اردو ادب کو عورت اور مرد میں بانٹنے سے بہت نقصان ہوا، مقررین

 کراچی:  اہل قلم خواتین نے کہا ہے کہ پاکستانی اردو ادب کو اس لیے نقصان پہنچا ہے کہ اسے عورت اور مرد کے خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔

عورت کا خود بولنا، لکھنا اور مزاحمت کے لیے اظہار کرنا یہ خود کسی بھی سماج کے لیے بہت بڑی تبدیلی ہے، اس وقت ڈراموں کے نام پر جو کچھ لکھوایا جارہا ہے وہ محض کاروبار ہے، سیٹھ کی ڈیمانڈ ہے، اس وقت ڈراموں میں عورت کے دکھ کو بیچا جارہا ہے، ہمیں اپنی بچیوں میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا نہ کہ ہم انہیں ڈرا کر اس قابل بنائیں کہ ایک 16 سال کی بچی بھی دس 10 بھائی کو لیے بغیر باہر نہیں نکلتی، یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ عورت ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو اسے 2 قدم پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے کچھ تجربات صرف عورت کے حصے ہی میں آتے ہیں جن کا اظہار عورت ہی بہتر انداز میں کرسکتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری تیرہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ساتویں اجلاس ’’ہمارے ادب اور سماج میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر معروف ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ، فوزیہ سعید، مہناز رحمن، یاسمین حمید، طاہرہ کاظمی اور ڈاکٹر صغریٰ صدف نے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

نورالہدیٰ شاہ نے کہاکہ عورت پورے سماج کا احاطہ کرتی ہوئی چلتی ہے اس وقت بلوچستان میں خواتین کے حوالے سے اچھی شاعری کی جارہی ہے جہاں حق تلفی ہو وہاں عورت بہتر مزاحمت کرتے ہوئے اہم کردار ادا کرسکتی ہے، عورت کا خود بولنا اور مزاحمت کے لیے اظہار اور ناانصافی کے خلاف کھڑا ہوجانا بڑی تبدیلی ہے، آمرانہ دور میں شاعرات کا بڑا کھلا کردار نظر آتا ہے۔

فوزیہ سعید نے آن لائن گفتگو میں کہاکہ ادیبوں کا یہ کام ہے کہ وہ زبان کو نئے معنی اور نئے الفاظ دیں تاکہ بات آسانی سے دوسروں تک پہنچ سکے، اب بھی کئی الفاظ ایسے ہیں جنہیں اْردو میں استعمال تو کیا جارہا ہے مگر وہ لوگوں کے ذہنوں تک نہیں پہنچ پاتے۔

مہناز رحمن نے کہاکہ لکھنے والا چاہے مرد ہو یا عورت وہ ادب برائے زندگی ہی کی بات کرتا ہے، یاسمین حمید نے آن لائن گفتگو میں کہاکہ گزشتہ 100 سال کا زمانہ خواتین کی جانب سے ادبی تخلیق کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم ہے، خواتین کے لیے وہ وقت بڑا مشکل تھا کہ جب وہ اپنے ناموں سے اپنی تخلیق بھی شائع نہیں کراسکتی تھیں۔

اس ضمن میں محمدی بیگم نے خواتین کے لیے پہلا رسالہ نکالا،خواتین نے جو لکھا وہ ایک خزانہ ہے ، جب عورت اپنے مسائل کے بارے میں لکھنا شروع کرتی ہے تو وہ زیادہ شدت اور درد سے لکھے گی، عورت نے ادب کو بہت کچھ دیا ہے۔

طاہرہ کاظمی نے کہاکہ تمام داستانوں میں عورت کا کردار مضبوط نظر آتا ہے بات صرف صلاحیت اور برابری کی ہے، ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہاکہ عورت کو انکار کرنا سیکھنا چاہیے اور ہر ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔

اردوکانفرنس:دوسرے روز5کتابوں کی رونمائی

عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز 5 کتابوں جن میں مصنفہ عذرا عباس کی کتاب ‘‘اداسی کے گھا‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے کاشف رضا نے کہا کہ اپنی کلیات میں مصنفہ نے نظم کو نیا رنگ عطا کیا ہے۔

حمیرا خلیق کی کتاب ’’ گوشہ دل‘‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ مصنفہ نے اپنے خاکوں میں معاشرے کے مختلف پہلوئوں اور معروف کرداروں کے پوشیدہ رویوں کو اجاگر کیا ہے۔

اقبال نظر کی کتاب ’’درویش نامہ‘‘ پر بات کرتے ہوئے معروف دانشور پیر زادہ قاسم نے کہا کہ مصنف نے اپنی کتاب میں انسانی رویوں کو انتہائی خوبی سے لفظوں میں سمویا ہے، پروفیسر سحر انصاری نے ممتاز شاعرہ ہما طاہر کے تیسرے شعری مجموعے ’’اوج کمال‘‘ کو سراہا۔

نظموں کااثرسماجی وسیاسی اقدارسے جڑاہوتاہے،تنویرانجم

آرٹس کونسل کے زیر اہتمام 13ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پہلا اجلاس ’’اردو نظم سوبرس کا قصہ‘‘ کے عنوان سے اجلاس میں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ’’خواتین نظم نگار۔ایک صدی کا جائزہ‘‘، تنویر انجم نے ’’مابعد جدید حسیت، نثری نظم اور نئی نسل‘‘، نعمان الحق نے لاہور سے آن لائن ’’اردو نظم کے متنوع رنگ‘‘ جبکہ نجیبہ عارف نے اسلام آباد سے آن لائن ’’اردو نظم پر نائن الیون کے اثرات‘‘ پر گفتگو کی۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ خواتین نظم نگاروں نے 100 برس میں نے اعلیٰ درجے کی شاعری کی تقسیم وطن سے پہلے تک نظم کو شاعری میں اہمیت نہیں دی گئی اس دور کی شاعرات کا ذکر صرف تذکروں میں ملتا ہے مگر تاریخ میں نہیں اردو میں شاعرات نظموں کی طرف زیادہ مائل تھیں۔

سو برس کی اہم شاعرات میں زاہدہ خان، رابعہ پنہاں، بلقیس جمال، خورشید آرا بیگم اور ادا جعفری شامل تھیں، زہرا نگاہ جدید شاعری کا معتبر حوالہ ہیں ان کی شاعری حساس موضوعات پر ہے فہمیدہ ریاض ہمارے عہد کی پہچان بن گئی، کشور ناہید نے شاعری کے ذریعے ان سماجی رویوں پر اظہار کیا، پروین شاکر نے اپنے مجموعہ کلام ’’خوشبو‘‘ سے زبردست شہرت پائی۔

تنویر انجم نے نے کہاکہ نثری نظم لکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو مختلف موضوعات پر نظمیں کہہ رہے ہیں۔

نعتیہ کلام اوررثائی ادب 100سال سے چل رہا ہے،عالیہ امام

13ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز تیسرا اجلاس ’’نعتیہ اور رثائی ادب کی ایک صدی‘‘کے حوالے سے گفتگو میں ڈاکٹر کاشف عمران نے اسلام آباد سے آن لائن ’’معاصر نعت: تخلیقی و فکری اسالیب‘‘، ڈاکٹر ریاض مجید نے فیصل آباد سے آن لائن ’’ایک صدی میں اردوحمد و نعت‘‘، فراست رضوی نے ’’اردو میں رثائی ادب: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ ،ڈاکٹر شہزاد احمد نے ’’ایک صدی میں اردو نعت کے اہم سنگِ میل‘‘ اور صبیح الدین رحمانی نے نعت کے موضوعات پر اظہارِخیال کیا۔

صدر محفل ڈاکٹر عالیہ امام نے کہاکہ رثائی ادب کا موضوع کربلا ہے اور یہ رثائی ادب 100 سال سے چل رہا ہے جبکہ نعتیہ کلام بھی 100 سال سے چل رہا ہے قلم اور کتاب کی دولت خوب سے خوب تر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر کاشف عمران نے کہاکہ نعت فکروعمل کا نور ہے، نعت ایسے شعری اظہار کا نام ہے جس میں بے انتہا عقیدت اور محبت موجود ہوتی ہے، ڈاکٹر ریاض مجید نے کہاکہ حمدونعت کے اشعار آپس میں فطری ہم آہنگی رکھتے ہیں، نعتیہ مشاعروں نے اپنی جگہ بنالی ہے ، فراست رضوی نے کہاکہ ہر بڑا ادب اپنے عصر کا نمائندہ اور ماضی کا امین ہوتا ہے۔

ڈاکٹر شہزاد احمد نے کہاکہ جامعاتی سطح پر اب تک سو مقالے نعت پر شائع ہوچکے ہیں، صبیح الدین رحمانی نے کہاکہ جس صنف کو بہتر نقاد میسر آجائیں وہ ترقی کرتی ہے، مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے میں نعت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

بلوچی ادب پرنشست کااہتمام

تیرہویں عالمی اردو کانفرنس میں علاقائی زبانوں کی ترویج کے لیے سیشن کا اہتمام کیا گیا، بلوچی زبان پر رکھے گئے سیشن میں نامور بلوچ دانشور شاہ محمد مری نے بلوچ ادب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تخلیق کیا گیا نصف سے زائد ادب زبانی ہے جو نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آ رہا ہے تاہم نئے لکھنے والوں کی ادبی تحاریر کو تحریری شکل دی جا رہی ہے، بلوچ معاشرے میں شاعروں کو نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا انہیں شاعر کے بجائے شاہ یار یعنی شاہوں کا یار کہا جاتا تھا، شاعروں کو ہر گھرانے سے فصل میں حصہ بھی دیا جاتا تھا۔

شاہ محمد مری کا کہنا تھا کہ اگر بلوچ ادب کو سمجھ لیا جائے تو بلوچ سیاست خود ہی سمجھ آجاتی ہے، بلوچ شاعر افضل مراد نے کہا کہ بلوچ ادب اپنے موضوعات کے اعتبار سے دیگر خطوں کے ادب سے ممتاز مقام رکھتا ہے۔

’’اردوناول کی ایک صدی‘‘سیشن میں ادیبوں نے مقالات پیش کیے

تیرہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ’’اردو ناول کی ایک صدی‘‘ کے عنوان سے سیشن میں نامور ادیبوں اور نقادوں نے اپنے خیالات اور مقالات پیش کیے، معروف نقاد ڈاکٹر قاضی عابد نے اردو ناول پر تہذیبی اور سیاسی عناصر پر گفتگو میں کہا کہ ماضی میں اردو ناول نگاروں پر تہذیبی اور سیاسی عناصر نمایاں رہے ، نقاد ضیا الحسن نے آن لائن مقالے میں اردو ناول کے ثقافتی سرو کار پر سیر حاصل گفتگو کی، انہوں نے کہا کہ وجود کا اظہار ثقافت کے بغیر ناممکن ہے جبکہ ہمارے ناول نگار اپنے ناولوں میں وجود کا عنصر پانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

ناول نگار حمید شاہد نے اردو ناول کے اسلوبی تجربات پر کہا کہ ناول ہمارے ہاں مغرب سے آیا جسے ہمارے ناول نگاروں نے مختلف ادوار میں اسلوبی تجربات سے موجودہ شکل میں ڈھالا اور سماجی سدھار میں اہم کردار ادا کیا۔

سرائیکی عورت ترقی اور تعلیم سے آراستہ ہو رہی ہے،عابدہ بتول

13ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پانچویں اجلاس ’’سرائیکی تریمت، کل، آج تے صباحیں‘‘کے موضوع پر عابدہ بتول نے کہاکہ ماضی میں سرائیکی عورت کی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی اس کی حیثیت ایک غلام کی طرح تھی جس کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا، نصف صدی پہلے تک سرائیکی عورت غلامانہ، جاگیردارانہ،قبائلی اور سْکھا شاہی نظاموں کا شکار تھی مگر آج وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح اور لوگوں نے ترقی کی ہے اسی طرح آج کی سرائیکی عورت بھی ترقی کررہی ہے اسے آج شعور بھی ہے اور وہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہو رہی ہے۔

کرن لاشاری نے کہاکہ سرائیکی وسیب کا بنیادی خطہ زرعی ہے ماضی میں یہی سرائیکی عورت صرف اور صرف گھر کے کاموں کے لیے بندھ گئی تھی اور اسے وراثت تک میں حصہ دار تسلیم نہیں کیا جاتا تھا مگر آج شعور آجانے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرائیکی عورت کو اپنے حقوق کا علم ہوگیا ہے۔

نسرین گل نینا نے کہاکہ سرائیکی خواتین کو ماضی میں کم عمری ہی میں بیاہ دیا جاتا تھا وہ ہر طرح سے غلام اور گھر کے مردوں کے زیر اثر تھیں انہیں جس طرح کہا جاتا وہ اسی طرح کرتی تھیں مگر اب موجودہ دور میں سرائیکی خاتون علم و آگہی کے سفر میں آگے چل پڑی ہے، سعدیہ شکیل نے کہاکہ سارا سماج طبقاتی نظام کے گرد گھوم رہا۔

The post اردو ادب کو عورت اور مرد میں بانٹنے سے بہت نقصان ہوا، مقررین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3lJZILm

No comments:

Post a Comment

plz do not enter any spam link in the comment box

رحیم یارخان میں 14 سالہ لڑکے سے دو سگے بھائیوں کی اجتماعی زیادتی

رحیم یار خان:  اوباش بھائیوں نے 14 سالہ لڑکے کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل...