میں کرپشن ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت نے 11 ملزمان کے خلاف محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی کمشنر جاوید جاگیرانی سمیت 11 ملزمان کو سات، سات سال قید کی سزا سنادی اور ان پر جرمانہ بھی عائد کیا۔ پولیس نے ڈی سی سمیت تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

ملزمان میں ڈپٹی کمشنر قمبر شہداد کوٹ جاوید احمد جاگیرانی، میونسپل کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹرز سمیت 6 افسران، 4 ٹھیکیدار شامل ہیں جن میں سے ایک ملزم عبدالقادرشیخ انتقال کرگیا۔ تین ملزمان نے پلی بارگین کرکے قومی خزانے سے لوٹی گئی رقم واپس کر دی تھی۔

میونسپل کارپوریشن لاڑکانہ میں 2012 سے 2014 تک ترقیاتی کاموں میں کرپشن کا ریفرنس دائر تھا۔ ملزمان کے خلاف 6 کروڑ 47 لاکھ 7 ہزار 116 روپے کی کرپشن کا جرم ثابت ہوگیا۔

The post میونسل کارپوریشن لاڑکانہ کرپشن؛ ڈپٹی کمشنر سمیت 11 ملزمان کو 7،7 سال قید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3suWgIw

میٹرک کے طالبعلم کی دوسرے اسکول میں فائرنگ، ایک بچہ جاں بحق

سیالکوٹ: نجی اسکول میں میٹرک کے طالب علم کی فائرنگ سے چہارم کا طالب علم جاں بحق ہوگیا۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق  سیالکوٹ کے علاقے قلعہ کالروالا میں واقع ایک نجی اسکول میں فائرنگ سے چہارم کا طالب علم جاں بحق ہوگیا، فائرنگ کے بعد ملزم موقع سے فرار ہوگیا۔

پولیس حکام کے مطابق قریبی اسکول کے میٹرک کے طالب علم غلام اکبر نے دوسرے اسکول میں گھس کر اسکول آفس سے سیکیورٹی گارڈ کی گن لے کر فائرنگ کی، فائرنگ میں طالب علم ایان جاوید جاں بحق ہو گیا، جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔

پولیس قلعہ کالر والا کاکہنا ہے کہ فائرنگ کےوقت پرنسپل سیٹ پر موجود نہ تھا، جب کہ سیکیورٹی گارڈ کی گن بھی غیرمحفوظ طریقے سے رکھی گئی تھی، پولیس نے موقع پر پہنچ کر شواہد اکھٹے کرلئے ہیں، جب کہ نعش کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

The post میٹرک کے طالبعلم کی دوسرے اسکول میں فائرنگ، ایک بچہ جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3qZcn0I

اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کوٹ لکھپت جیل سے رہا

لاہور: منی لانڈرنگ کیس میں قید مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر حمزہ شہباز کو رہا کردیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں کوٹ لکھپت کیس میں قید مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر حمزہ شہباز کی رہائی کا پروانہ جاری ہوا، احتساب عدالت کے ڈیوٹی جج اکمل خان نے روبکار جاری کیے، لیگی رہنما احتساب عدالت سے روبکار لے کر جیل روانہ ہوگئے۔

حمزہ شہباز کی ضمانت لاہور ہائیکورٹ نے منظور کی، عدالت نے فیصلہ دیا کہ حمزہ شہباز کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے گئے جو منظور کیے جاتے ہیں، حمزہ شہباز اگر کسی دوسرے کیس میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کردیاجائے، حمزہ شہباز 4 مارچ کو کیس کی سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔

حمزہ شہباز کی رہائی کے موقع پر سینٹرل جیل کوٹ لکھپت کے باہر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور حکومت کیخلاف شدید نعرے بازی کی گئی، جب کہ لیگی کارکن ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رہے۔

The post اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کوٹ لکھپت جیل سے رہا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3bHKsvG

سینیٹ میں پی ٹی آئی کو اپنے ارکان بھی ووٹ نہیں دیں گے، مریم نواز

 لاہور: نائب صدر مسلم لیگ ن مریم نواز نے کہا ہے کہ عمران خان ایک بار تو سازباز کرکے حکومت میں آگئے لیکن اب دوبارہ ان کے آنے کا چانس نہیں۔

جاتی امرا لاہور کے باہر مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز نے بہادری کے ساتھ جھوٹے کیسز کا مقابلہ کیا، ان کی رہائی پر بہت خوشی ہورہی ہے، ساتھ مل کر پارٹی کیلئے مزید کام کرینگے، انہوں نے دوسال ناحق جیل کاٹی۔

نائب صدر ن لیگ نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان بھی تحریک انصاف کو اب پسند نہیں کرتے، سینیٹ الیکشن میں ان کے ارکان بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور ووٹ دینے کو تیار نہیں، کیونکہ عمران خان کی کارکردگی سے ان کے ووٹ بینک پر اثر پڑا ہے، عمران خان کو ووٹ دینے کا مطلب ووٹ چور کو جتوانا ہے، عمران خان کے اب دوبارہ چانس نہیں ہے، وہ ایک بار تو ساز باز کر کے آگئے دوبارہ اس کا چانس نہیں، لہذا پی ٹی آئی ارکان اسمبلی بھی اپنے لیے محفوظ راستے ڈھونڈ رہے ہیں، سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی میں ہر صوبے سے بغاوت ہورہی ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے باوجود حکومت ڈسکہ کا الیکشن نہیں جیت سکی، اب ایک حلقہ کھلا تو ساری حقیقت سامنے آگئی، حکومت ڈسکہ میں دوبارہ انتخاب سے متعلق الیکشن کمیشن کا چیلنج اس لئے کررہی ہے کہ چوری پکڑی گئی ہے، ان کو ڈر ہے کہ حکام پول کھول دینگے اور پکڑے جانے والے چھوٹے چور بڑے چوروں کا بتادیں گے، امپائر کو اغوا کرنے کے بعد بھی الیکشن ہار گئے، دوبارہ الیکشن سے پی ٹی آئی کی ضمانت ضبط ہوجائے گی، اس لیے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو روکنے کی کوشش کی جاری ہے۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ لانگ مارچ کی تیاریاں عن قریب شروع ہوجائیں گی، ہوسکتا ہے لانگ مارچ کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سینیٹ الیکشن سے متعلق کچھ نہ ہی کہوں تو بہتر ہے۔

 

The post سینیٹ میں پی ٹی آئی کو اپنے ارکان بھی ووٹ نہیں دیں گے، مریم نواز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3krJ6sW

ڈپٹی ڈائریکٹر پنجاب وائلڈلائف کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل ترقی

لاہور: پنجاب وائلڈلائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری شفقت علی کو ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل بطور ڈائریکٹر ترقی دے دی گئی۔ 

ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری شفقت علی جو کہ ان دنوں لاہور چڑیا گھر میں بطور ڈائریکٹر ذمہ داری نبھارہے ہیں،  پنجاب حکومت نے انہیں ان کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل بطور ڈائریکٹر ترقی دے دی ہے۔ چوہدری شفقت علی کی مدت ملازمت 28 فروری کوپوری ہورہی ہے، جب کہ آ ج وزیراعلی پنجاب نے ان کی ترقی کی سمری منظورکی ہے۔

پنجاب وائلڈلائف حکام کا کہنا ہے کہ محکمے میں اس وقت ڈائریکٹرکی دوسیٹیں ہیں، چوہدری شفقت علی سینارٹی کے لحاظ سے دوسرے نمبر تھے، اس لئے اب انہیں بھی پرموٹ کرکے ڈپٹی ڈائریکٹر سے ڈائریکٹر بنادیا گیا ہے، وزیراعلی پنجاب سے سمری کی منظوری کے بعد اب ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگا، تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تعیناتی صرف ایک دن کے لئے ہوگی کیونکہ 28 فروری کو چوہدری شفقت علی ریٹائرڈہوجائیں گے۔

اس سے قبل محکمے کے سابق ڈائریکٹرنعیم علی بھٹی کو بھی ان کی ریٹائرڈمنٹ سے ایک ماہ پہلے ڈپٹی ڈائریکٹرسے ڈائریکٹر کے عہدے پرترقی دی گئی تھی۔

The post ڈپٹی ڈائریکٹر پنجاب وائلڈلائف کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل ترقی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/37SNH2c

سی ٹی ڈی کی سکھر میں کارروائی، دو مبینہ دہشت گرد ہلاک

 کراچی: سی ٹی ڈی سندھ اوروفاقی حساس ادارے کی سکھر میں مشترکہ کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں کالعدم تنظیم کے دو مبینہ دہشت گرد ہلاک ہو گئے جن کے قبضے سے دو پستول اور ایک بیگ برآمد کر لیا گیا۔

جمعے اور ہفتے کی درمیان شب سی ٹی ڈی سندھ اور وفاقی حساس ادارے نے سکھر میں تھانہ پٹنی کے علاقے میں دہشت گردوں کی اطلاع پر چھاپہ مارا تو وہاں پہلے سے موجود دہشت گردوں نے پولیس پر فائرنگ شروع کردی جس پر سی ٹی ڈی سندھ اور حساس ادارے کے اہلکاروں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور جوابی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو دہشتگردوں کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا جنہیں فوری طور پر تعلقہ اسپتال روھڑی اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں دونوں زخمی دوران علاج ہلاک ہوگئے۔

اس حوالے سے انچارج سی ٹی ڈی مظہر مشوانی نے بتایا کہ ہلاک ہونےوالے ملزمان کی شناخت ولایت زیب ولد نوران زیب اور شاہ محمود ولد پیوند خان کے نام سے کر لی گئی ہے جن کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مقابلے میں مارے جانے والے دہشت گردوں کا پوسٹ مارٹم بھی مکمل کر لیا گیا ہے جن کے قبضے سے دو پستول اور ایک بیگ بھی ملا ہے۔

The post سی ٹی ڈی کی سکھر میں کارروائی، دو مبینہ دہشت گرد ہلاک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2O74ffO

پشاور میں خاتون نے ایمبولینس میں بچے کو جنم دے دیا

پشاور: ریسکیو 1122 ایمبولینس میں نومولود بچے نے جنم لیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور میں خاتون نے باامرمجبوری ریسکیو 1122 ایمبولینس میں ہی بچے کو جنم دے دیا،  کوہاٹ روڈ  کی رہائشی خاتون کو ڈیلیوری کے لیے ریسکیو ایمبولینس میں اسپتال منتقل کیا جارہا تھا، کہ خاتون کی حالت بگڑ گئی، جس پر گھر والوں کی اجازت اور موجودگی میں ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن  نے پیشہ وارانہ انداز میں ایمبولینس میں ہی خاتون کی ڈیلیوری کردی۔

ریسکیوحکام نے بتایا کہ ایمبولینس میں ڈیلیوری کٹ اور دیگر سامان موجود ہے جسے استعمال کیا گیا، اور ریسکیو کی خاتون اہلکار نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے آپریشن کیا، جس کے  بعد زچہ و بچہ بالکل ٹھیک ہے۔

ریسکیو کے مطابق رواں ماہ صوبے کے مختلف اضلاع میں ریسکیو ایمبولینس میں 10 بچوں نے جنم لیا، اور  چند روز قبل مالاکنڈ میں جڑواں بچوں نے بھی ایمبولینس میں ہی جنم لیا تھا۔

 

The post پشاور میں خاتون نے ایمبولینس میں بچے کو جنم دے دیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2PcefVD

پیپلزپارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی کے کراچی سے باہر جانے پر پابندی عائد

کراچی: پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنے ارکان سندھ اسمبلی کے کراچی سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جیسے جیسے سینیٹ انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے ہر جماعت اپنے امیدوار کی جیت کے لئے کوشاں اور اپنے ارکان پر نظر رکھتے ہوئے روابط کو تیز کررہی ہے۔ سینیٹ الیکشن میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنے ارکان سندھ اسمبلی کے کراچی سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے تمام صوبائی وزراء کو کراچی سے باہر نہ جانے کی ہدایت کی ہے اور  ارکانِ سندھ اسمبلی کو عمومی سرگرمیاں بھی محدود رکھنے کا کہا ہے۔

ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی ارکانِ سندھ اسمبلی کو کراچی میں متحرک رکھنے کے لئے دعوتوں کا اہتمام کیا جائے گا، اس حوالےسے صوبائی صدر نثار کھوڑو 28 فروری کو سندھ سے سینیٹ امیدواروں اور ارکان اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے، یکم مارچ کو صوبائی وزیر امتیاز شیخ کی جانب سے دعوت کا انعقاد کیا جائے گا، جب کہ  2 مارچ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں پیپلزپارٹی ارکانِ سندھ اسمبلی کو مدعو کیاگیا ہے۔

دوسری جانب سندھ اسمبلی کی دو پارلیمانی جماعتوں لبیک پاکستان اور ایم ایم اے کے 4 ارکان سے بھی پیپلزپارٹی کی قیادت نے رابطہ کیا ہے، اور چاروں ارکان سے سینیٹ کی جنرل اور خواتین نشستوں پر ووٹ کی درخواست اور حمایت کی اپیل کی ہے۔

 

The post پیپلزپارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی کے کراچی سے باہر جانے پر پابندی عائد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3r2Cd3L

سینیٹ الیکشن میں حکومت نے دیر کردی، اس کے ارکان ہم سے رابطے میں ہیں، بلاول

کوہاٹ: پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔

کوہاٹ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام کو نالائق و ناجائز حکومت سے بچائیں گے، سی پیک کی بنیاد پیپلز پارٹی اور صدر آصف علی زرداری نے رکھی تھی، سی پیک کا نام اس لیے رکھا کہ پسماندہ علاقے کو فائدہ پہنچانا تھا، لیکن نالائق حکومت سی پیک منصوبہ ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کرپشن میں سب سے آگے ہے اور اس نے سارے ریکارڈز توڑ دیے ہیں، 18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ ختم کرنےکی اجازت نہیں دیں گے، دھاندلی زدہ حکومت نے ملک میں بحران پیدا کیا ہے اور عوام کو مہنگائی کے طوفان میں ڈبودیا ہے، پاکستان میں آج مہنگائی افغانستان اور بنگلا دیش سے بھی زیادہ ہے، کٹھ پتلی حکومت میں صلاحیت نہیں کہ حکومت چلاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ الیکشن میں ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی ویڈیو منظر عام پر آگئی

چیرمین پی پی پی نے کہا کہ سیاست دان ہو، یا عدلیہ، فوج اور سرکاری ملازمین، جب سب کے لئے ایک قانون ہوگا تب ہی کرپشن کے ناسور کو ختم کرسکیں گے، بلین ٹرین، علیمہ باجی کی سلائی مشینوں سمیت جگہ جگہ کرپشن ہے،  اس نالائق حکومت کا ہرمیدان میں مقابلہ کر رہےہیں، ضمنی انتخاب میں فتح نے ثابت کیا عوام پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں، حکومت کو پہلی بار اپنے ہی ایم این ایز، ایم پی ایز اور اتحادیوں سے بات کرنے پر مجبور کردیا لیکن اب بہت دیر ہوچکی، وہی ایم این ایز اور اتحادی ہم سے بھی رابطے میں ہیں، یہ ان کے لیے ایک موقع ہے وہ ثابت کریں کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں یا کٹھ پتلی کے ساتھ کھڑے ہے۔

بلاول نے مزید کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے پی ڈی ایم کا امیدوار کھڑا کرنے پر حکومت بہت پریشان ہے، حفیظ شیخ کو کامیاب کرانا مہنگائی میں اضافہ اور آئی ایم ایف کے غلامی کے مترادف ہے، یوسف رضاگیلانی کی کامیابی سے پارلیمان کی عزت میں اضافہ ہوگا اور جمہوریت کامیاب ہوگی، سینیٹ الیکشن کے بعد لانگ مارچ ہونا ہے، اس مارچ کیلئے عوام تیاری پکڑیں، کٹھ پتلی ناجائز وزیراعظم کو گھر بھجوادیں گے۔

The post سینیٹ الیکشن میں حکومت نے دیر کردی، اس کے ارکان ہم سے رابطے میں ہیں، بلاول appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3uxxQA5

رحیم یارخان میں 14 سالہ لڑکے سے دو سگے بھائیوں کی اجتماعی زیادتی

رحیم یار خان:  اوباش بھائیوں نے 14 سالہ لڑکے کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل...