کراچی: 13 ویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری دن پہلا اجلاس ’’اردو تنقید اور تحقیق کے 100 برس‘‘ کے عنوان سے ہوا جس کی صدارت ماہر تعلیم ، ادیب و نقاد شافع قدوائی نے ہندوستان سے آن لائن کی۔
حمیدہ شاہین نے ’’تنقید و تفہیم اور تہذیبی معیارات‘‘ کے موضوع پر لاہور سے آن لائن اور قاضی عابد نے ’’جدید تنقیدی نظریات اور اردو فکشن‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی، ادیب و نقاد شافع قدوائی نے کہاکہ علم کسی کی میراث نہیں نہ ہی مغرب کی اور نہ ہی مشرق کی لہٰذا جہاں سے بھی علم میسر آئے اسے حاصل کرلینا چاہیے چھوٹے چھوٹے ثقافتی رویے اور اقدار پورے معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں، ادب سچائی کو سامنے لاتا ہے ، مغربی تہذیب کو شیطانِ مجسم سمجھنا غلط ہے ، فکشن کو معاشرے کی آواز سمجھا جاتا ہے اور زبان کے ذریعے حقائق کو بیان کیا جارہا ہے۔
بڑا افسانہ نگار تنقید کو چیلنج کرتا ہے، حمیدہ شاہین نے ’’تنقید و تفہیم اور تہذیبی معیارات‘‘ کے موضوع پر کہاکہ نئی تہذیب سے مراد مغربی تہذیب لی جاتی ہے مگر روح اجنبی لمس کو فوراً قبول نہیں کرتی اس لیے تہذیبی اقدار کا سہارا لیا جاتا ہے، ہمارے ادیب ہمارے کردار کا محاسبہ کریںکہ ہمارا کردار قومی معیار کے مطابق ہے یا نہیں ، قاضی عابد نے ’’جدید تنقیدی نظریات اور اْردو فکشن‘‘ کے موضوع پر کہاکہ اردو فکشن سے مراد افسانہ، ناول اور ڈرامہ لیتے ہیں جبکہ مغرب میں فلم بھی فکشن میں شمار ہوتی ہے۔
فکشن کی ہر شکل میں اسٹیج سے فلم تک مصنف کی آواز کو متن کی آواز پر غالب رکھنے کی کوشش کی مگر متن اپنی معنویت کے تمام اسباب کھولنے کی اہلیت رکھتا ہے ، پڑھنے والا لکھنے والے سے زیادہ ذہین ہوتا ہے، اردو میں بیانات پر تعارفی مواد کم ہی مرتب کیاگیا ہے، صدر آرٹس کونسل محمد شاہ نے اسٹیج پر آکر خصوصی طور پر شافع قدوائی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کورونا کی وجہ سے انہیں ہندوستان سے آن لائن بات کرنا پڑی ونہ وہ ہمارے درمیان موجود ہوتے۔
جالبی کی اردوادب کی تاریخ کے بعدخاص کام نہیں ہوا، عقیل جعفری
عالمی اردو کانفرنس کے آخری دن ’’اردو میں ایک صدی کے نثری ادب ‘‘ کے عنوان سے سیشن میں دانشور افضال احمد سید نے اردو میں تراجم کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صرف ایک جامعہ میں اردو تراجم پر کام کا آغاز کیا گیا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام نامور جامعات میں اردو ترجموں کے شعبوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور تراجم سے متعلق ورک شاپس کا انعقاد کیا جائے۔
عقیل عباس جعفری نے اردو ادب میں تذکرے اور تاریخ کے حوالے سے سیر حاصل بیان کیا انھوں نے کہا 1960 کی دھائی میں جمیل جالبی نے تاریخ اردو ادب پر کتابیں لکھی تاہم ان کے بعد اس حوالے سے کوئی خاص کام دکھائی نہیں دیتا ماضی قریب میں جامعہ پنجاب نے اردو ادب کی تاریخ پر کتاب مرتب کی تاہم یہ تحقیق جالبی صاحب کے کام کے ہم پلہ نظر نہیں آتی۔
محقق رئوف پاریکھ نے ایک صدی میں اردو لغت کے سفر کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اردو لغات میں لکھنوی رنگ نمایاں رہا تاہم پاکستان میں لکھی گئی 22 جلدوں پر مشتمل ضحیم لغت میں تمام خطوں میں بولی جانے والی اردو کے الفاظ کو یکجا کیا گیا جس سے ادبی دنیا میں استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے۔
شاعرہ اور افسانہ نگار فرحت پروین نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ترجمہ اور اس کی اہمیت پر معلومات سامعین کے گوش گزار کیں انھوں نے کہا کہ مترجم دو زبانوں اور معاشروں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے ترجمے کے ذریعے ہی کسی قوم کو دوسری اقوام کے ادب اور معاشرت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے، نامور ادیب عرفان جاوید نے خاکہ نگاری اور سوانح ادب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خاکہ نگار اپنی ارد گرد کے ماحول کو صفحات پر زندہ کردیتا ہے جنھیں صدیوں بعد بھی پڑھ کر انسان خود کو اسی ماحول میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے انھوں نے کہا کہ حالیہ دور میں خاکہ نگاری کا فن تنزلی کی جانب گامزن ہے۔
بچوں کی ذہن سازی میں ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے ، رضاعابدی
تیرہویں عالمی اردو کانفرنس میں ’’بچوں کا ادب‘‘ کے موضوع پر نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی میزبانی علی حسن ساجد نے کی، ادب اطفال پر اظہار خیال کرتے ہوئے بچوں کی، معروف مصنفہ نیر رباب نے کہا کہ بچوں کے تخیلات ہر زمانے میں یکساں رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بچوں کی کہانیوں کے کرداروں کا تصور بھی پہلے جیسا ہی ہے۔
اڑتے قالین کی جگہ اسپیس شپ نے لے لی اور جنوں چڑیلوں کی جگہ اب سپر مین اڑتا ہے، بچوں کے معروف ادیب سلیم مغل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی کی آمد سے ہماری معاشرتی اقدار اور بچوں کے ذہن متاثر ہورہے ہیں، انھوں نے کہا کہ موجودہ دور میں بچوں کے لیے معیاری ادب لکھنے والوں کی تعداد میں بتدریج کمی نظر آرہی ہے انھوں نے کہا کہ پرانے چینی مصنفوں نے کئی دہائیوں پہلے ہی اپنی تحریوں میں بچوں کی ذہن سازی شروع کردی تھی۔
نامور محقق رئوف پاریکھ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ بچوں کے تخیل کو بیدار کرنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے کہانی اور داستان گوئی ہر دور میں اہم رہی ہے جس کی تازہ مثال ہیری پورٹر سیریز ہے انھوں نے کہا کہ کہانیوں سے بچوں کے سیکھنے کے عمل کو جلا ملتی ہے۔
ویڈیو لنک کے ذریعہ سیشن کی صدارت کرتے ہوئے معروف ادیب اوربراڈکاسٹر رضا علی عابدی نے بچوں کے ادب میں ٹیکنالوجی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بچوں کی ذہن سازی میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے انھوں نے کہا کہ بچوں کے ادب میںکہانیوں ، لوریوں اور گیتوں پر کام کرنا ہوگا، میزبان علی حسن ساجد نے بتایا کہ آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ نے آرٹس کونسل آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہر سال بچوں کا جریدہ شائع کرنے کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند ہے۔
سندھی خواتین مصنفین اورکہانی کاروں کی تعداد بڑھ گئی ،مقررین
تیرہویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز ’’سندھی زبان و ادب کے 100 برس ‘‘ کے عنوان سے نشست کا اہتمام کیا گیا، معروف سندھی دانشوروں، ادیبوں اور شعرا ،طارق قریشی ،ڈاکٹر قاسم بگھیو،نور الہدیٰ شاہ ،جامی چانڈیو ودیگرنے اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ حالیہ دور میں سندھی خواتین مصنفین اور کہانی کاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اپنی تحریروں میں سندھی خواتین کے مسائل اجاگر کر رہی ہیں ، سوبرس میں سندھی افسانہ اورناول نگاری میں نئے موضوعات متعارف ہوئے،سندھ محبت اور امن کی سر زمین ہے اور سندھ دھرتی والوں نے اردو سے بھی پیار کیا ہے۔
اردوکانفرنس کے آخری دن6کتابوں کی رونمائی
عالمی اردو کانفرنس کے آخری دن 6 کتابوں کی رونمائی ہوئی جس میں سلطان احمد نقوی کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’شاعر ،مصور، خطاط صادقین‘‘ پر لاہور سے نعمان الحق نے آن لائن،نجیبہ عارف کی کتاب ’’راگنی کی کھوج میں‘‘ پر لاہور سے یاسمین حمید نے آن لائن، بھیشم ساہنی کی کتاب ’’امرتسر آگیا‘‘ پر انعام ندیم کا ترجمہ ، آصف فرخی (مرحوم) کے آخری شمارہ ’’دنیازاد‘‘ پر ناصر عباس نیئر نے آن لائن، شکیل جاذب کی کتاب ’’نمی دانم‘‘ پر عباس تابش نے اور نصیر وارثی کے سہ ماہی ’’ورثہ‘‘ (نیویارک) پر خالد معین نے اظہار خیال کیا۔
The post ثقافتی رویے اور اقدارمعاشرے کی تشکیل کرتے ہیں، شافع قدوائی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/3qzKwo4
No comments:
Post a Comment
plz do not enter any spam link in the comment box