عالمی سطح پر تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال توجہ کی متقاضی

 اسلام آباد: دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدان محسن فخری زادہ کو 27 نومبر میں تہران میں ایک دہشتگردانہ حملے میں مار دیا گیا۔

محسن فخری کے قتل ہونے کے بعد جو بیانات ایران کے سپریم لیڈر اورایرانی صدر حسن روحانی کے طرف سے آئے ہیں وہ خطرناک ہیں۔ تاہم اب ایران کے صدر نے اسرائیل پر اس حملے کا براہِ راست الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ حکام مناسب وقت پر اس جرم کا جواب دیں گے۔قتل کی خبر پر ابھی تک اسرائیل کا کوئی بیان نہیں آیا ہے۔امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ جان برینن نے کہا کہ سائنسدان کا قتل ‘مجرمانہ’ اور ‘انتہائی غیر ذمہ دارانہ’ عمل ہے جو خطے میں تنازعے کو ہوا دینے کا سبب بن سکتا ہے۔

ایران کے مطابق مغربی حکومتیں جو ہمیشہ انسانی حقوق کا دعوی کرتی ہیں اب ممتاز ایرانی سائنسدان کے قتل کی مذمت کرنے سے انکار کر چکی ہیں،اور امریکی منتخب صدر اور ان کی ٹیم کی خاموشی مختلف تجزیے اور قیاس آرائیوں کا باعث بنی ہے۔

ایران کے مطابق، شہید فخری زادہ کے قتل اور اس کا نیا امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلق کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا کے ذریعہ اٹھایا جانے والا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت سے خطے میں اگلی امریکی انتظامیہ اور ایران کے مابین کوئی سفارت کاری تعلقات کے قیام کے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی حکومت کے قیام کے بعد واشنگٹن کو جوہری معاہدے میں دوبارہ واپسی کے لیے اپنی دلچسبی کا اعلان کیا تھا قدرتی طور پر تل ابیب اور ریاض جیسی حکومتوں کو یہ معاملہ پسند نہیں ہے۔

افغان امن عمل کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امن مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔ یہ فریقین کے درمیان 19 سالہ جنگ میں پہلا تحریری معاہدہ ہے جسے اقوام متحدہ اور امریکا نے خوش آئند قرار دیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق معاہدے سے مزید بات چیت کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور اسے اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے مذاکرات کار سیز فائر سمیت مزید ٹھوس مسائل پر آگے بڑھ سکیں گے۔یہ ابتدائی معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں کئی ماہ کی بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے جسے امریکا کی بھی حمایت حاصل تھی، تاہم دونوں فریقین اب بھی ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہیں اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کی فورسز پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ دنیا کی نظریں اس وقت جو بائیڈن پر ہیں وہ اب ایران میں جوہری سائنسدان کا قتل اور افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیاں معاہدے کو کیسے دیکھتے ہیں۔

دوسری جانب ابھی تک پاکستان کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل سامنا نہیں آیا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کی ہی لڑائی چل رہی ہے۔ آج ہی کے دن وزارت داخلہ کی جانب سے ایک ہدایت جاری کی گئی کہ وفاقی وزارت داخلہ نے صوبائی حکومتوں کو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تشکیل دی گئی ’ملیشیاز‘ کے افعال کا جائزہ لینے کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت کردی۔ اس سلسلے میں سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی جانب سے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹریز کو مراسلہ ارسال کیا گیا۔

مراسلے میں کہا گیا کہ ‘مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنی ملیشیاز قائم کر رکھی ہیں جو نہ صرف وردی پہنتی ہیں بلکہ مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرح ان میں درجہ بندی بھی ہے۔

مراسلے میں مزید کہا گیا کہ یہ ملیشیاز اپنے آپ کو ایک عسکری تنظیم کی طرح سمجھتی ہیں جو آئین کی دفعہ 256 اور نیشنل ایکشن پلان کے نکات (نمبر 3) کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مراسلے میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اس قسم کی چیزوں کو اگر دیکھا نہ جائے تو یہ سکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ اس مسئلے کا ملک کے قومی اور بین الاقوامی تشخص پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تنظیمیں دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیے غلط مثال قائم کر رہی ہیں اور دیگر جماعتیں بھی اس طرح کے افعال کر سکتی ہیں جس سے امن عامہ کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

مراسلے میں کہا گیا کہ مذکورہ بالا صورتحال کے تناظر میں تمام صوبائی حکومتوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس خطرے کا فوری جائزہ لیں اور ان کے افعال اور مزید اس قسم کی ملیشیاز کی تشکیل پر نظر رکھیں اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات کئے جائیں۔ساتھ ہی وفاقی حکومت کی جانب سے ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی معاونت بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔جے یو آئی(ف )کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزارت داخلہ کی جانب سے لیے گئے نوٹس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ یہ سیاسی دباؤ کے طور پر ایک رجسٹرڈ جماعت کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے۔

اپنے بیان میں مولانا فضل االرحمن کا کہنا تھا کہ ایسے مراسلے سیاسی دباؤ کے لیے ہوتے ہیں اور اس کے الفاظ نئے نہیں ہیں جبکہ اس وقت جان بوجھ کر ایک نان ایشو کو ایشو بنایا جا رہا ہے۔ سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ مسلح گروہ اور رضاکار میں فرق ہوتا ہے، رضاکار انصارالاسلام کے ہیں جو جے یو آئی کا ایک دستوری ونگ ہے۔ فضل االرحمن کا کہنا تھا کہ رضاکار الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہیں، اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ یہ رضاکار جے یو آئی (ف) کے دستور کا حصہ ہیں۔اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ اپوزیشن اور اداروں میں ایک جنگ چل رہی ہے اور حالات بند گلی کی طرف ہی جا رہے ہیں۔

دوسری جانب مریم نواز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور کے شہریوں کو 13 دسمبر کو اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اور جلسے میں آر یا پار ہوگا۔ مریم نواز نے لاہور میں عوامی رابطہ مہم کے تحت جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جعلی وزیراعظم کا نام تابعدار خان ہے اور وہ کل کہہ رہا تھا کہ لاہور کا جلسہ روکوں گا نہیں اس لیے اس کو پتہ ہے کہ لاہور کا جلسہ رکے گا نہیں۔

پچھلے کامیاب جلسوں کو لے کر اب اپوزیشن کی جانب سے بارہا یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جنوری میں تحریک انصاف کی حکومت کو جانا ہوگا جب کہ حکومت کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ دھرنوں اور احتجاج سے حکومت نہیں جانے والی، وزیر اعظم عمران خان آئینی مدت پورے کریں گے۔

حکومتی عہدیداروں کے بیانات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے اہم سربراہی اجلاس نے حکومتی پریشانی کو مزید بڑھا دیا ہے اور اب اپوزیشن حکومت کے اعصاب پر پوری طرح سوار ہے، ان سطور کی اشاعت تک پی ڈی ایم کے فیصلوں کی تفصیلات بھی منظر عام پر آجائیں گی۔

البتہ اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہان کی شرکت سے بات واضح ہو چکی ہے کہ ابھی تک متحدہ اپوزیشن ایک پیج پر ہے اور حکومت کوئی بڑی پھوٹ ڈلوانے میں کامیاب نہیں ہو پائی اور بعض حلقوں کی جانب سے اہم و مقتدر شخصیات کے نمائندوں کے پہنچنے کے بھی دعوے سامنے آرہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ لندن  میں حتمی مذاکرات ہونے جا رہے ہیں اور شائد اسی کو لے کر بعض حلقوں کی جانب سے جنوری میں حکومت کے گھر جانے کی باتیں کی جا رہی ہیں جس کیلئے اپوزیشن کی جانب سے اجتماعی استعفوں کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کی بات ہو رہی ہے۔

اس بات پر حکومت بھی گھبراہٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے جس کا اظہار وزیراعظم عمران خان کے کرسی چھوڑنے سے متعلق بیانات اور شاہ محمود قریشی کے اپوزیشن کے استعفوں سے متعلق بیانات سے واضح طور پر ہو رہا ہے اور وزیراعظم بھی خاصے متحرک ہوگئے ہیں، میڈیا سے ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں اور ٹی وی انٹرویوز بھی ہو رہے ہیں۔

تقریبات میں تو مخالفین کو شروع دن سے ہی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں بلکہ بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ گذشتہ اڑھائی ، پونے تین سال سے عوام کیلئے کچھ ڈلیور نہ کر پانے کی بڑی وجوہات میں کپتان کی زبانی گولہ باری ایک بڑی وجہ ہے جس نے احتساب کے عمل اور اداروں کو بھی متنازعہ بنادیا اور سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کو بھی بڑھوتری ملی جس سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اور اب اپوزیشن کے استعفوں کی خبروں نے مزید معاملات گھمبیر کر دیئے ہیں۔

The post عالمی سطح پر تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال توجہ کی متقاضی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/33SgQsf

No comments:

Post a Comment

plz do not enter any spam link in the comment box

رحیم یارخان میں 14 سالہ لڑکے سے دو سگے بھائیوں کی اجتماعی زیادتی

رحیم یار خان:  اوباش بھائیوں نے 14 سالہ لڑکے کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل...